Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
(اے پیغمبر ﷺ ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھا لگے مگر وہ جو تمہارے ہاتھ کا مال ہے (یعنی لونڈیوں کے بارے میں تم کو اختیار ہے) اور خدا ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ علماء کا اس ارشاد آیت لایحل لک النساء من بعد کی تاویل میں سات اقوال ہیں : (1) یہ آیت سنت سے منسوخ ہے اس کی ناسخ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث ہے : رسول اللہ ﷺ کا وصال نہیں ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے عورتوں کا حلال کردیا (2) یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ یہ ایک اور آیت کے ساتھ منسوخ ہے۔ امام طحاوی نے حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال نہیں ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کردیا کہ آپ عورتوں میں سے جس سے چاہیں شادی کرلیں مگر محرم کے ساتھ شادی نہیں کرسکتے (3) وہ آیت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے آیت ترجی من تشاء منھن وتوی الیک من تشاء نحاس نے کہا : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس آیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ اولی ہے۔ نسخ کے بارے میں یہ اور حضرت عائشہ کا قول ایک ہی چیز ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ ارادہ کیا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے نکاح کرنا حلال قرار دیا ہو، ساتھ ہی ساتھ یہ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن عباس، حضرت علی بن حسین ؓ اور ضحاک کا نقطہ نظر ہے۔ کوفہ کے بعض فقہاء نے اس سے معارضہ کیا ہے اور کہا : یہ محال ہے کہ یہ آیت ترجی من تشاء منھن۔ لایحل لک النساء من بعد کو منسوخ کرے کیونکہ ترجی من تشاء مصحف میں پہلے ہے تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور اس کے قول کو ترجیح دی جس نے یہ کہا کہ یہ آیت سنت سے منسوخ ہے۔ نحاس نے کہا : یہ معارضہ لازم نہیں آتا اور اس کا قائل غلط ہے، کیونکہ قرآن ایک سورت کے قائم مقام ہے، جس طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : پورے کا پورا قرآن آسمان دنیا کی طرف رمضان شریف کے مہینے میں نازل ہوا۔ تیرے لیے یہ واضح ہے کہ اس معترض کا اعتراض لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ الازواجھم متا عا الی الحول غیر اخراج ( البقرہ : 240) ایل تاویل کے مطابق منسوخ ہے۔ ہم علماء میں باہم اختلاف سے آگاہ نہیں اس کی ناسخ وہ آیت ہے جو اس سے قبل ہے : آیت والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجایتربصن بانفسھن اربعہ اشھر وعشرا ( البقرہ : 234) مسئلہ نمبر 3۔ حضور ﷺ پر ممنوع کردیا گیا کہ آپ ان بیویوں کی موجودگی میں کسی اور عورت سے شادی کریں، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی، اس کے رسول اور دار آخرت کو اپنایا ہے ؛ یہ حضرت حسن بصری، حضرت ابن سیرین، ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کا قول ہے۔ نحاس نے کہا : ممکن ہے یہ قول اسی طرح ہو پھر منسوخ کردیا گیا ہو۔ مسئلہ نمبر 4۔ جب ازواج مطہرات پر حرام کردیا گیا کہ وہ حضور ﷺ کے بعد کسی سے شادی کریں تو حضور ﷺ پر بھی حرام کردیا گیا کہ آپ ﷺ ان کے علاوہ کسی سے شادی کریں ؛ یہ ابو امامہ بن سہل بن حنیف کا نقطہ نظر ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ آیت لا یحل لک النساء من بعد وہ اصناف جن کا ذکر کردیا گیا ہے ان کے بعد ؛ یہ حضرت ابی بن کعب، عکرمہ اور ابو رزین کا نقطہ نظر ہے (1) ؛ یہی محمد بن جریری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ جس نے کہا کہ آپ ﷺ کے لیے اباحت مطلق تھی اس نے کہا : آیت لایحل لک النساء سے مراد ہے آپ کے لیے یہودی اور نصرانی عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں (2) ۔ یہ ایسی تاویل ہے جس میں بعد ہے۔ مجاہد، سعیدبن جبیر اور عکرمہ سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ چھٹا قول ہے۔ مجاہد نے کہا : تاکہ کافرہ مومنوں کی ماں نہ ہو۔ یہ قول بعید ہے کیونکہ اس صورت میں اس کلام کو مقدر ماننا پڑتا ہے۔ من بعد المسلمات یہاں تو مسلمات کا ذکر نہیں، اسی طرح اس نے مقدر کیا : آیت ولا ان تبدل بھن یعنی نہ یہ کہ آپ مسلمان عورت کو طلاق دیں اور اس کے بدلے میں کتابی عورت سے شادی کریں۔ مسئلہ نمبر 6۔ حضور ﷺ کے لیے یہ حلال تھا کہ جس سے چاہیں اس سے شادی کریں۔ پھر اسے منسوخ کردیا گیا۔ کہا : اسی طرح آپ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) تھے : یہ محمد بن کعب قرظی کا نقطہ نظر ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ آیت ولا ان تبدل بھن من ازواج ابن زید نے کہا : یہ عمل ایسا تھا جو عرب کہا کرتے تھے عربوں میں سے کوئی کہتا : میری بیوی لے لو اور اپنی بیوی مجھے دے دو ۔ دار قطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے (3) : دور جاہلیت میں بدل یوں ہوتا کہ ایک آدمی دوسرے کو کہتا : انزل لی عن امراتک وانزل لک عن امراتی اور میں کچھ زائد بھی تجھے دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اسی آیت کو نازل فرمایا : آیت ولا ان تبدل بھن من ازواج ولو اعجبک حسنھن کہا : عیینہ بن حصن فزاری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ ﷺ کے پاس حضرت عائشہ صدیقہ ؓ موجود تھیں وہ بغیر اجازت کے اندر داخل ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے عیینہ ! اجازت کہاں گئی ؟ “ ( تو نے اجازت نہیں لی) اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ! جب سے میں بالغ ہوا ہوں میں نے بنو مضر کے کسی فرد سے اجازت نہیں مانگی۔ اس نے عرض کی : یہ آپ کے پہلو میں حمیراء کون ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” یہ عائشہ ام المومنین ہے “۔ اس نے کہا : افلا انزل لک عن احسن الخلق کیا میں آپ کو مخلوق میں سے خوبصورت ترین پیش نہ کروں ؟ فرمایا : اے عیینہ ! اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیا ہے “ جب وہ باہر چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ نے عرض کی : یارسول اللہ ! یہ کون ہے ؟ فرمایا : ” احمق جس کی اطاعت کی جاتی ہے جس طرح تو دیکھ رہی ہے کہ یہ اپنی قوم کا سردار ہے “۔ طبری، نحاس اور دوسرے علماء نے اس کا انکار کیا ہے جس کی ابن زید نے عربوں سے حکایت بیان کی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو باہم بدلا کرتے تھے۔ طبری نے کہا : عربوں نے کبھی بھی ایسا عمل نہیں کیا (1) ۔ عیینہ بن حصن کے بارے میں جو روایت نقل کی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ ﷺ کے پاس حضرت عائشہ صدیقہ ؓ موجود تھیں یہ تبدیلی نہیں تھی اور نہ ہی اس نے اس کا ارادہ کیا تھا اس نے حضرت عائشہ صدیقہ کو حقیر جانا کیونکہ آپ بچی تھیں تو اس نے یہ بات کی۔ میں کہتا ہوں : میں نے جو زید بن اسلم کی حدیث ذکر کی ہے کہ وہ عطار بن یسار سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ دور جاہلیت میں بدل اس کے خلاف پر دلالت کرتا ہے جس کا انکار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مبرد نے کہا : لایحل کو یاء اور تاء کے ساتھ پڑ ھا گیا ہے، جس نے تاء کے ساتھ قراءت کی تو وہ عورتوں کی جماعت کے معنی میں ہے، جس نے یاء کے ساتھ قراءت کی تو تمام عورتوں کے معنی میں ہے۔ فراء نے گمان کیا کہا : قراء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ قراءت یاء کے ساتھ ہے، یہ غلط ہے۔ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے : قراء کا اتفاق ہے جب ابو عمرو نے تاء کے ساتھ قراءت کی ہے ان سے اس بارے میں کوئی اختلاف مروی نہیں۔ (3) آیت ولو اعجبک حسنھن حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کے سبب سے آیت نازل ہوئی (2) ۔ جب حضرت جعفر بن ابی طالب کی شہادت پر ان کے حسن نے رسول اللہ ﷺ کو متعجب کیا، تو حضور ﷺ نے اس سے شادی کا ارادہ کیا۔ یہ حدیث ضعیف ہے ؛ یہ قول ابن عربی نے کیا ہے۔ (4) اس آیت میں دلیل ہے کہ مرد جس عورت سے شادی کا ارادہ کرے وہ اسے دیکھ سکتا ہے حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے شادی کا ارادہ کیا نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا : ” اسے دیکھ لے کیونکہ انصار کی آنکھ میں کچھ نقص ہوتا ہے “ (4) ۔ صحیح نے اسے نقل کیا ہے۔ حمیدی اور ابو فرج جوزی نے کہا : یعنی پیلی یا نیلی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کی آنکھ میں میل (کیچڑ) ہوتی ہے۔ (5) جس عورت کو دعوت نکاح دی جائے اس کو دیکھنے کا حکم مصلحت کے لیے ارشاد کے طریقہ پر ہے جب مرد اسے دیکھے گا تا ممکن ہے اس میں ایسی چیز دیکھے جو اسے نکاح میں رغبت دلائے۔ جو امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ امر ارشاد کے طریقہ پر ہے وہ وہ روایت ہے جسے ابو دائود نے ذکر کیا ہے۔ حضرت جابر ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : ” تم میں جب کوئی کسی عورت کو دعوت نکاح دے اگر اس کے لیے ممکن ہو کہ عورت کی ایسی خصلت دیکھے جو اسے اس کے ساتھ نکاح پر راغب کرے تو وہ ایسا کرے “ (1) ۔ حضور ْ ﷺ کا فرمان : فان استطاع فلیفعل اس قسم کا قول واجب کے بارے میں نہیں کیا جاتا۔ یہی بات جمہور فقہاء، امام مالک، امام شافعی، کوفہ کا فقہاء، دوسرے فقہاء اور اہل الظاہر نے کی ہے۔ ایک قوم نے اسے ناپسند کیا ہے۔ ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ احادیث صحیحہ میں ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان : ولو اعجبک حسنھن سہل بن حثمہ نے کہا : میں نے محمد بن مسلمہ کو دیکھا جو ثبیتۃ بنت ضحاک کو مدینہ طیبہ کی بلند جگہوں سے ایک جگہ سے تاڑ رہے تھے (2) میں نے انہیں کہا : کیا آپ اس طرح کرتے ہیں، انہوں نے کہا : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کسی عورت کو دعوت نکاح کا خیال ڈالے تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ اسے دیکھے “ (3) ۔ اجار کا معنی چھت یا بلند جگہ ہے، یہ اہل شام اور اہل حجاز کی لغت ہے۔ ابو عبید نے کہا : اجار کی جمع اجاجیر اور اجاجرہ ہے۔ (6) کس حصہ کو دیکھے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے کہا : اس کے چہرہ اور اس کی ہتھیلیوں کو دیکھے، اس کی اجازت کے بغیر اسے نہ دیکھے۔ امام شافعی اور امام احمد نے کہا : اس کی اجازت اور بغیر اجازت کے دیکھے جب وہ پردہ میں ہو۔ اوزاعی نے کہا : وہ اسے دیکھے، وہ کوشش کرے اور اس کے گوشت والی جگہوں کو دیکھے۔ دائود نے کہا : اس کے تمام جسم کو دیکھے۔ وہ لفظ کے ظاہر سے تمسک کرتے ہیں۔ شریعت کے اصول اس پر اس امر کو رد کرتے ہیں کیونکہ پردہ کی جگہوں پر آگاہی حاصل کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ (7) آیت الا ماملکت یمینک علماء نے اس معاملہ میں اختلاف کیا ہے کہ کیا کافرہ لونڈی نبی کریم ﷺ پر حلال ہے ؟ اس کے بارے میں دو قول ہیں : (1) وہ حلال ہے کیونکہ یہ ارشاد : آیت الا ماملکت یمینک عام ہے ؛ یہ مجاہد، سعید بن جبیر، عطا اور حکم کا قول ہے۔ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت لایحل لک النساء من بعد اس سے مراد ہے غیر مسلم عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں، جہاں تک یہودی، نصرانی اور مشرک عورتوں کا تعلق ہے وہ آپ پر حرام ہیں یعنی آپ کے لیے حلال نہیں کہ آپ کافرہ سے شادی کریں تو وہ مومنوں کی ماں بن جائے، اگرچہ اس کا حسن آپ کو خوش کرے مگر جو آپ کی مملوکہ ہو کیونکہ ایسی عورت کے ساتھ خواہش کرنا جائز ہے۔ (2) یہ حلال نہیں تاکہ آپ کی اس امر میں پاکیزگی بیان کی جائے کہ آپ کافرہ کے ساتھ مباشرت کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت ولا تمسکو بعصم الکوافر (الممتحنہ : 10) تو نبی کریم ﷺ کے لیے یہ کیسے جائز ہوگا : آیت الا ماملکت یمینک میں ما محل رفع میں ہے یہ النساء سے بدل ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ استثناء کے طریقہ پر محل نصب میں ہو، اس میں ضعف ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ مصدر یہ ہوتقدیر کلام یہ ہوگی الاملک یمینک ملک یہ ملوک کے معنی میں ہے۔ یہ محل نصب میں ہے کیونکہ یہ اس چیز سے استثناء ہے جو ماقبل کی جنس سے نہیں۔
Top