Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 22
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی الَّذِيْنَ : وہ جو کہ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُھُمْ : ان کے عمل فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کا مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے اور ان کا کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا1
1۔ بلا شبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی آیات اور اس کی ہدایت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کو ناحق جانتے ہوئے قتل کر ڈالتے ہیں اور خدا کی مخلوق میں سے جو لوگ عدل و راستی اور حق و انصاف کی تعلیم و ترغیب دیتے ہیں ان کو بھی قتل کر ڈالتے ہیں ۔ سوائے پیغمبر ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی خوش خبری دے دیجئے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے اور ان کے تمام اعمال صالحہ غارت ہوگئے اور ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ ہوگا یعنی عذاب کے وقت ۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ خصائل مذکورہ بنی اسرائیل میں سے فرقہ یہود کے ہیں اور اگرچہ یہ کام سابقہ لوگوں نے کئے تھے لیکن حضور ﷺ کے زمانہ کے یہودی بھی اپنے اسلاف کی ان حرکات شنیعہ کو پ سندیدہ نگاہ سے دیکھتے تھے اس لئے ان افعال کی نسبت تمام یہود کی طرف صحیح ہے اور یہود کے یہ خلف صرف یہی نہیں کہ اپنے اسلاف کی ان نازیبا حرکات کو پسند کرتے تھے بلکہ نبی آخر الزمان ؐ کے قتل کی سازش بھی کیا کرتے تھے ۔ اس لئے پہلے اور پچھلے سب ہی مورد الزام قرار پائے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب کا مستحق کون ہوگا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی نبی کو قتل کر دے یا ایسے شخص کو قتل کر دے جو بھلائی کا حکم کرے اور بری باتوں سے روکے ، پھر حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ ویقتلون النبین بغیر حق ویقتلون الذین یا مرون بالقسط من الناس پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو عبید ہ ؓ ! بنی اسرائیل نے تینتالیس 34 پیغمبروں کو ایک دن دوپہر تک قتل کردیا پھر ان کی جگہ ان کے متعبین میں سے ایک سو بارہ عالموں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت اپنے ذمہ لے لی ۔ لیکن ا ن بنی اسرائیل نے ان سب علماء اور صوفیاء کو بھی شامل تک قتل کر ڈالا ۔ ان ہی لوگوں کا وہ واقعہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ بعض روایات میں ایک سو ستر ہیں ۔ بغیر حق کا مطلب یہ ہے کہ یہود جانتے تھے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا قتل کرنا حرام ہے اور نبی کا قتل کرنا بہر حال ناحق ہے اس لئے ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں ناحق جانتے ہوئے ترجمہ کیا ہے اور ہم یہ بات سورة بقرہ میں بتا بھی چکے ہیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ صرف نبیوں کو ہی قتل نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے جانشین علماء اور زہاد کو بھی قتل کردیا کرتے تھے۔ گویا ہدایت کی تمام راہیں اور سب دروازے ہی مسدود کرنے کے درپے تھے اور ہمیشہ اہل باطل کا یہی دستور رہا ہے کہ انہوں نے پیغمبر کے بعد علماء حق کو قتل کیا ہے اور ان کے اثر کو زائل کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے تا کہ حق کی مخالفت میں ان اہل باطل کو آسانیاں مہیا ہوجائیں اور کوئی جائز و ناجائز کہنے والا باقی نہ رہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آواز بند ہوجائے۔ حبطت کے معنی ہم سورة بقرہ میں بیان کرچکے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان حرکات کے باعث ان کے تمام نیک اعمال برباد ہوگئے ۔ دنیا میں بھی ان کی تمام کوششیں بیکار گئیں اور کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو اور آخری میں بھی ان کے بھلے اعمال کا ان کو کوئی پھل نہیں ملا اور عذاب کے وقت ان کا کوئی حمایتی بھی نہیں نکلا جو ان کی کچھ مدد کرتا اور ہر کافر کے کفر کا انجام یہی ہوا کرتا ہے ۔ عذاب کی خبر کو بشارت سے تہکما ً ذکر فرمایا ہے جس طرح ایک ذی اقتدار سزا دیتے وقت کہا کرتا ہے کہ میں تم کو بشارت دیتا ہوں تم کو جیل بھیجا جائے گا یا سخت سزا دی جائے گی۔ آگے یہود کے ایک اور واقعہ کا ذکر ہے کسی موقع پر اثنائے گفتگو میں یہود نے کسی بات کا دعویٰ کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہماری کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہودی کہہ کر توریت کی طرف نسبت کی ہو۔ جیسا کہ حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زانی کو رجم کرنے کے سلسلہ میں کوئی غلط مسئلہ توریت کا نام لے کر بیان کردیا ہو جیسا کہ کلبی نے بواسطہ ابو صالح حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے۔ بہر حال اس بات پر نبی کریم ﷺ نے مطالبہ کیا کہ توریت لائو اور جو کچھ تم کہتے ہو وہ توریت میں دکھائو اس پر ان لوگوں نے توریت لانے سے انکار کردیا جس نے یہ غلط بیان کی اس کا نام ابن صور یا نعیم بن عمرو تھا ۔ بہر حال نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top