Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 179
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
بڑی برکت ہے اس کی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر تاکہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرانے والا
خلاصہ تفسیر
بڑی عالی شان ذات ہے جس نے یہ فیصلہ کی کتاب (یعنی قرآن) اپنے خاص بندے (محمد ﷺ پر نازل فرمائی تاکہ وہ تمام دنیا جہاں والوں کے لئے (ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب الٰہی سے) ڈرانے والا ہو، ایسی ذات جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو (اپنی) اولاد قرار نہیں دیا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے حکومت میں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر سب کا الگ الگ انداز رکھا (کہ کسی چیز کے آثار و خواص کچھ ہیں کسی کے کچھ ہیں) اور ان مشرکین نے خدا کو چھوڑ کر اور ایسے معبود قرار دے لئے ہیں جو (کسی طرح معبود ہونے کے قابل نہیں کیونکہ وہ) کسی چیز کے خالق نہیں اور بلکہ وہ مخلوق ہیں اور خود اپنے لئے نہ کسی نقصان (کے رفع کرنے) کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع (کے حاصل کرنے) کا اور نہ کسی کے مرنے کا اختیار رکھتے ہیں (کہ کسی جاندار کی جان نکال سکیں) اور نہ کسی کے جینے کا (اختیار رکھتے ہیں کہ کسی بےجان میں جان ڈال دیں) اور نہ کسی کو (قیامت میں) دوبارہ زندہ کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں۔ اور جو شخص ان چیزوں پر قدرت نہیں رکھتا وہ معبود نہیں ہوسکتا)

معارف وسائل
خصوصیات سورت
یہ پوری سورت جمہور مفسرین کے نزدیک مکی ہے۔ حضرت ابن عباس و قتادہ نے تین آیتوں کے متعلق بیان فرمایا کہ یہ مکی نہیں مدنی ہیں۔ باقی سورت مکی ہے اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں کچھ آیات مکی ہیں (قرطبی) اور خلاصہ اس سورت کے مضامین کا قرآن کریم کی عظمت اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کی حقانیت کا بیان اور دشمنوں کی طرف سے اس پر جو اعتراضات تھے ان کا جواب ہے۔
تَبٰرَكَ ، برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنے خیر کی کثرت کے ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہر خیر و برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ فُرْقَانَ ، قرآن کریم کا لقب ہے لغوی معنی اس کے تمیز اور فرق کرنے کے ہیں۔ قرآن چونکہ اپنے واضح ارشادات کے ذریعہ حق و باطل میں تمیز اور فرق بتلاتا ہے اور معجزہ کے ذریعہ اہل حق و اہل باطل میں امتیاز کردیتا ہے اس لئے اس کو فرقان کہا جاتا ہے۔
لِلْعٰلَمِيْنَ ، اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت و نبوت سارے عالم کے لئے ہے بخلاف پچھلے انبیاء کے ان کی نبوت و رسالت کسی مخصوص جماعت یا مخصوص مقام کے لئے ہوتی تھی۔ صحیح مسلم کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جو اپنے چھ خصوصی فضائل کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کی بعثت سارے جہان کے لئے عام ہے۔
Top