Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 30
یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا١ۛۖۚ وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ١ۛۚ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًا١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۠   ۧ
يَوْمَ : دن تَجِدُ : پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کی مِنْ : سے (کوئی) خَيْرٍ : نیکی مُّحْضَرًا : موجود وَّمَا : اور جو عَمِلَتْ : اس نے کی مِنْ : سے۔ کوئی سُوْٓءٍ : برائی تَوَدُّ : آرزو کریگا لَوْ اَنَّ : کاش کہ بَيْنَهَا : اس کے درمیان وَبَيْنَهٗٓ : اور اس کے درمیان اَمَدًۢا : فاصلہ بَعِيْدًا : دور وَيُحَذِّرُكُمُ : اور تمہیں ڈراتا ہے اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : شفقت کرنے والا بِالْعِبَادِ : بندوں پر
وہ دن یاد رکھو جس دن ہر شخص اس بھلائی کو جو اس نے کی ، اپنے روبرو موجود پائے گا اور جو اس نے برائی کی تھی اس کی بھی اپنے سامنے موجود پائے گا یہ حالت دیکھ کر آرزو کرے گا کہ کیا اچھا ہوتا جو اس شخص کے اور اس دن کے بلین بہت دور کا فاصلہ ہوجاتا اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنے سے ڈراتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں پر بڑی شفقت کرنیوالا ہے3
3 ۔ اے پیغمبر ! آپ ان نے کہہ دیجئے جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اگر تم اپنے اس مانی الضمیر کو چھپائے رکھو تب اور اگر تم اپنے کسی عمل سے اس کو ظاہر کردو تب ہر حال میں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے اور ایک تمہارے ما فی الضمیر پر کیا منحصر ہے اللہ تعالیٰ تو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس سب کو بھی جانتا ہے ۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا مجرموں کو سزا دینے پر اسے قدرت حاصل ہے اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی بھلائی کو اور اپنی کی ہوئی برائی کو اپنے سامنے دھرا پائے گا یعنی برائی اور بھلائی کا پھل سامنے آجائے گا اس روز آدمی یہ تمنا کرے گا اور اس حالت کو دیکھ کر یہ خواہش کرے گا کہ کیا اچھا ہوتا جو اس شخص کے اور اس دن کے مابین بہت دور کی مسافت اور بہت دور کا فاصلہ ہوتا یعنی یہ دن ابھی دیکھنے میں نہ آتا اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنے سے ڈراتا اور خوف دلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و مہربانی کرنے والا اور ان کا بہی خواہ ہے اور اس کی یہ شفقت ظاہ رہے کہ بندوں کو قبل از وقت خطرے سے ہوشیار کرتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا علم زمین و آسمان کی ہر شئے کو محیط ہے خواہ وہ چھپی ہو یا کھلی ہو اس لئے وہ تمہارے قلوب کے پوشیدہ بھیدوں سے بھی واقف ہے خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا نہ کرو اگر تم کفار سے پوشیدہ موالات کرو گے یا اعلانیہ دوستی کا پیغام بھیجو گے تو ہم کو سب معلوم ہے اور چونکہ جس طرح اس کا علم ہر شے کو محیط ہے اسی طرح اس کی قدرت بھی ہر شے کو محیط ہے ، لہٰذا ہمارے احکام کی جب مخالفت کرو گے خواہ وہ چھپ کر کرو یا آشکارا کرو ہم اس کی مخالفت کی سزا دیں گے ۔ آگے کی آیت میں سزا کے دن کا ذکر فرمایا کہ وہ دن ایسا ہوگا کہ اس د ن ہر انسان کا کیا اس کے روبرو دہرا ہوگا ۔ خواہ وہ اچھا ہو یا برا اور اس دن ہر شخص یہ خواہش کرتا ہوگا کہ یہ دن کہیں مجھ سے دورچلا جائے اور کسی طرح یہ دن نظر نہ آئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نامہ اعمال کے دور ہونے کی تمنا کرے گا اور یہ خواہش کرے گا کہ کاش میرے اور میرے ان اعمال کے درمیان دور دراز کا فاصلہ ہوجاتا اور میرے اعمال میرے سامنے نہ آتے اور اس دن کے خوف کا یہ حال ہوگا اور میرے اعمال کی دہشت کا یہ عالم ہوگا کہ نیک اعمال کی طرف بھی متوجہ نہ ہو سکے گا ۔ یہ تو ان لوگوں کا حال ہوگا جن کے پاس اچھے اور برے عمل مخلوط ہوں گے وہ بھی گھبرا کر یہ کہیں گے۔ لو ان بینھا و بینہ امدا بعیدا اور جس کے پاس صرف برے ہی برے اعمال ہوں گے تو اسکا پوچھنا ہی کیا ہے کہ اس پر کیا بنے گی رہا وہ شخص کہ جس کے پاس نیک ہی نیک اعمال ہونگے یا وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے اپنے سایہ عاطف میں چھپالے تو اس کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے اس آیت کی ترکیب میں کئی طریقے اختیار کئے گئے ہیں ۔ ہم نے ان میں سے صرف ایک مشہور طریقہ کی بنا پر ترجمہ کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ چونکہ حق تعالیٰ کا خوف گناہوں سے محفوظ رہنے کا صحیح علاج ہے اس لئے اس مفید علاج کی دو بارہ تاکید فرمائی اور یحذرکم اللہ نفسہ فرما کر اس کی جانب اشارہ فرمایا اور چونکہ گناہ سے بچانا اور گناہوں سے بچنے کا علاج بتانا یہ حق تعالیٰ شانہٗ کی بہت بڑی مہربانی اور اپنے بندوں پر بہت بڑی شفقت ہے۔ اس لئے آخر میں فرمایا واللہ رئوف بالعباد یاد کھنا چاہئے کہ میدان حشر میں حالات مختلف ہوں گے اور سینکڑوں واقعات پیش آئیں گے اور گناہ گا رصد ہا باتیں کہیں گے یہاں پیش آ نے والے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ کا ذکر ہے یعنی ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب ہر شخص نامہ اعمال کو سامنے دھرا دیکھ کر یوں کہے گا۔ لو ان بینھا و بینہ امدا بعیدا ۔ بعض حضرات نے اس مسافت کو مشرق سے مغرب تک بتایا ہے یعنی اتنی دوری کی خواہش کرے گا جیسے مشرق سے مغرب دور ہے لیکن ہم نے عرض کردیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ یہ دن یا یہ اعمال نگاہ سے اوجھل ہوجائیں ۔ اور نظر نہ آئیں ، اب آگے اہل کتاب کے بعض غلط و عادی کا جواب ہے اور نبی کریم ﷺ کی اتباع اور آپ پر ایمان لانے کی بحث ہے اور توحید کے ساتھ رسالت پر ایمان کی ۔۔۔۔ ضرورت کا اظہار ہے اور یہ بات بتانی ہے کہ یہ تمام انبیاء (علیہم السلام) ایک ہیں اور ان کی ایک ہی برادری ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرھم پر تو ایمان رکھو اور نبی آخر الزماں کی نبوت کا انکار کرو بلکہ جس طرح مسلمان نبی آخر الزماں پر ایمان رکھنے کے ساتھ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک سب رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی کرنا چاہئے اور یہ سمجھ کر کہ ہم خدا کے محبوب اور اس کی اولاد ہیں چناچہ ہم کو کسی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ خیال بالکل غلط ہے ، نبی آخر الزماں ﷺ کی اتباع اور آپ پر ایمان لانا مقدم ہے۔ اتباع کے بعد اتباع نبوی کی برکت سے خدا تعالیٰ جو بنائے وہ بن سکتے ہو اور جس مرتبہ سے سرفراز فرمائے اس سے سرفراز ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ دو رکوع تک مسلسل اور مربوط یہی بحث چلی گئی ہے اور جن نبیوں کا زمانہ نبی کریم ﷺ کے زمانے سے قریب گزرا تھا ان کا ذکرذرا تفصیل سے فرمایا ہے ، کیونکہ اہل کتاب میں ان نبیوں کا تذکرہ جاری تھا ان کا ذکر کرنا اہل کتاب کے لئے مؤثر بھی تھا اور ان تاریخی غلطیوں کی اصلاح بھی مقصود تھی جو بعض پڑھے لکھے لوگوں نے اپنی اغراض کے ماتحت تاریخ کی ترتیب میں پیدا کردی تھیں ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ یوں دعا فرمایا کرتے تھے۔ یا حنان یا منان یا ذا الجلال والاکرام با عدبینی و بین خطیئتی کما باعدت بین المشرق والمغرب ونقنی من الخطایا کما ینقی التوب الا بیض من الدنس واغسلنی بماء الثلج والبرد سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ العظیم واتوب الیہ۔ ایک اور ضعیف روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کو دیکھ کر ایک دن فرمایا اپنی حالت پر تعجب نہ کرو اور خود بینی سے کام نہ لو اور اپنے نیک اعمال کی کثرت اور گناہوں کی قلت کو نہ دیکھا کرو بلکہ ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کا خاتمہ کس حالت پر ہوتا ہے ۔ اعمال کا انحصار خاتمہ پر ہے اگر تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن ستر نبیوں کے برابر بھی عبادت لے کر آئے گا تو وہ بھی قیامت کے خوف اور ہول کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے پاس عبادت اور زیادہ ہوتی۔ ( تسہیل)
Top