Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا نہیں آیا وقت ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں کہ عاجزی کریں ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے اور اس چیز کے لئے جو اتری ہے حق سے۔ اور نہ ہوں ان لوگوں کی طرح جن کو دی گئی کتاب اس سے پہلے ، پس دراز ہوگئی ان پر مدت ، پھر سخت ہوگئے ان کے دل ، اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت اور اہمیت کا ذکر کیا اور اس کو قرض حسن کے ساتھ تعبیر کیا ، اور پھر ان نتائج کا بھی بیان ہوا جو ایمانداروں کو حاصل ہوں گے ، اللہ نے نور اور روشنی کا تذکرہ فرمایا جو آخرت کے اندھیروں میں پل صراط پر سے گزرتے وقت کام آئے گی۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ روشنی کن ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے برخلاف کافروں کو مایوسی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اب آج کے درس میں پہلے اللہ نے اہل ایمان کو تنبیہ فرمائی ہے کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی کے لئے عاجزی کرنے لگیں۔ اس ضمن میں اللہ نے اہل کتاب کی مثال بھی بیان فرمائی ہے کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے غافل ہوگئے۔ اس کے بعد پھر انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا ہے۔ اور ایمان کی فضیلت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انعام کا ذکر فرمایا ہے۔ ذکر الٰہی سے غفلت : ارشاد ہوتا ہے الم یان للذین امنوا ، کیا اہل ایمان کے لئے وہ وقت نہیں ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ کہ ان کے دل عاجزی کریں اور گڑگڑائیں اللہ کے ذکر کے لئے وما نزل من الحق ، اور اس چیز کے لئے جو حق سے اتری ہے یعنی کلام الٰہی قرآن حکیم۔ اللہ نے تنبیہ کے طور پر فرمایا ہے کہ ایمان والے آخر کب اللہ کے ذکر اور قرآن کریم کی طرف سے غفلت کا جو اتار کر ان کی طرف متوجہ ہوں گے ؟ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کے دل ہر وقت اللہ کی یاد اور قرآن کے احکام و فرامین کے لئے نرم ہونے چاہئیں ، اور ان میں اطاعت و خشوع کا جذبہ پایا جانا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ ہم لوگوں کے ایمان لانے اور اس آیت کے نزول کے درمیان چار سال کا وقفہ حائل ہے۔ اس دوران میں لوگوں کو یاد الٰہی اور قرآن سے غفلت کی وجہ سے اللہ نے سخت تنبیہ فرمائی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ غفلت سب لوگوں میں پیدا ہوگئی تھی ، بلکہ بعض لوگ تو ابتداء سے انتہا تک ذکر الٰہی ، خشوع و خضوع اور اطاعت الٰہی میں مصروف رہے ۔ البتہ بعض کمزور ایمان والوں میں غفلت بھی پیدا ہوگئی تھی۔ یہ غفلت بہت بری چیز ہے۔ اللہ کی یاد سے بعد قساوت قلبی کا باعث بنتی ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس امت سے جو چیز سب سے پہلے رخصت ہوگی وہ خشوع و خضوع ہے جو کہ بہت بڑ صفت ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) اس کو اخبات سے تعمبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ سورة ہود میں موجود ہے ان الذین امنوا وعملوا الصلحت واخبتوا الی ربھم بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کی ، وہ جنتی ہیں لہٰذا اے اہل ایمان ! اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی کا اظہار کرو۔ اور عاجزی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے خدا کی ذات کے سامنے خشوع و خضوع کیا جائے۔ اسی لئے اس آیت میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کیا اہل ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور قرآن کریم کے لئے عاجزی یعنی خشوع و خضوع کا اظہار کریں ؟ اب خشوع یا عاجزی کرنے کا حکم مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں ہے کیونکہ دونوں اصناف مکلف اور اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورة الا احزاب میں جہاں مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے وہاں والخشعین والخشعت (آیت 35) عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں کا اکٹھا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة المومنون میں ایمانداروں کی کامیابی کا ذکر فرمایا ہے۔ وہاں فرمایا ہے کہ وہ مومن آدمی فلاح پاگئے الذین ھم فی …………خشعون (آیت 2) جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع یعنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ خشوع و خضوع بنیادی اخلاقیات میں سے ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہار کرنے کے بعد عام انسانوں کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آنے کا حکم ہے ۔ اللہ نے اپنے پیغمبر پر وحی نازل فرما کر حکم دیا ہے ان تواضعوا ولا یفخر بعضکم علی بعض ، یعنی ایک دوسرے کے ساتھ تواضح سے پیش آئو اور ایک دوسرے پر فخر نہ کرو۔ اہل کتاب کی سنگدلی : آگے اللہ نے اہل کتاب کی سنگدلی کا ذکر کرکے اہل ایمان کو خبردار کیا ہے ولا یکونوا کالذین اوتوالکتب من قبل اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی۔ فطال علیھم الامد پھر ان پر ایک مدت دراز گزر گئی فقست قلوبھم پس ان کے دل سخت ہوگئے ، جس کی وجہ سے یاد خدا اور کتاب الٰہی سے غفلت برتنے لگے۔ امام ابوبکر حبصاص فرمایے ہیں کہ یاد رکھو اکثرۃ المعاصی ومساکن تھا والفھا تقسی القلب وت بعد من التوبۃ ، یعنی گناہوں کی کثرت اور ان کے ساتھ اجتماع اور ان کیس اتھ الفت دل کو سخت بنادیتے ہیں ، اور انسان کو توبہ سے دور کردیتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ہے کلا بل……………………یکسبون (المطففین 14) خبردار ! لوگوں کے دلوں پر ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے زنگ چڑھ جاتا ہے جس کیوجہ سے دلوں میں سختی پیدا ہوجاتی ہے۔ سگندلی کا علاج : اس سنگ دلی کو دور کرنے کے لئے اللہ نے دو علاج تجویز کیے ہیں۔ پہلا علاج ذکر الٰہی ہے جس کے متعلق سورة الجمعہ میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ واذکرو اللہ ……………تفلحون (آیت 10) اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں فلاں نصیب ہو۔ اور دوسرا علاج اللہ کے نازل کردہ کتاب کی طرف رجوع ہے۔ چناچہ قرآن کریم کی تلاوت ، اس میں دلچسپی ، اس کی نشرواشاعت اور اس کے احکام پر عمل وغیرہ ساری باتیں اس ضمن میں آجاتی ہیں۔ شریعت کی بنیاد قرآن ہے اور حضور ﷺ کے فرمودات قرآن کی شرح اور تفسیر ہے۔ گویا قرآن وحی جلی ہے اور فرمان نبوی وحی خقی ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) ، امام شافعی (رح) اور بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ تمام صحیح احادیث جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ، وہ قرآن کی شرح ہیں۔ امام ابن تیمیہ بھی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ ساری سنت صادقہ تفسیر القرآن وتبینہ قرآن کی تفسیر وتبیین یعنی اس کی وضاحت ہے۔ اصل بنیاد چونکہ قرآن ہے۔ لہٰذا اسی کی طرف رجوع کا حکم گیا ہے۔ ذکر الٰہی کی آسان ترین صورت لسانی ذکر ہے جس میں قرآن پاک کی تلاوت پاکیزہ کلمات کا ورد اور خدا تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اطاعت کا ہر کام کرنے آدمی ذاکرین الٰہی میں ہی شمار ہوتا ہے امام جزری (رح) فرماتے ہیں ، کل مطیع للہ فھوذاکر۔ بہرحال اللہ نے خبردار کیا ، کہ اہل کتاب کی طرح سنگ دل نہ ہوجانا۔ کیونکہ وکثیر منھم فسقون ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے۔ اس سنگدلی کی وجہ سے اہل کتاب نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی ، خود بےعملی کا شکار ہوگئے ، ان کے فہم معکوس ہوگئے ۔ ان پر بہیمیت غالب آگئی اور انسان دائرہ انسانیت سے باہر ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں غفلت پیدا ہوئی ، پھر توبہ کی توفیق سلب ہوگئی ، معاصی کا ارتکاب کیا۔ اللہ کی کتاب میں تحریف کی اور آخر ملعون ومغضوب ٹھہرے سخط اللہ علیھم اللہ ان سے ناراض ہوگیا۔ غضب اللہ علیھم ان پر اللہ کا غضب ہوا۔ کیونکہ ان میں اکثر نافرمان ہی ہیں۔ مردہ اور زندہ زمین کی مثال : اس کے بعد اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے اعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتھا ، اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کے مردہ ہوجانے کے بعد۔ انسان کا دل بھی زمین کی مانند ہے ۔ جب یہ خشک ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے کلام پاک کی برکت سے زندہ ہوجاتا ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ زندہ آدمی اپنے اختیار اور ارادے سے کام کرتا ہے جب کہ مردہ بےحس و حرکت پڑا رہتا ہے جو کچھ نہیں کرسکتا۔ اللہ کے ذکر سے دل بھی زندہ ہوتا ہے اور انسان کے حواس بھی ، اور اس میں شعور پیدا ہوتا ہے جب کہ ذکر نہ کرنے والا غافل آدمی بےشعور ہوتا ہے گویا کہ وہ مردہ ہے۔ فرمایا قدبینا لکم الایت البتہ تحقیق ہم نے اپنی نشانیاں تم پر واضح کردی ہیں ، پتے کی باتیں بتادی ہیں ۔ مثال کے ذریعے بات سمجھادی ہے لعلکم تعقلون ، تاکہ تم معاملے کو سمجھ لو۔ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مردہ دل انسان کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اس کا ذکر کرے ، اللہ کے نازل کردہ کتاب کو پڑھے ، اس کے احکامات پر عمل کرے تو اس کا دل پھر سے زندہ ہوجائے گا اور اس کی روحانیت حیات نصیب ہوجائے گی۔ انفاق کی اہمیت : آگے پھر اللہ نے اس سورة کا کر کزی مضمون انفاق فی سبیل اللہ دوسرے انداز میں بیان فرمایا ہے ان المصدقین والمصدقت ، بیشک صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں۔ اعمال کے لحاظ سے مرد اور عورتیں برابر ہیں جیسا کہ پچھلی نور والی آیت میں مومنین والمومنت مومن مردوں اور مومن عورتوں کا ذکر کیا تھا۔ جس طرح کوئی عبادت مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے۔ اگر مردوں کو مال خرچ کرنے کا حکم ہے تو صاحب حیثیت عورتوں کے لئے بھی لازم ہے۔ فرمایا بیشک صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے وال عورتیں واقرضوا اللہ قرضا حسنا ، اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی خوشنودی کے لئے مال صرف کیا۔ ان کے پیش نظر دین کی اقامت اور قرآن کے پروگرام کی ترویج ہے نہ کہ کوئی ذاتی مفاد۔ تو ان کے متعلق فرمایا یضعف لھم اللہ تعالیٰ ان کو دگنا ثواب عطا فرمائے گا۔ ولھم اجر کریم ، اور ان کے لئے عزت والا اجر ہوگا۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ جب یہ مال اقامت دین کے لئے خرچ ہوگا۔ تو دولتیں تمہارے ہاتھ آئیں گی اور آخرت میں ایک کا بدلہ دس تو لازمی ہے بشرطیکہ نیت خالص ہو۔ اور جو مال جہاد کے لئے خرچ کیا جائے گا اس کا بدلہ سات سو گنا سے شروع ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک کے بدلے میں سات سواونٹنیاں ملیں گی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جہاد دین کی کوہان ہے ، اس کی وجہ سے عزت اور وقار حاصل ہوگا۔ تو اس مد میں خرچ کرنے کو قرض حسن سے تعبیر کیا گیا ہے آگے جہاد کے بھی مختلف شعبے ہیں۔ جہاد بالسیف کے علاوہ مجاہدین کی خوراک ، اسلحہ سواری وغیرہ کا بندوبست کرنا بھی جہاد ہی کا حصہ ہے۔ اسی طرح دینی تعلیم کا انتظام کرنا بھی جہادہی کا شعبہ ہے دینی کتب کی اشاعت سے بھی اقامت دین کو تقویت ملتی ہے لہٰذا یہ بھی جہاد ہے۔ پھر دین اسلام کی تبلیغ کے لئے جانے والے اور ان کے لئے سفر ، خوراک اور کتب کا انتظام سب جہاد ہی کے مختلف شعبے ہیں اور قرض حسنہ میں ہی آتے ہیں۔ زکوٰۃ فنڈ کا بیجامصرف : ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر زکوٰۃ کی تحصیل اور صرف کا نظام موجود ہے جس میں ہر سال کروڑوں روپے جمع ہوتے ہیں مگر اس کا مصرف درست نہیں ہے زکوٰۃ کی رقم مسجد یا کسی بھی عمارت کی تعمیر پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ مگر یہاں سب کچھ ہورہا ہے۔ یہاں پر زکوٰۃ فنڈ الیکشن پر خرچ ہورہا ہے ۔ کشمیر کے الیکشن کے لئے پانچ کروڑ روپے اس فنڈ سے حاصل کیے گئے۔ ممبروں کو خریدنے کے لئے بھی یہ فنڈ استعمال ہوتا ہے۔ اب حکومت اس فنڈ سے مکانات تعمیرکررہی ہے۔ یہ بھی غلط ہے۔ جو لوگ رشوت کے طور پر زکوٰۃ کا مال کھائیں گے ان کا نہ ایمان ٹھیک رہے گا اور نہ اخلاق اور نہ ہی زکوٰۃ دینے والوں کو کچھ فائدہ ہوگا۔ زکوٰۃ کی رقم تو غریبوں محتاجوں ، یتیموں اور بیوائوں پر خرچ ہونی چاہیے۔ مگر اتنی کثیر مقدار میں زکوٰۃ جمع ہونے کے باوجود لوگ بھیک مانگ رہے ہیں ، گلیوں ، بازاروں حتیٰ کہ مسجدوں میں بھی بھکاریوں کی یلغار ہے۔ آخر یہ زکوٰۃ فنڈ کس مرض کی دوا ہے ؟ حقدار کو اس کا حق ملنا چاہیے نہ کہ یہ رقم رفاہ عامہ کے کام پر صرف کردی جائے جو کو قطعاً جائز نہیں محض ووٹ کے لالچ میں زکوٰۃ کا استعمال بڑی غلط بات ہے۔ محکمہ اوقاف کی ناقص کارکردگی : محکمہ زکوٰۃ کی طرح حکومت کا قائم کردہ محکمہ اوقاف بھی ناقص کارکردگی کا شکار ہے ۔ اس محکمے کے قیام کے وقت اس کی بڑی تعریف کی گئی تھی۔ کہ اس سے وقف املاک کے نظام کو درست کیا جائے گا۔ مگر یہ محکمہ بھی اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہا ہے قبروں پر ہونے والی شرکیہ اور بدعتیہ رسوم اسی طرح جاری ہیں۔ قبروں کو پختہ بنا کر ان پر گنبد بنائے جا رہے ہیں۔ عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے ، چادریں اور چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ بہشتی دروازہ حسب سابق ہر سال کھلتا ہے اور پھر چند دن کے بعد بند ہوجاتا ہے ، ہر سال جگہ جگہ عرس منائے جاتے ہیں ، قوالیاں ہوتی ہیں۔ یہ کون سا دین ہے اور بزرگان دین کی تعلیمات کی کون سی خدمت ہے۔ آخر فکر اوقاف نے ان غیر شرعی رسوم میں کیا اصلاح کی ہے ؟ اس محکمہ کو اپنے ملازمین کی تنخواہوں بےغرض ہے۔ غریب طبقہ بدستور ذلیل ہورہا ہے۔ امام مسجدوں کے گریڈ کم ہیں جن میں وہ گزراوقات نہیں کرسکتے ، بےچارے چیختے چلاتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ محکمہ کے وسائل جائز امور میں صرف ہونے چاہئیں تھے۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔ کاش یہ محکمہ اپنی افادیت کو ثابت کرسکتا ہے۔ صدیق اور شہدائ : آگے اللہ نے اہل ایمان کی تعریف کی ہے۔ والذین امنوا باللہ ورسلہ اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اولئک ھم الصدیقون یہی لوگ سچے ہیں جنہوں نے ابان کے تقاضوں کو پورا کیا ہے والشھداء عند ربھم ، یہی لوگ اپنے پروردگار کے ہاں شہید ہیں۔ یہاں پر تمام اہل ایمان کو صدیق کا خطاب دیا گیا ہے۔ حالانکہ صدیق کا مرتبہ تو نبی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح شہیدوہ ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں جان قربان کردیتا ہے۔ مگر یہاں پر تمام مومنوں کے لئے شہید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، اللہ……………امنوا (البقرہ 257) اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی ہے۔ گویا ہر مومن ولی ہے۔ اسی طرح ہر مومن کو ایمان کی بدولت صدیقیت کا ادنیٰ درجہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ پھر شہادت کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ گویا کہ ہر مومن جان کا نذرانہ تو پیش نہیں کر پاتا مگر اس میں یہ جذبہ صادق موجزن ہوتا ہے ۔ کہ وہ ضرورت کے وقت ایسا کرنے سے گریز نہیں کرے گا ، لہٰذا اس کو بھی کسی نہ کسی درجہ میں شہداء کی فہرست میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ صدیق کا معنی سچا اور راستباز انسان ہوتا ہے ، لہٰذا اس سے اصطلاحی صدیق اور شہید مراد نہیں کیونکہ وہ تو بلند مرتبت اور خال خال لوگ ہوتے ہیں۔ البتہ ان صدیقین اور شہداء سے مراد خدا کے ہاں سچی شہادت دینے والے لوگ ہیں۔ سورة البقرہ میں موجود ہے وکذلک… ………………شھید (آیت 143) اور اسی طرح ہم نے تمہیں افضل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر گواہی دے۔ قیامت والے دن اس آخری امت کے لوگ سابقہ امت کے لوگوں پر بطور گواہ پیش ہوں گے اور اللہ کا آخری رسول اس آخرت امت پر گواہ ہوگا۔ اس طرح گویا شہید سے مراد گواہی دینے والا ہے۔ یا وہ شخص بھی مراد ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید ، صداقت اور حقانیت کی گواہی پیش کرنے والا ہے ، لہٰذا اس میں تمام صحیح ایمان والے شامل ہیں۔ حضرت امام مجدد الف ثانی (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ تو نبوت کے کمالات سے براہ راست مستفید ہونے والے تھے ، لہٰذا ان کی صدیقیت اور شہادت میں تو کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے دور خلافت میں فرمایا تھا انا الصدیق الاکبر لا یقول بعدی الا کاذب ، یعنی میں صدیق اکبر ہوں ، میرے بعد جو کوئی صدیقیت کا دعویٰ کرے گا ، وہ جھوٹا ہوگا۔ اس لحاظ سے بھی صحیح ایمان والا صدیق کہلا سکتا ہے۔ امام ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے لانے والے بھی شہید ہیں اور ان میں یہ آٹھ آدمی شامل ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت طلحہ ؓ ، حضرت زبیر ؓ ، حضرت سعد ؓ ، حضرت زید ؓ ، حضرت حمزہ ؓ ، حضرت عمر ؓ ے اگرچہ چھٹے سال نبوت میں اسلام قبول کیا ، مگر ان کی نیک نیتی اور صالحیت کی بناء پر ان کو بھی نویں نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والے توحید کی گواہی دینے والے شہداء ہیں۔ اہل ایمان اور کفار کا بدلہ : فرمایا جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق ہیں اور اپنے رب کے ہاں شہید ہیں لھم اجرھم ونورھم ان کے لئے اجر اور روشنی ہے اس روشنی کے ذریعے وہ پل صراط کی گھاٹیوں کو عبور کریں گے اور پھر انہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ملے گا۔ ان کے برخلاف والذین کفروا وکذبوا بایتنا ، وہ لوگ جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ایمان ، توحید ، احکام الٰہی اور اعمال صالحہ سب کو جھٹلایا دیا۔ وحی الٰہی اور جزائے عمل کا انکار کیا ، شریعت کو سچا تسلیم نہ کیا۔ فرمایا اولئک اصحب الحجیم ، یہی لوگ جہنم والے ہیں جنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا ہوگا ، پھر ان دونوں گروہوں کا امتیاز بھی ہوگا کہ ہر گروہ کا انجام مختلف ہوگا۔
Top