Jawahir-ul-Quran - At-Tawba : 30
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں شَاعِرٌ : ایک شاعر ہے نَّتَرَبَّصُ : ہم انتظار کر رہے ہیں بِهٖ : اس کے بارے میں رَيْبَ : حوادث کا الْمَنُوْنِ : موت کے۔ زمانے کے
کیا کہتے ہیں یہ شاعر ہیں15 ہم منتظر ہیں اس پر گردش زمانہ کے
15:۔ ” ام یقولون “ یہ شکوی ہے۔ ” ریب المنون “ حوادث زمانہ یا حادثہ موت (خازن، مدارک) ۔ معاندین کبھی تو کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے جب تک زندہ ہے اس کے اشعار کو عروج ہے اور ہم اس کی موت کے منتظر ہیں جونہی اس نے آنکھیں بن دکیں یہ سارا کھیل ختم ہوجائیگا۔ ” قل تربصوا۔ الایۃ “ جواب شکوی ہے۔ آپ فرما دیجئے ہاں تم بھی انتظار کرو۔ میں بھی انتظار کرتا ہوں موت تو سب پر آئیگی، لیکن، تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ عزت کی موت کس کی ہوگی اور ذلت ورسوائی کی موت کس کے حصے میں آئیگی چناچہ ان معاندین نے میدان بدر میں دیکھ لیا کہ آخر ذلت و رسوائی ان ہی کیلئے مقدر تھی (مظہری، خازن) ۔ ” ام تامرھم۔ الایۃ “۔ مشرکین عقل و فہم کے مدعی تھے اور اپنے کو حلماء (عقلاء) کہتے تھے۔ ” ام “ منقطعہ ہے بمعنی ” بل “ یعنی کیا ان کی عقلیں انہیں اس تضاد بیانی پر آمادہ کرتی ہیں کہ پیغمبر (علیہ السلام) کو کبھی کاہن و مجنون اور کبھی شاعر کہتے ہیں۔ نہیں ! بلکہ یہ لوگ سرکشی اور عناد میں حد سے گزر چکے ہیں اور یہ سب بےہودگیاں ان کے عناد و استکبار اور طغیان وعدوان سے ناشی ہیں۔
Top