Kashf-ur-Rahman - Al-Qasas : 81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ
فَخَسَفْنَا : پھر ہم نے دھنسا دیا بِهٖ : اس کو وَبِدَارِهِ : اور اس کے گھر کو الْاَرْضَ : زمین فَمَا كَانَ : سو نہ ہوئی لَهٗ : اس کے لیے مِنْ فِئَةٍ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : مدد کرتی اس کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے وَمَا كَانَ : اور نہ ہوا وہ مِنَ : سے الْمُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پھر ہم نے قارون کو اور اسکے مکان کو زمین میں دھنسا دیا پھر اس کی مدد کو کوئی ایسی جماعت نہیں ہوئی جو خدا سے اس کو بچالیتی اور نہ وہ اپنے آپ کو خود ہی بچا سکا
81۔ آخر کار ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا پھر اس کی مدد کو کوئی ایسی جماعت کھڑی نہیں ہوئی جو اللہ کے عذاب سے اس کو بچا لیتی اور نہ وہ اپنے آپ کو خو ہی بچا سکا ۔ قارون کی شرارت بڑھتی رہی اور زکوٰۃ ادا کرنے کو آمادہ نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے چاہا موسیٰ (علیہ السلام) علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجمع عام میں توہین کرائے اس کے لئے اس نے ایک عورت کو کثیر رشوت دیکر آمادہ کیا اور جب موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زنا کی حد بیان کررہے تھے تو قارون نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) اگر آپ بھی اس فعل شنیع کے مرتکب ہوں تو کیا اسی سزا کے مستحق ہوں گے آپ نے فرمایا بیشک قارون نے عورت کی طرف اشارہ کیا وہ کھڑی ہوئی اور وہ اپنے ساتھ بدکاری کی نسبت بیان کرنے لگی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا خدا کے غضب سے ڈر کر بیان دے اور جو کہناچاہتی ہے وہ کہہ اس پر یہ عورت ڈر گئی اور اس نے رشوت کا تمام واقعہ سنا دیا اور وہ تھیلیاں بھی پیش کیں جن پر قارون کی مہر لگی ہوئی تھی ۔ اس پر مجمع میں قارون پر ملامت ہونے لگی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مسجد سے گر کر دعا مانگنے لگے اس پر ارشاد ہوا موسیٰ (علیہ السلام) تم زمین کو حکم دو وہ تمہاری اطاعت کریگی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین سے فرمایا اے زمین اس کو پکڑ لے۔ چنانچہ قارون زمین میں دھنسنا شروع ہوا اس خسف سے پہلے آپ نے اعلان کردیا کہ تمام بنی اسرائیل یہاں سے چلے جائیں اور صرف قارون اور اس کے ساتھی یہاں ٹھہرے رہیں چناچہ صرف دو آدمی قارون کے ساتھ بیٹھے رہے اور وہ قارون کے ساتھ زمین میں دھنسنے لگے ان لوگوں نے چلانا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معافی مانگنی شروع کی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برابر زمین سے کہتے رہے کہ زمین اس کو پکڑ یہاں تک زمین قارون کو نگتی چلی گئی ۔ بعض مفسرین نے صرف قارون کے دھنسنے کا ذکر کیا ہے ۔ دھنستے دھنستے بھی قارون آنکھوں کے اشاروں سے معافی مانگتا رہا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر رحم نہیں کیا ۔ بہر حال ! یہ زمین میں دھنس گیا اور اس کے تمام خزانے اور اس کا مال و متاع بھی زمین میں دھنسا دیا گیا ۔ چونکہ بنی اسرائیل کے بعض لوگوں نے شبہ کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مال پر قبضہ کرنے کی وجہ سے ایسا کیا ہے اس لئے اس کا سامان بھی اسی جگہ دھنسا دیا گیا اور وہ اپنے گھر سمیت زمین میں دھنس گیا نہ کوئی اس کا حمایتی آیا نہ کوئی اس کے رضا کاروں اور حاشیہ نشینوں میں سے آیا اور نہ ہو اپنی مدد خود کرنے کے قابل تھا جب قارون کا یہ انجام ہوا تب ان دنیا کی خواہش کرنیوالوں کی آنکھیں کھیلیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔
Top