Al-Qurtubi - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویسئلونک عن ذی القرنین ط قل ساتلوا علیکم منہ ذکرا۔ ابن اسحاق نے کہا : ذی القرنین کی خبر میں سے یہ ہے کہ انہیں وہ عطا کیا گیا جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کیا گیا اس کے لیے اسباب اتنے کشادہ ہوئے کہ وہ زمین کے مشارق و مغارب کے شہروں تک پہنچا۔ وہ کسی زمین پر پہنچا تو اس پر غالب آگیا حتیٰ کہ وہ مشرق و مغرب کے اس مقام پر پہنچا کہ جس کے بعد مخلوق نہیں ہے۔ ابن اسحاق نے کہا : مجھے اس شخص نے بتایا جو عجمیوں سے حکایات روایت کرتا ہے کہ وہ ذی القرنین کے بارے میں متواتر یہ علم رکھتے ہیں کہ وہ اہلل مصر میں سے ایک شخص تھا جس کا نام مر زبان بن مردبۃ یونانی تھا وہ یونان بن یافت بن نوح کی اولاد سے تھا۔ ابن ہشام نے کہا : اس کا نام اسکندر تھا، یہ وہی ہے جس نے اسکندریہ بنایا پس اس کی نسبت اس کی طرف کی گئی۔ ابن اسحاق نے کہا مجھے ثوربن یزید نے خالد بن معدان کلاعی سے روایت کر کے بتایا۔ خالد ایک شخص تھا جس نے لوگوں کو پایا کہ رسول اللہ ﷺ سے ذوالقرنین کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یرمایا : ” وہ بادشاہ تھا جس نے زمین کو نیچے سے چھوا اسباب کے ساتھ “ (1) خالد نے کہا : حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو یا ذوالقرنین کہتے ہوئے سنا تو حضرت عمر نے کہا : اللھم غفراً اما رضیتم ان تسموا باسماء الانبیاء حتی تسمیتم باسماء الملائکۃ (اے اللہ معاف فرما کیا تم خوش نہیں ہو کہ تم انبیاء کے اسماء کے ساتھ نام رکھو حتیٰ کہ تم نے ملائکہ کے اسماء کے ساتھ نام رکھ لیے) ابن اسحاق نے کہا : اللہ بہتر جانتا ہے وہ کون تھا کیا یہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا یا نہیں۔ حق یہ ہے کہ نہیں فرمایا تھا۔ میں کہتا ہوں : حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے حضرت عمر کے قول کی مثل مروی ہے انہوں نے ایک شخص کو سنا جو دوسرے شخص کو آواز دے رہا تھا : اے ذوالقرنین ! حضرت علی نے فرمایا : کیا تمہارے لیے کافی نہ تھا کہ تم نے انبیاء کرام کے نام کے ساتھ نام رکھے حتیٰ کہ تم نے ملائکہ کے نام کے ساتھ نام رکھ لیے ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ صالح بادشاہ بندہ تھا، اللہ تعالیٰ کا مخلص تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تائید فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ نبی تھے جو مبعوث کیے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے اسے زمین کی فتح عطا فرمائی۔ دارقطنی نے کتاب الاخبار میں ذکر کیا ہے کہ ایک فرشتہ ہے جس کو رببا قیل کہا جاتا ہے وہ ذی القرنین پر اترتا تھا یہ وہ فرشتہ ہے جو قیامت کے روز زمین کو لپیٹے گا اور اسے کم کرے گا۔ تمام لوگوں کے اقسام اس زمین پر واقع ہوں گے جیسا کہ بعض اہل علم نے ذکر کیا۔ سہیلی نے کہا : یہ وہ فرشتہ تھا جو ذی القرنین پر مقرر کیا گیا تھا جس نے زمین کے مشارق و مغاربب کو طے کیا تھا جیسا کہ خالد بن سنان کا واقعہ ہے کہ ان کے لیے آگ کو مسخر کیا گیا تھا آگ پر متعین فرشتے کی حالت میں مشاکلت تھی وہ فرشتہ مالک ہے (علیہ السلام) وعلی جمیع الملائکۃ اجمعین۔ ابن ابی خیثمہ نے کتاب البدء میں خالد بن سنان کا ذکر کیا ہے اور اس کی نبوت کا ذکر کیا ہے۔ خازن النار مالک فرشتہ کو اس پر مقرر کیا گیا تھا (یعنی اس کے ذریعے اس کی تائئید کی جاتی تھی) اس کی نبوت کی علامتوں میں سے یہ تھا کہ ایک آگ کو نارالحدثان کہا جاتا تھا وہ لوگوں پر ایک غار سے نکلتی تھی اور لوگوں کو جلا دیتی تھی لوگ اس کو دور نہیں کرسکتے تھے تھے، خالد بن سنان نے اس کو لوٹایا تو وہ پھر کبھی نہ نکلی۔ ذی القرنین کے نام میں اور اس سبب میں بہت زیادہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا رہا اس کا نام تو بعض نے کہا : وہ اسکندر بادشاہ یونانی مقدونی ہے، کبھی قاف مشدد کہا جاتا ہے، المقدونی کہا جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا نام ہر مس ہے۔ بعض نے کہا اس کا نام ہر دیس ہے۔ ابن ہشام نے کہا : وہ صعب بن ذی یزن حمیری ہے جو وائل بن حمیر کی اولاد سے تھا، ابن اسحاق کا قول پہلے گزر چکا ہے۔ وہب بن منبہ نے کہا : وہ رومی ہے۔ طبری نے نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ ذی القرنین روم کا ایک نوجوان تھا (1) ۔ اس حدیث کی سند انتہائی کمزور ہے ؛ یہ ابن عطیہ کا قول ہے۔ سہیلی نے کہا : علم الاخبار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دو شخص تھے ایک حضرت ابراہیم علیہ السللام کے زمانے میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ شخص تھا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا۔ بعض نے فرمایا : وہ افریدون تھا جس نے عہد ابراہیم میں ببیورا سبب بن اروندا سب سرکش بادشاہ کو قتل کیا تھا یا اس سے پہلے کچھ زمانہ تھا۔ رہا اس سبب میں اختلاف جس کی وجہ سے اسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ تو بعض نے کہا : اس کے باللوں کی دو مینڈھیاں تھیں ان کی وجہ سے ذوالقرنین کہا جاتا ہے ؛ یہ ثعلبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ الضفائر، سر کے بالوں کی مینڈھیوں کو کہتے ہیں، شاعر نے کہا : فلثمت فاھا اخذا بقرونھا شرب انزیف ببرد ماء الحشرج بعض علما نے فرمایا : اس نے اپنی بادشاہی کے آغاز میں خواب دیکھا کہ وہ سورج کے دونوں قرن پر قابض ہے (1) اس نے یہ خواب بیان کیا تو اس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ وہ ہر اس جگہ پر غالب آئے گا جس پر سورج طلوع ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اسے یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مغرب و مشرق تک پہنچا گویا اس نے دنیا کے دونوں کناروں کو جمع کرلیا۔ ایک جماعت نے کہا : جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچا تو اس کے دیکھنے کے ساتھ سورج کے قرون ظاہر ہوئے اسی وجہ سے اسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ سورج کے ساتھ شیطان کے قرن (سینگ) دیکھے۔ وہب بن منبہ نے کہا اس کے عمامہ کے نیچے دو سینگ تھے۔ ابن الکواء نے حضرت علی ؓ سے ذی القرنین کے متعلق پوچھا کہ وہ نبی تھے یا بادشاہ ؟ حضرت علی نے فرمایا : نہ نبی تھا نہ بادشاہ، وہ اللہ کا نیک ببندہ تھا اس نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف بلایا تھا تو انہوں نے اس کا سر زخمی کردیا پھر انہوں نے دعوت دی تو لوگوں نے سر کی دوسری طرف بھی زخمی کردی اسی وجہ سے اسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ اس کے زمانہ کے ببارے میں بھی اختلاف ہے، ایک قوم نے کہا : وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تھے ایک قوم نے کہا : وہ حضرت عیسیٰ علیہ اللسلام کے بعد فترت کے زمانہ میں تھے۔ بعض نے کہا : وہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے زمانہ میں تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) ان کا بڑا جھنڈا اٹھانے والے تھے۔ اس نے اس کا ذکر سورة بقرہ میں کیا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اسے اقتدار بخشا اور سلطنت بخشی اور بادشاہوں نے اس کی اطاعت کی، روایت ہے کہ تمام دنیا کے چار بادشاہ تھے (2) ، دو ممن تھے دو کافر تھے، مومن حضرت سلیمان بن دائود (علیہما السلام) اور اسکندر تھے اور کافر نمرود اور بخت نصر تھے اور پانچواں اس امت سے مالک ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیظھرہ علی الدین کلہ (التوبہ :33) اور وہ مہدی (علیہ السلام) ہوں گے۔ بعض علماء نے فرمایا ان کو ذوالقرنین اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ وہ باپ اور ماں دونوں کی طرف سے کریم الطرفین تھا (یعنی اس کے والدین کے خاندان اعلیٰ حسب و نسب والے تھے) بعض علماء نے فرمایا : اس کے وقت میں لوگوں کی دو نسلیں گزریں جبکہ وہ زندہ تھا اس لیے اسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس لیے یہ نام تھا کہ وہ جب لڑتا تھا تو ہاتھوں اور کا بوں دونوں سے لڑتا تھا۔ بعض نے فرمایا : اس لیے کہ اسے علم ظاہر اور علم باطن دیا گیا تھا۔ بعض نے فرمایا : وہ ظلمت و نور میں داخل ہوا تھا۔ بعض نے فرمایا : وہ فارس و روم کا بادشاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انا مکنا لہ فی الارض حضرت علی ؓ نے فرمایا : اس کے لیے بادل کو مسخر کیا گیا تھا اور اس کے لیے اسباب پھیلائے گئے تھے اور اس کے لیے نور کشادہ کیا گیا تھا اس پر رات اور دن براببر تھا۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اہل کتاب کے کچھ لوگوں کو کہا جنہوں نے آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تھا فرمایا : ” ابتدا میں وہ رومیوں میں سے ایک جوان تھا، پھر اسے بادشاہ عی عطا کی گئی وہ چللا حتیٰ کہ وہ مصر کی زمین پر آیا وہاں اس نے ایک شہر بنایا جسے اسکندریہ کہا جاتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو اس کے پاس ایک فرشتہ آیا وہ اسے اوپر لے گیا اس نے اسے کہا : اپنے نیچے دیکھ، اس نے کہا : میں صرف اپنا شہر دیکھتا ہوں اس کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا۔ اس فرشتے نے اسے کہا : یہ ساری زمین ہے اور اس کے اردگرد جو تو سیاہی دیکھ رہا ہے یہ سمندر ہے، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تجھے زمین دکھائے اس نے تیرے لیے اس میں بادشاہی قائم کی ہے پس تو اس میں چل اور جاہل کو تعلیم دے اور عالم کو پختہ کر۔ “ (1)
Top