Jawahir-ul-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
جیسے نکالا تجھ کو5 تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کام کے واسطے اور ایک جماعت6 اہل ایمان کی راضی نہ تھی
5: یہ دعوی اولی “ اَلْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْل الخ ” کی پہلی علت ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ “ کَمَا ” میں کاف تعلیلیہ ہے جیسا کہ علامہ ابو حیات اندلسی نے لکھا ہے۔ “ و یظھر ان الکاف فی ھذا التخریج المنامی لیست لمحض التشبیه بل فیھا معنی التعلیل الخ ” (بحر ج 4 ص 463) اور “ اَلْحَق ” سے حکمت اور صواب مراد ہے۔ “ اخراجاً متلبساً با لحکمة والصواب ” (مدارک ج 2 ص 72، جامع البیان ص 152) ۔ سن 2 ھ کا واقعہ ہے کہ ابو سفیان کی سر کردگی میں مشرکین کا ایک تجارتی قافلہ شام سے واپس آرہا تھا جو قریش کے ساٹھ آدمیوں اور دیگر ملازمین پر مشتمل ہےحضور ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا کہ آیا قافلہ کا تعاقب کیا جائے یا نہ کچھ صحابہ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ چونکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے کوئی باقاعدہ جنگ کی صورت تو ہے نہیں اس پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت سعد بن عبادہ نے پرجوش تقریریں کیں اور مسلمانوں کو تعاقب کرنے پر ابھارا چناچہحضور ﷺ تین سو تیرہ آدمیوں اور معمولی ساز و سامان کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے چونک ہجنگ ہوجانے کی کوئی توقع نہ تھی اس لیے فوری طور پر جتنے آدمی جمع ہوگئے اور جس قدر سرسری سامان فی الوقت ہاتھ لگا وہی لے کر چل دئیے۔ ادھر ابو سفیان کو بھی اپنے مخبر کے ذریعے حضور ﷺ کے پروگرام کا علم ہوگیا اس نے ابوجہل کی اطلاع کے لیے فوراً ایک آدمی مکہ روانہ کردیا۔ ابوجہل اطلاع پاتے ہی ایک ہزار جنگجو نوجوانوں کی معیت میں جو ہر قسم کے جنگی ہتھیاروں سے مسلح تھے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جب آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے دوبارہ صحابہ سے مشورہ کیا کہ اب ہمارے سامنے دو جماعتیں ہیں ایک تجارتی قافلہ اور ایک مشرکین کا لشکر جرار ان دونوں میں سے کس سے نبرد آزمائی کرنا چاہئے۔ بعض مسلمانوں نے کہا کہ ہم چونکہ جنگ کے لیے تیار ہو کر نہیں آئے اور مشرکین کی فوج تعداد میں ہم سے زیادہ اور سامان جنگ میں ہم سے مضبوط ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا دشوار ہوگا اس لیے قافلہ ہی سے مقابلہ کرنا چاہئےحضور ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی آپ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک کو ہمارے ہاتھوں مغلوب کرے گا۔ اس لیے ہمیں لشکر ہی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ تاکہ فیصلہ کن جنگ کے ذریعے مشرکین کی طاقت کا خاتمہ ہوجائے۔ حضرت ابوبکر، حضرت سعد اور حضرت مقداد ؓ نے بھی حضور ﷺ کی رائے کے حق میں زور دار تقریریں کیں آخر میدان بدر میں مشرکین کا لشکر جرار اور مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج آپس میں بھڑ گئیں اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن مقابلہ ہوا مشرکین کے ستر سردار جن میں ابوجہل بھی تھا مارے گئے اور ستر قید ہوئے۔ اس طرح جزیرہ عرب میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس فتح میں بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں اختلاف مت کرو اور اپنی رائے کو اس میں دخیل مت بناؤ۔ اس کی تقسیم اللہ کے حکم سے اللہ کا پیغمبر فرمائے گا کیونکہ یہ فتح اور یہ اموال غنیمت تمہارے تو خواب و خیال میں بھی نہ تھے اور تم تو اس لشکر کے سامنے آنے ہی سے جی چراتے تھے یہ سب اللہ کی مہربانی اور اس کی توفیق سے ہوا کہ اس نے قافلے کے تعاقب کے بہانے تم کو مدینہ سے نکالا اور ایک بڑے لشکر سے بھڑا دیا اور اس میں اس کی حکمت مضمر تھی کہ اس نے بےسرو سامان مٹھی بھر مسلمانوں کو اچانک ہی ایک مضبوط فوج سے بھڑا کر حق و باطل کا فیصلہ کردیا۔ اور ڈھیروں مال غنیمت ان کے قبضے میں دیدیا۔ 6: یعنی مدینہ سے قافلے کے تعاقب میں نکلتے وقت بعض مسلمانوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ “ يُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ ” الحق یعنی بالکل ظاہ ر اور واضح بات۔ “ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ ” یہ کراہیت کی تمثیل ہے یعنی مدینے سنکلنے کو اس طرح ناپسند کر رہے تھے گویا کہ انہیں مو نظر آرہی تھی۔ بتقاضائے بشریت بعض مسلمانوں سے اس کا ظہور ہوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو مومن ہی فرمایا ہے اور ان کی ناگواری بھی ابتداء ہی میں تھی جو بعد میں خوشی اور رضامندی میں تبدیل ہوگئی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں کراہیت بوقت خروج مراد نہیں بلکہ قافلہ چھوڑ کر لشکر سے مقابلہ کرنے پر کراہیت مراد ہے۔ “ ضمیر الرفع فی یجادلونک عائد علی فریق المومنین الکارھین وجدالھم قولھم ما کان خروجنا الا للعیر ولو عرفنا لاستعددنا للقتال ”(بحر ج 4 ص 463) لیکن سیاق سے پہلا مفہوم راجح معلوم ہوتا ہے۔
Top