Al-Qurtubi - Al-Kahf : 82
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ١ؕ هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
ذُوْقُوْا : تم چکھو فِتْنَتَكُمْ ۭ : اپنی شرارت ھٰذَا الَّذِيْ : یہ وہ جو كُنْتُمْ بِهٖ : تم تھے اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : جلدی کرتے
اور وہ جو دیوار تھی دو یتیم لڑکوں کی تھی جو شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ مدفون تھا، اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپناخزانہ نکالیں یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کیے یہ ان باتوں کی حقیقت ہے جن پر تم صبر نہ کرسکے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واما الجدار فکان لغلمین۔ (1) یہ لڑکے دونوں چھوٹے تھے کیونکہ یتیم کے ساتھ ان کی صفت بیان کی گئی ہے۔ ان کے نام اصرام اور صریم تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لا یتم بعد بلوغ “ بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہے۔ “ یہی ظاہر ہے۔ یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ ان پر شفقت کی بناء پر بعد از بلوغ یتیم کا لفظ بوالا گیا ہو اگرچہ وہ یتیم نہ تھے (2) یہ پہلے گزر چکا ہے کہ لوگوں میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کا باپ فوت ہوجائے اور حیوانوں میں وہ ہوتا ہے جس کی ماں مر جائے۔ فی المدینۃ میں دلیل ہے کہ دیہات کو بھی مدینہ کہا جاتا ہے، اسی سے حدیث ہے امرت بقریۃ تاکل، القری (3) اور ہجرت کی حدیث میں ہے۔ لمن انت۔ تو اس شخص نے کہا : من اھل المدنیۃ۔ یعنی مکہ سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکان تحتہ کنزلھما، کنز کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، عکرمہ اور قتادہ نے کہا : وہ بہت بڑا مال تھا، یہ کنز کے اسم سے ظاہر ہے کیونکہ لغت میں مال مجموع کو کنزل کہا جاتا ہے، اس کے متعلق کلام گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا یہ علم تھا جو مدفون صحیفوں میں تھا ( 4) حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے فرمایا : وہ سونے کی تختی بھی جس پر یہ لکھا ہوا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم مجھے تعجب ہے اس شخص کے لیے جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر وہ کیسے پریشان ہوتا ہے ؟ مجھے تعجب ہے اس پر جو رزق پر ایمان رکھتا ہے پھر وہ کیسے تھکتا ہے ؟ مجھے تعجب ہے اس پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر وہ کیسے خوش ہوتا ہے ؟ مجھے تعجب ہے اس پر جو حساب پر ایمان رکھتا ہے پھر کیسے غافل ہوتا ہے ؟ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو اس کو جانتا ہے اور اس کے اپنے اہل کے ساتھ تبدیل ہونے کو بھی جانتا ہے پھر اس کے لیے مطمئن ہوتا ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ عکرمہ اور عمر مولی غفرہ سے اسی طرح مروی ہے، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے یہ نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکان ابوھما صالحاً سیاق کلام اور لفظ کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا قریبی والد تھا (1) بعض علماء نے فرمایا : وہ ان کا ساتواں دادا تھا ؛ یہ جعفر بن محمد کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : وہ دسواں دادا تھا اس کی وجہ سے ان کی حفاظت کی گئی اگرچہ وہ صلاح کے ساتھ مشہور نہ تھا، اسے کا شخ کہا جاتا تھا ؛ یہ مقاتل کا قول ہے۔ ان کی والدہ کا نام دینا تھا ؛ یہ نقاش نے ذکر کیا ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ صالح شخص کی اپنی بھی حفاظت فرماتا ہے اور اس کی اولاد کی بھی حفاظت فرماتا ہے، اگرچہ وہ اس سے بہت دور کا رشتہ رکھتے ہوں، روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ صالح آدمی کی سات پشتوں تک حفاظت کرتا ہے، اس پر دلیل اللہ تعالیٰ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ان ولی اللہ الذی نزل الکتب وھو یتولی الصلحین۔ (الاعراف) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما فعلتہ عن امری۔ یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نبی تھے (2) ان کے بارے میں اختلاف گزر چکا ہے۔ ذلک تاویل یعنی تفسیر۔ مالم تسطع علیہ صبرا۔ ایک جماعت نے تستطع پڑھا ہے۔ جمہور علماء نے تسطع پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا : ہم مصحف کے خط میں اسی طرح پڑھتے تھے۔ یہاں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اگر کوئی کہنے والا کہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نوجوان کا ذکر نہ آیت کی ابتداء میں ہوا نہ آخر میں ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں اختلاف ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نوجوان کا ذکر نہیں سنا گیا حالانکہ وہ ان کے ساتھ تھا، تو حضرت اببن عباس ؓ نے فرمایا سے پوچھا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نوجوان کا ذکر نہیں سنا گیا حالانکہ وہ ان کے ساتھ تھا، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نوجوان نے پانی پیا تھا پس وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسے عالم نے پکڑا اور اس پر کشتی کو چسپاں کردیا پھر اس دریا میں چھوڑ دیا وہ اس کے ساتھ قیامت تک دریا میں گھومتی رہے گی یہ اس لیے ہوا کہ اسے پانی پینا نہیں تھا، لیکن اس نے اس سے پانی پی لیا تھا۔ قشیری نے کہا : اگر یہ ثابت ہو تو پھر نوجوان یوشع بن نون نہ ہو کیونکہ یوشع بن نون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد زندہ رہے تھے اور ان کے خلیفہ تھے۔ اظہر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نوجوان کو واپس بھیج دیا تھا جب ان کی حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہمارے شیخ امام ابوالعباس نے کہا : یہ احتمال ہے کہ متبوع کے ذکر کی وجہ سے تابع کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان لڑکوں کے خزانہ کو نکالنے کے واقعہ کو اللہ کی طرف کیسے منسوب کیا جبکہ انہوں نے کشتی کو شگاف لگانے کے بارے میں کہا فاردت ان اعیبھا عیب کی نسببت اپنی طرف کی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیوار میں ارادہ کو اللہ کی طرف منسوب کیا کیونکہ ایک لمبے زمانہ میں ایک نیا امر تھا اور غیوب میں سے ایک غیب تھا، پس اس جگہ صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہی بہتر تھا، اگرچہ حضرت خضر علیہ اللسلام نے وہ ارادہ کیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : چونکہ یہ کام تمام خیر تھا تو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی۔ اور کشتی کے عیب کو ادبب کی رعایت کرتے ہوئے اپنی طرف منسوب کیا کیونکہ یہ عیب کا لفظ تھا پس انہوں نے ادب کا خیال کرتے ہوئے ارادہ کو اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی طرف منسوب کیا جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہم السلام) نے ادب کا خیال کرتے ہوئے کہا تھا : واذا مرضت فھو یشقین۔ (اشعرائ) پہلے اور بعد میں فعل کو اللہ کی طرف منسوب کیا اور اپنی طرف مرض کی نسبت کی کیونکہ اس میں نقصک اور مصیبت کا معنی ہے، پس اللہ تعالیٰ کی طرف صرف وہی الفاظ منسوب کیے جاتے ہیں جو مستحسن ہوں۔ یہ ایسے ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیدک الخیر (آل عمران : 26) خیر پر اکتفا فرمایا اور شر کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا اگرچہ خیرو شر، نقصان اور نفع اس کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی ہر شے سے آگاہ ہے، اس پر اس حدیث سے اعتراق نہیں کیا جاسکتا جس میں ہے کہ ” اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا : اے ابن آدم ! میں مریض تھا تو تو نے میری عیادت نہیں کی، میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو تو نے مجھے کھلایا نہیں تھا، میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا “ (1) یہ خطاب میں تنزل اور عتاب میں تلطف ہے۔ اس کا مقصد ذی الجلال کی فضیلت کی پہچان ہے، اور ان پر اعمال کے ثواب کی مقادیر کی معرفت ہے ؛ یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کو شایان ہے کہ اپنے لیے جو چاہے بیان کرے اور ہمیں صرف اسی کی اجازت ہے جس میں اوصاف جمیلہ کا ذکر ہو اور افعال شریفہ کا بیان ہو۔ اللہ تعالیٰ نقائص اور آفات سے بلند وبالا ہے۔ لڑکے کے بارے میں فرمایا : فاردنا قتل کی نسبت اپنی طرف کی، افضل کمال خلق اور کمال عقل ہے۔ سورة انعام میں اس کا معنی گزر چکا ہے۔ الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ ہمارے شیخ ابوالعباس نے فرمایا : زنادقہ باطنیہ قوم سلوک طریق کا نظریہ رکھتے ہیں جس سے احکام شرعیہ لازم ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : یہ احکام شرعیہ عامہ جو ہیں ان کے ساتھ حکم اغبیاء اور عوام پر لگایا جاتا ہے۔ رہے اولیاء اور اہل خصوص وہ ان نصوص کے محتاج نہیں ہیں بلکہ ان سے وہی مراد ہوتا ہے جو ان کے دلوں میں واقع ہوتا ہے اور ان پر اس کے ساتھ حکم لگایا جاتا ہے جو ان کے خواطر پر غالب آتا ہے، انہوں نے کہا : یہ اس لیے ہے کہ ان کے دل کدورتوں سے صاف ہوتے ہیں اور ان کے دل اغیار سے خالی ہوتے ہیں، اور ان کے لیے علوم الٰہیہ روشن ہوتے ہیں اور حقائق ربانیہ واضح ہوتے ہیں، وہ اسرار کائنات پر واقف ہوتے ہیں اور جزئیات کے احکام جانتے ہیں اس لیے وہ احکام شرعیہ کلیہ سے مستغنی ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے لیے اتفاق ہوا وہ علوم جو ان کے لیے روشن تھے ان کی وجہ سے وہ ان علوم سے مستغنی ہوئے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھے اور یہ لوگ یہ حدیث اپنے اس نظریہ پر نقل کرتے ہیں ” اپنے دل سے فتویٰ پوچھ اگرچہ مفتی تجھے فتویٰ دیں “ ہمارے شیخ نے فرمایا : یہ قول زندقۃ اور کفر ہے، اس کے قائل کو قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ طلب نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ معلوم شرائع کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت جاری فرمائی اور اپنی حکمت نافذ فرمائی ہے کہ اس کے احکام معلوم نہیں ہوتے ہیں مگر ان رسولوں کے واسطہ سے جو اس کے اور مخلوق کے درمیان سفیر ہوتے ہیں وہ اس کے پیغام اس کی طرف پہنچاتے ہیں اور وہ اس کی شریعت اور احکام ببیان کرتے ہیں، اسی وجہ سے اس نے انہیں چنا ہے اور اس کے ساتھ انہیں خاص کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ یصطفی من الملٰئکۃ رسلا ومن الناس ط اللہ سمیع بصیر۔ (الحج) اور فرمایا : اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام :124) کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین مبشرین ومنذرین (البقرہ :213) اس کے علاوہ بھی آیات ہیں۔ بہرحال علم یقینی اور قطعی یقین اور سلف و خلف کا اس بات پر اجماع حاصل ہے کہ احکام الٰہیہ کی معرفت کا کوئی راستہ نہیں جو اس کے امر اور نہی پر مشتمل ہیں اور ان میں سے کسی حکم کی پہچان نہیں ہو سکتی مگر رسولوں کی جہت سے۔ پس جو کہتا ہے کہ کوئی دوسرا طریقہ ہے جس سے امرونہی کی پہچان بغیر رسولوں کے ہوتی ہے رسولوں کی جس میں ضرورت نہیں تو وہ کافر ہے، اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ طلب نہیں کی جائئے گی اور نہ اس کے ساتھ سوال و جواب کی ضرورت ہے۔ پھر یہ تو ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد دوسرے انبیاء کا اثبات ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیائء اور خاتم الرسل بنایا ہے۔ حالانکہ اس کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول اس کا بیان یہ ہے کہ جو کہتا ہے کہ وہ اپنے دل سے احکام لیتا ہے جو اس کے دل میں واقع ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا وہ اس کے مقتضا کے مطابق عمل کرے گا وہ اس کیفیت کے ساتھ کتاب و سنت کا محتاج نہیں تو اس نے خاص اپنے لیے نبوت ثابت کی کیونکہ یہ اس طرح ہے جو رسول ﷺ نے فرمایا تھا : کہ ” روح القدس نے میرے دل میں پھونکا “۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ جمہور لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا وصال ہوگیا ہے۔ اور ایک جماعت نے کہا : وہ زندہ ہیں کیونکہ آپ نے آب حیات کے چشمہ سے پانی پیا تھا۔ وہ زمین میں باقی ہیں اور وہ بیت اللہ کا حج کرتے ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : اس مفہوم میں نقاش نے بڑی لمبی کلام کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ببہت سی چیزیں حضرت علی ؓ وغیرہ سے روایت کی ہیں۔ یہ تمام روایات کسی بنیاد پر مبنی نہیں۔ اگر حضرت خضر علیہ اللسلام زندہ ہوتے اور حج کرتے تو ملت اسلامیہ میں ان کا ظہور ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کی تفاصیل کو جاننے والا ہے اس کے علاوہ کوئی ربب نہیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کے وصال پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے : ارایتم لیلتکم ھذہ فانہ لا یبقی ممن ھوالیوم علی ظھر الارض احد (1) ۔ میں کہتا ہوں : یہ امام بخاری کا مسلک ہے، قاضی اببوبکر نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ صحیح قول دوسرا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں جیسا کہ ہم ذکر کریں گے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی پاک ﷺ نے اپنی زندگی کے آخر میں ایک رات عشاء کی نماز پڑھائیع جب سلام پھیلرا تو آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا : ” تم اپنی اس رات کے بارے میں بتائو کہ اس سے سو سال کے آغاز پر جو سطح زمین پر ہے ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا “ (2) ۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : نبی کریم ﷺ کی بات پر لوگ غلط تبصرے کرنے لگے، سو سال کے بارے میں مختلف باتیں کرنے لگے جو وہ کرتے تھے۔ نبی اپک ﷺ نے فرمایا : ” جو آج سطح زمین پر ہے اس میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا “ (3) ۔ اس سے مراد یہ تھا کہ یہ قرن ختم ہوجائے گی۔ اس حدیث کو حضرت جابر بن عببدالللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو وصال سے ایک مہینہ پہلے یہ کہتے ہوئے سنا : ” تم مجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہو، اس کا علم اللہ کے پاس ہے اور میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں ! سطح زمین پر کوئی نفس رہنے والا نہیں ہوگا جس پر سو سال گزرے گا “ دوسری روایت میں ہے سالم نے کہا : ہم نے ذکر کیا ہے کہ جو اس دن پیدا ہوچکا ہے۔ ایک روایت میں ہے آج کوئی نفس ایسا نہیں جس پر سو سال آئے گا، اور وہ اس وقت زندہ ہوگا۔ عبدالرحمن صاحب السقایۃ نے اس کی تفسیر میں فرمایا : عمر کم ہوگی۔ حضرت ابو سعید خدری سے اس حدیث کی طرح مروی ہے۔ ہمارے علماء نے کہا : اس حدیث کے ضمن میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے وصال سے ایک مہینہ پہلے خبر دی تھی کہ بنی آدم میں سے جو بھی موجود ہے اس کی عمر سو سال پر ختم ہوجائے گی کیونکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ما من نفس منفوسۃ (1) ۔ یہ لفظ ملائکہ اور جن کو شامل نہیں کیونکہ ان سے صحیح نہیں کہ وہ اس طرح ہیں اور نہ حیوان غیر عاقل شامل ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا : ممکن ھو علی ظھر الارض احد (2) ۔ یہ اصل وضع کے اعتبار سے ذوی الاعقول کے لیے بولا جاتا ہے پس تعین ہوگیا کہ مراد بنی آدم ہیں۔ حضرت ابن عمر نے اس معنی کو بیان کیا ہے فرمایا : اس سے مراد صدی کا ختم ہونا ہے۔ اس شخص کے لیے کوئی حجت نہیں جو اس شخص کے قول کے بطلان پر حجت پکڑتا ہے جو کہتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں کیونکہ مامن نفس منفوسۃ (3) میں عموم ہے چونکہ عموم اگرچہ استغراق کی تاکید کرتا ہے، لیکن اس میں نص نہیں ہوتا بلکہ وہ تخصیص کے قابل ہوتا ہے۔ پس یہ اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو شامل نہیں ہے، کیونکہ وہ فوت ہوئے ہیں نہ قتل ہوئے ہیں، نص قرآنی کے ساتھ ان کا زندہ ہونا ثابت ہے، اور یہ عموم دجال کو بھی شامل نہیں حالانکہ وہ بھی زندہ تھا، اس کی دلیل حدیث الجساسہ ہے۔ اسی طرح یہ عموم حضرت خضر (علیہ السلام) کو بھی شامل نہیں۔ وہ لوگوں کو نظر نہیں آتے اور نہ ان کو نظر آتے ہیں جن لوگوں میں وہ جاتے ہیں تاکہ ان کے دل میں ایک دوسرے سے خطاب کے وضت خطرہ پیدا نہ ہو، اس عموم کی مثل ان کو شامل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اصحاب کہف زندہ ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ حج کرتے ہیں جیسا کہ پہلے گذزر چکا ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نوجوان جو حضرت اببن عباس ؓ کے قول میں ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا۔ ابو اسحاق ثعلبی نے (العرائس) میں ذکر کیا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نبی ہیں ان کو لمبی عمر دی گئی ہے، آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ محمد بن متوکل نے ضمرہ بن ربیعہ عن ابن شوذب کے سلسلہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت خضر (علیہ السلام) فارس کی اولاد سے تھے اور حضرت الیاس (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے تھے، وہ ہر سال حج کے موقع پر آپس میں ملاقات کرتے ہیں۔ عمرو ببن دینار سے مروی ہے فرمایا : حضرت خضر اور حضرت الیاس (علیہما السلام) زمین پر زندہ رہیں گے جب تک قرآن زمین پر موجود ہے، جب قرآن اٹھا لیا جائے گا وہ بھی فوت ہوجائیں گے۔ ہمارے شیخ امام ابو محمد عبدالمعطی بن محمد بن عببدالمعطی لخمی نے قشیری کے رسالہ کی شرح میں بہت سے نیک مردوں اور عورتوں کی حکایات ذکر کی ہیں کہ انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان سے ملاقات کی جس کے مجموعہ سے ظن غالب یہی ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں نیز نقاش اور ثعلبی وغیرہ نے بھی یہ ذکر کیا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے ” دجال شوریلی زمین پر پہنچے گا جو مدینہ کے قریکب ہوگی اس وقت اس کی طرف ایک شخص نکلے گا جو لوگوں سے بہت ہوگا۔ اس حدیث کے آخر میں ابو اسحاق نے کہا : یعنی ان ھذا الرجل ھو الخضر (1) (وہ شخص حضرت خضر ہوگا) ابن ابی الدنیا نے ” الہواتف “ میں ایک سند کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کو انہوں نے حضرت علی ؓ تک پہنچایا ہے کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملے اور انہوں نے آپ کو یہ دعا سکھائی اور اس میں اس شخص کے لیے بہت بڑے ثواب، مغفرت اور رحمت کا ذکر کیا ہے جو ہر نماز کے بعد اس کو پڑھے گا وہ دعا یہ ہے : یا من لا یشغلہ سمع عن سمع، ویا من لا تغلطہ المسائل، ویامن لا یتبرم من الحاح الملحین، اذقنی بردعوفک، وحلاوۃ مغفرتک (اے وہ ذات جس کو ایک آواز کا سننا دوسری آواز سے سننے سے غافل نہیں کرتا، اے وہ ذات مسائل جس سے غلطی نہیں کراتے، اے وہ ذات جو اصرار سے مانگنے والوں کے اصرار سے اکتاتی نہیں ! تو مجھے اپنے عفو کی ٹھنڈک اور اپنی مغفرت کی حلاوت عطا فرما) انہوں نے حضرت عمر سے بھی بعینہٖ یہی دعا ذکر کی ہے جو انہوں نے حضرت علی ؓ سے ذکر کی جو انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے سنی ہے، اسی طرح انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے سنی ہے، اسی طرح انہوں نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نبی کریم ﷺ سے ملاقات ہونا بھی جائز ہے۔ ابن ابی الدنیا نے ذکر کیا ہے کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر (علیہما السلام) ہر سال بیت اللہ کے پاس ملتے ہیں اور جدائی کے وقت کہتے ہیں : ما شاء اللہ ما شاء اللہ، لا یصرف السوالا اللہ، ما شاء اللہ ما شاء اللہ ما یکون من نعمۃ فمن اللہ ما شاء اللہ ماشاء اللہ توکلت علی اللہ حسبنا اللہ ونعم الوکیل (جو اللہ چاہے جو اللہ چاہے برائی اور تکلیف کو اللہ کے سوا کوئی نہیں پھیر سکتا، جو اللہ چاہے جو اللہ چاہے۔ جو اللہ چاہے۔ میں اللہ پر بھروسہ رکھتا ہوں ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی بہتر کارساز ہے) رہی حضرت الیاس (علیہ السلام) کی خبر تو وہ سورة الصافات میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابو عمر بن عبدالبر نے کتاب ” التمہید “ میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا اور کپڑے کے ساتھ آپ کو لپیٹا گیا تھا تو گھر کے ایک کونے سے ہاتف غیبی نے آواز دی لوگ اس کی آواز سنتے تھے اور اس شخصیت کو نہیں دیکھتے تھے : السلالم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ السلام علیکم اھل البیت۔ کل نفس ذائقۃ الموت۔ ان فی اللہ خلفا من کل ھالک وعوضا من کل تالف، عزاء من کل مصیبۃ، فباللہ فثقوا، وایاہ فارجوا، فان المصابب من حرم الثواب (اے اہل بیت ! تم پر سلام ہو، ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر جانے والے کے خلیفہ ہے اور تلف ہونے والے کا عوض ہے، ہر مصیبت سے تسلی ہے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اور اس سے امید رکھو، مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم کیا گیا) صحابہ کرام خیال کرتے تھے کہ یہ حضرت خضر علیہ اللسلام ہیں علی الارض میں الف، لام عہد کے لیے ہے جنس کے لیے نہیں ہے، اس سے مراد عرب کی زمین ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کا اس میں تصرف تھا اور اس کی طرف لوٹنا تھا نہ کہ یاجوج ماجوج کی زمین اور نہ ہندو سندھ کے دوردراسز علاقے جس کا نام بھی نہیں سنا گیا اور نہ اس کا علم ہوا اور دجال کے بارے میں جواب نہیں۔ علامہ سہیلی نے کہا : حضرت خضر علیہ السللام کے نام کے بارے میں بڑا واضح اختلاف ہے۔ ابن منبہ سے مروی ہے انہوں نے کہا : ایلیا بن ملکان ببن فالغ بن شالخ بن ارفحشد بن سام بن نوح۔ بعض علماء نے کہا : وہ ابن عامیل بن سمالجین ابن آریا بن علقما بن اسحاق ہے، ان کا باپ ملیکا تھا اور ماں بنت فارس اس کا نام الھا تھا انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو ایک غار میں جنم دیا تھا وہاں ایک بکری تھی جو انہیں ہر روز دودھ پلاتی تھی وہ اس شہر کے ایک آدمی کی بکریوں میں سے تھی، اس شخص نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پکڑ لیا اور آپ کی پرورش کی جب جوان ہوگئے تو ملک جو حضرت خضر کا باپ ہے نے ایک کاتب بلایا اور اہل معرفت و نبالت کو جمع کیا تاکہ وہ صحیفے لکھے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت شیث (علیہ السلام) پر نازل ہوئے تھے۔ جو کاتبوں میں اس کے سامنے آیا اس کا بیٹا خضر تھا، وہ اسے نہیں جانتا تھا، جب اس نے بہت اچھا لکھا تو اس نے اس کے بارے میں خوب چھان بین کی کی اسے پتا چلا کہ وہ اس کا بیٹا ہے تو اس نے اس کو اپنی قربت بخشی اور لوگوں کے امور کا والی بنا دیا پھر حضرت خضر (علیہ السلام) بادشاہ سے بھاگ گئے۔ ان اسباب کی وجہ سے جن کا ذکر بہت طویل ہے، حتیٰ کہ وہ آب حیات کے چشمہ پر پہنچے اور اس کا پانی پیا پس وہ دجال کے نکلنے تک زندہ رہیں گے اور وہ شخص جس کو دجال قتل کرے گا اور پھر اسے کاٹ دے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرے گا وہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہوں گے۔ بعض علمائء نے فرمایا : اس نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ نہیں پایا اور یہ صحیح نہیں ہے۔ امام ببخاری اور اہل حدیث کی ایک جماعت نے کہا جن میں سے ہمارے شیخ ابوبکر عربی رحمۃ اللہ بھی ہیں کہ وہ سو سال ختم ہونے سے پہلے وصال کر گئے، اس کی وجہ یہ حدیث ہے : الی رأس مائۃ عام لا یبقی علی ھذہ الأرض فمن ھو علیھا ائحد سو سال کے آغاز تک جو بھی اس زمین پر ہے ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے، یعنی جو زندہ تھا جب آپ ﷺ نے یہ کللام فرمایا تھا۔ میں کہتا ہوں : ہم نے اس حدیث کا ذکر کیا اور اس پر کلام کی اور ہم نے حضرت خضر علیہ اللسلام کی زندگی اب تک کے لیے بیان کی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت خضر علیہ اللسلام جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جدا ہونے لگے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا : مجھے وصیت فرمائیے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : تو مسکرانے والا ہوجا اور ہنسنے والا نہ ہو، لجاجت چھوڑ دے اور بغیر حاجت کے نہ چل۔ خطاکاروں پر ان کی خطائوں کی وجہ سے عیب نہ لگا اور اے ابن عمران اپنی خطا پر رو۔
Top