Maarif-ul-Quran - Maryam : 4
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں وَهَنَ : کمزور ہوگئی الْعَظْمُ : ہڈیاں مِنِّيْ : میری وَاشْتَعَلَ : اور شعلہ مارنے لگا الرَّاْسُ : سر شَيْبًا : سفید بال وَّ : اور لَمْ اَكُنْ : میں نہیں رہا بِدُعَآئِكَ : تجھ سے مانگ کر رَبِّ : اے میرے رب شَقِيًّا : محروم
اے میرے رب بوڑھی ہوگئیں میری ہڈیاں اور شعلہ نکلا سر سے بڑھاپے کا اور تجھ سے مانگ کر اے رب میں کبھی محروم نہیں رہا
اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًاکمزوری ہڈیوں کی ذکر فرمائی کیونکہ وہی عمود بدن ہیں، جب ہڈی ہی کمزور ہوجائے تو سارے بدن کی کمزوری ہے۔ اشتعال کے لفظی معنی بھڑک اٹھنے کے ہیں اس جگہ بالوں کی سفیدی کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دے کر اس کا پورے سر پر پھیل جانا مقصود ہے۔
دعا میں اپنی حاجت مندی کا اظہار مستحب ہے۔:
اس جگہ دعا سے پہلے حضرت زکریا ؑ نے اپنے ضعف و کمزوری کا ذکر کیا، اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جس کی طرف خلاصہ تفسیر میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان حالات کا مقتضا یہ تھا کہ اولاد کی خواہش نہ کروں۔ ایک دوسری وجہ امام قرطبی نے تفسیر میں یہ بھی بیان فرمائی کہ دعا مانگنے کے وقت اپنے صنف و بدحالی اور حاجتمندی کا ذکر کرنا قبولیتِ دُعا کے لئے اقرب ہے اسی لئے علماء نے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی حاجتمندی کا ذکر کرے۔
Top