Maarif-ul-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور ہم نے بھیجا نوح ؑ کو اس کی قوم کی طرف کہ میں تم کو ڈر کی بات سناتا ہوں کھول کر
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے نوح ؑ کو ان کی قوم کے پاس رسول بنا کر (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرو (اور جو بت تم نے قرار دے رکھے ہیں، وَدّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو چھوڑ دو ، چناچہ حضرت نوح ؑ نے جا کر ان سے فرمایا کہ) میں تم کو (درصورت عبادت غیر اللہ کے) صاف صاف ڈراتا ہوں (اور اس ڈرانے کی تفصیل یہ ہے کہ) میں تمہارے حق میں ایک بڑے تکلیف دینے والے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں سو ان کی قوم میں جو کافر سردار تھے وہ (جواب میں) کہنے لگے کہ (تم جو نبوت کا دعوی کرتے ہو جیسا نذیر مبین سے معلوم ہوتا ہے تو ہمارے جی کو یہ بات نہیں لگتی کیونکہ) ہم تو تم کو اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں (اور بشر کا نبی ہونا دور از کار ہے) اور اگر (بعض لوگوں کے اتباع کرنے سے استدلال کیا جاوے تو وہ قابل استدلال نہیں کیونکہ) ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارا اتباع انہیں لوگوں نے کیا ہے جو ہم میں بالکل رذیل ہیں (جن کی عقل اکثر خفیف ہوتی ہے پھر) وہ (اتباع) بھی محض سرسری رائے سے (ہوا ہے یعنی اول تو ان کی عقل ہی صائب نہیں غور کے بعد بھی غلطی کرتے دوسرے پھر غور بھی نہیں کیا، اس لئے ایسے لوگوں کا تم کو نبی سمجھ لینا یہ کوئی حجت نہیں بلکہ بالعکس ہمارے اتباع سے مانع ہے کیوں کہ شرفاء کو رذیلوں کی موافقت سے عار آتی ہے نیز اکثر ایسے کم حوصلہ لوگوں کے اغراض بھی حصول مال یا ترفع ہوا کرتا ہے، سو یہ لوگ بھی دل سے ایمان نہیں لائے) اور (اگر یہ کہا جاوے کہ باوجود رذیل ہونے کے ان لوگوں کو کسی خاص امر کے اعتبار سے ہم پر فضیلت ہے جس کے اعتبار سے ان کی رائے اس بات میں سائب ہے سو) ہم تم لوگوں میں (یعنی تم میں اور مسلمانوں میں) کوئی بات اپنے سے زیادہ نہیں پاتے (اس لئے تم مسلمانوں کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے) بلکہ ہم تم کو (بالکل) جھوٹا سمجھتے ہیں، نوح ؑ نے فرمایا کہ اے میری قوم (تم جو کہتے ہو کہ تمہاری نبوت جی کو نہیں لگتی تو) بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی جانب سے دلیل پر (قائم) ہوں (جس سے میری نبوت ثابت ہوتی ہو) اور اس نے مجھ کو اپنے پاس سے رحمت (یعنی نبوت) عطا فرمائی ہو پھر وہ (نبوت یا اس کی حجت) تم کو نہ سوجھتی ہو تو (میں کیا کروں محبوب ہوں) کیا ہم اس (دعوٰی یا دلیل) کو تمہارے سر منڈھ دیں اور تم اس سے نفرت کئے چلے جاؤ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ کہنا کہ جی کو نہیں لگتی یہ محض اس وجہ سے ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں، اور میرے پاس اس کے واقع اور صحیح ہونے کی دلیل موجود ہے یعنی معجزہ وغیرہ نہ کہ کسی کا اتباع، اس سے اس کا جواب بھی ہوگیا کہ ان کا اتباع حجت نہیں لیکن کسی دلیل کا فائدہ موقوف ہے غور و فکر پر وہ تم کرتے نہیں اور یہ میرے بس سے باہر ہے) اور (اتنی بات اور زائد فرمائی کہ) اے میری قوم (یہ تو سوچو کہ اگر میں نبوت کا غلط دعوٰی کرتا تو آخر اس میں میرا کچھ مطلب تو ہوتا مثلا یہی ہوتا کہ اس کے ذریعہ سے خوب مال کماؤں گا تو تم کو معلوم ہے کہ) میں تم سے اس (تبلیغ) پر کچھ مال نہیں مانگتا، میرا معاوضہ تو صرف اللہ کے ذمہ ہے (اسی سے آخرت میں اس کا طالب ہوں اسی طرح اور اغراض بھی اگر غور کرو تو منتفی پاؤ گے پھر جب کوئی غرض نہیں پھر مجھ کو جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ تھا خلاصہ یہ ہے کہ کذب دعوی کو کوئی امر مقتضی نہیں اور صدق دعوی پر دلیل قائم ہے پھر نبوت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے) اور (تم جو اتباع اراذل کو اپنے اتباع سے مانع بتلاتے ہو اور صراحةً یا دلالةً یہ چاہتے ہو کہ میں ان کو اپنے پاس سے نکال دوں سو) میں تو ان ایمان والوں کو نکالتا نہیں (کیونکہ) یہ لوگ اپنے رب کے پاس (عزت و مقبولیت کے ساتھ) جانے والے ہیں (اور بھلا کوئی شخص مقربان شاہی کو نکالا کرتا ہے اور اس سے اس کا بھی جواب ہوگیا کہ یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے) لیکن واقعی میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ (خواہ مخواہ کی) جہالت کر رہے ہو (اور بےڈھنگی باتیں کر رہے ہو) اور (بالفرض والتقدیر) اگر میں ان کو نکال بھی دوں تو (یہ بتلاؤ کہ) مجھ کو خدا کی گرفت سے کون بچائے گا (کیا تم میں اتنی ہمت ہے جو ایسے بیہودہ مشورے دے رہے ہو) کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے اور (اس تقریر میں ان کے تمام شبہات کا جواب ہوگیا لیکن آگے ان سب جوابوں کا پھر تتمہ ہے یعنی جب میری نبوت دلیل سے ثابت ہے تو اول تو دلیل کے سامنے استبعاد کوئی چیز نہیں پھر یہ کہ وہ مستبعد بھی انہیں البتہ کسی امر عجیب و غریب کا اگر دعوی کرتا تو انکار واستبعاد چندان منکر و مستبعد نہ تھا گو دلیل کے بعد پھر وہ بھی مسموع نہیں البتہ اگر دلیل بھی مقتضی استبعاد کو ہو تو پھر واجب ہے لیکن میں تو کسی ایسے امر عجیب کا دعوی نہیں کرتا چنانچہ) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ میں (یہ کہتا ہوں کہ میں) تمام غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور (یہ تو اپنی نبوت کے متعلق ارشاد فرمایا، آگے اپنے تابعین کے متعلق ارشاد ہے یعنی) جو لوگ تمہاری نگاہوں میں حقیر ہیں میں ان کی نسبت (تمہاری طرح) یہ نہیں کہہ سکتا کہ (یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے اس لئے) اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو ثواب نہ دے گا ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کو اللہ ہی خوب جانتا ہے (تو ممکن ہے کہ ان کے دلوں میں اخلاص ہو تو پھر میں ایسی بات کیونکر کہہ دوں) میں تو (اگر ایسی بات کہہ دوں تو) اس صورت میں ستم ہی کروں (کیونکہ بےدلیل دعوٰی کرنا گناہ ہے، جب نوح ؑ نے سب باتوں کا پورا پورا جواب دے دیا جس کا جواب پھر ان سے کچھ بن نہ پڑا تو عاجز ہوکر) وہ لوگ کہنے لگے کہ اے نوح تم ہم سے بحث کرچکے پھر اس بحث کو بڑھا بھی چکے سو (اب بحث چھوڑو اور) جس چیز سے تم ہم کو دھمکایا کرتے ہو (کہ عذاب آجاوے گا) وہ ہمارے سامنے لے آؤ انہوں نے فرمایا کہ (اس کو لانے والا میں کون ہوں مجھ کو پہنچا دینے سنا دینے کا حکم تھا سو میں بجا لاچکا) اس کو تو اللہ تعالیٰ بشرطیکہ اس کو منظور ہو تمہارے سامنے لاوے گا اور (اس وقت پھر) تم اس کو عاجز نہ کرسکو گے (کہ وہ عذاب واقع کرنا چاہے اور تم نہ ہونے دو) اور (جو میرا کام تھا پہنچا دینا اور سنا دینا اس میں میں نے تمہاری پوری خیر خواہی اور دلسوزی کی لیکن) میری خیر خواہی تمہارے کام نہیں آسکتی گو میں تمہاری کیسی ہی خیر خواہی کرنا چاہوں جب کہ اللہ ہی کو تمہارا گمراہ کرنا منظور ہو (جس کی وجہ تمہارا عناد و استکبار ہے مطلب یہ کہ جب تم ہی اپنی بد قسمتی سے اپنے لئے نفع حاصل کرنا اور نقصان سے بچنا نہ چاہو تو میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے) وہی تمہارا مالک ہے (اور تم مملوک تو تم پر اس کے تمام حقوق واجب ہیں اور تم ان کو براہ عناد ضائع کرکے مجرم ہو رہے ہو) اور اسی کے پاس تم کو جانا ہے (وہ تمہارے اس سارے عناد و کفر کی کسر نکال دے گا) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہ قرآن خود تراش لیا ہے آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ اگر (بالفرض) میں نے تراشا ہوگا تو میرا یہ جرم مجھ پر (عائد) ہوگا (اور تم میرے جرم سے بری الذمہ ہوگے) اور (اگر تم نے یہ دعوی تراشا ہوگا یعنی مجھ پر بہتان لگایا ہوگا تو تمہارا یہ جرم تم پر عائد ہوگا اور) میں تمہارے اس جرم سے بری الذمہ رہوں گا۔

معارف و مسائل
حضرت نوح ؑ نے جب اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی تو قوم نے ان کی نبوت و رسالت پر چند شبہات و اعتراضات پیش کئے، حضرت نوح ؑ نے باذن اللہ ان کے جوابات دیئے جن کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل دیانت اور معاشرت کے بھی آگئے ہں، آیات مذکورہ میں یہی مکالمہ فرمایا گیا ہے۔
Top