Kashf-ur-Rahman - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا مسلمانوں کے لئے ابھی تک وہ وہقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی نصیحت اور اس دین حق کے سامنے جو نازل ہوا ہے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی پس ان کے دل سخت ہوگئے اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر دین سے خارج ہیں۔
(16) کیا مسلمانوں کے لئے ابھی تک وہ وقت نہیں آیاکہان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر اور چور دین حق منجانب اللہ نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل اور لمبی مدت گزر گئی ، سو ان کے دل سخت ہوگئے، اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر فاسق اور دین سے خارج ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی وہی ہے کہ دل نرم ہو پیغمبروں کی صحبت میں یہ پاتے تھے مدت کے بعد سخت ہوگئی اور اب یہ صفت مسلمانوں کو چاہیے۔ شاید مکہ میں جس مسلمان رہتے تھے اور تنگی سے گزر ہوتی تھی اور مدینے میں آکر وہ عسرت دور ہوگئی اور مسلمانوں میں کچھ سستی پیدا ہوئی اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں ہمارا اسلام لانے اور اس سرزنش اور تنبیہ میں عرصہ چار سال کا ہے یعنی اتنے جلدی ہم کو تنبیہہ کی گئی بہرحال شان نزول کچھ بھی ہو عام طبائع کا یہ حال ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرتا ہے دلوں سے ایمانی قوت اور اعمال صالحہ کا شوق اور مستحبات کی رعایت کم ہوتی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کو خشوع سے کام لینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور دین حق کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ اور جھکے رہنا چاہیے اہل کتاب کی طرح زمانے اور مدت دراز کے گزارنے سے تمہارے دل اہل کتاب کی طرح سخت نہ ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دین حق کی محبت کم نہ ہوجائے اور فسق تک نوبت نہ ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ مکہ کی تکالیف کے مقابلے میں مدینے کے عیش اور راحت سے بعض لوگوں کے اعمال میں کچھ اخلال ہوا جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مراتب علیا کے اعتبار سے ان کو سردنش اور تنبیہ فرمائی ہو لیکن آج کل کا دور تو اس کا مقتضی ہے کہ اس آیت پر مسلمان بار بار غور کریں اور اپنی مجالس میں پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کی حالت کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ شاید یاد ہوگا میں نے تیسیر میں کہیں صراحتہً کہیں اشارۃً کئی مرتبہ عرض کیا کہ ایک کوتاہی سے دوسری غلطی اور کوتاہی نشونما پاتی ہے اور ایک غلطی سے دوسری غلطی پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کوتاہیوں کے اثر سے قلب کی حالت بگڑتی جاتی ہے اور نوبت قساوت بلکہ غلف اور طبع اور ختم تک پہنچ جاتی ہے اور یہ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس قسم کی سب بیماریوں کا علاج توبہ اور انابت الی اللہ اور حضرت حق کی جانب رجوع ہونا ہے لفظ خشوع سے اس آیت میں اسی کو ظاہر فرمایا ہے۔ ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ مانزل من الحق۔ ہم نے ترجمہ میں جھک جانا کیا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ جب کوئی ایسی حرکت سرزد ہو تو فوراً توبہ کرو اور اللہ کی طرف رجوع ہوجائو پھر حالت درست کردی جائیگی کوئی نعمت اسلام سے بہتر نعمت نہیں ہے اور کوئی شغل طاعت اور عبادت سے بڑھ کر شغل نہیں ہے اور کوئی عبرت موت سے بڑھ کر عبرت نہیں ہے۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کا ترجمہ ہے جو میں نے عرض کیا۔ بہرحال صحابہ کرام ؓ بڑے مرتبے کے لوگ تھے پیغمبر خدا کی ان کو صحبت میسر تھی جب ان کو تھوڑی سی بات میں تنبیہ ہوگئی تو ہم کس شمار میں ہیں۔ بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ الم یان للذین امنوا سے مخلص مسلمان مراد نہیں ہیں بلکہ منافق مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں کیا ان کے لئے یہ وقت نہیں آیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں اور دین حق اور قرآن کے لئے خشوع اختیار کریں اور سچے دل سے مسلمان ہوجائیں اس کی طرف آگے بھی اشارہ ہے کہ توبہ کرنا ایسا ہے جیسے مردہ زمین کا زندہ ہوجانا چناچہ ارشاد فرمایا۔
Top