Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 132
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور حکم مانو تم اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور حکم مانو اللہ کا اور رسول ﷺ کا تاکہ تم پر رحم ہو
خلاصہ تفسیر
اور خوشی سے کہا مانو اللہ کا اور (اس کے) رسول ﷺ کا امید ہے کہ تم رحم کئے جاؤ گے (یعنی قیامت میں) اور دوڑو طرف مغفرت کے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے (نصیب) ہو اور (دوڑو) طرف جنت کے (مطلب یہ ہے کہ ایسے نیک کام اختیار کرو جس سے پروردگار تمہاری مغفرت کردیں اور تم کو جنت عنایت ہو اور وہ جنت ایسی ہے) جس کی وسعت ایسی (تو) ہے (ہی) جیسے سب آسمان اور زمین (اور زیادہ کی نفی نہیں، چناچہ واقع میں زائد ہونا ثابت ہے اور) وہ تیار کی گئی ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے۔
معارف و مسائل
آیت مذکورہ میں دو مسئلے زیادہ اہم ہیں۔ اول پہلی آیت کا مضمون جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے، اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر رسول کی اطاعت بعینہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کی بھیجی ہوئی کتاب " قرآن " کی اطاعت کا نام ہے تو پھر اس کے علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور اگر ان دونوں میں کچھ فرق ہے تو کیا ہے ؟
دوسری بات جو ہمیشہ یاد رکھنے اور اپنی عملی زندگی کا قبلہ بنانے کے قابل ہے وہ وہ صفات اور علامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول اور پرہیزگار بندوں کے لئے ان آیات میں بتلا کر یہ واضح فرمادیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت محض زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوتی بلکہ اطاعت گزاروں کے کچھ صفات اور حالات ہوتے ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔
رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ سے الگ کر کے بیان کرنے کی حکمت
پہلا مسئلہپہلی مختصر آیت میں اس طرح بیان فرمایا(واطیعوا اللہ والرسول لعلکم ترحمون۔ " یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے " اس میں رحمت خداوندی کے لئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ضروری اور لازم قرار دیا ہے، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو بھی اسی طرح لازم اور ضروری قرارد یا ہے، اور یہ پھر صرف اسی آیت میں نہیں پورے قرآن میں بار بار اس کا تکرار اسی طرح ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہوتا ہے وہیں اطاعت رسول کا بھی ذکر مستقلا ہے، قرآن حکیم کے یہ متواتر اور مسلسل ارشادات ایک انسان کو اسلام اور ایمان کے بنیادی اصول کی طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ ایمان کا پہلا جزء خدائے تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور اس کی بندگی اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ہے، تو دوسرا جزء " رسول " کی تصدیق اور اس کی اطاعت ہے۔ اب یہاں غور طلب یہ ہے کہ قرآن کریم ہی کے ارشادات سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب باذن خداوندی ہوتا ہے، اپنی طرف سے کچھ نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے " وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی " (53: 3، 4) یعنی رسول کریم ﷺ جو کچھ بولتے ہیں وہ کسی اپنی خواہش سے نہیں کہتے، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے " وحی " ہوتی ہے، اس کا حاصل تو یہ ہوا کہ " رسول " کی اطاعت بعینہ اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہوتی ہے، اس سے الگ کوئی چیز نہیں، سورة نساء آیت 80 میں خود قرآن نے بھی ان الفاظ میں اس کو واضح فرمادیا" من یطع الرسول فقد اطاع اللہ " (یعنی جس نے اطاعت کی رسول کی اس نے اطاعت کی اللہ کی) تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان دونوں اطاعتوں کو الگ الگ بیان کرنے میں کیا فائدہ ہے ؟ خصوصا اس التزام اور اہتمام کے ساتھ کہ پورے قرآن کریم میں یہی عادت مستمرہ ہے کہ دونوں اطاعتوں کا ساتھ ساتھ حکم دیا جاتا ہے۔ راز اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے ایک کتاب بھیجی، اور ایک رسول، رسول کے ذمہ یہ کام لگائے گئے، اول یہ کہ وہ قرآن کریم کی آیات ٹھیک اسی صورت اور لب و لہجہ کے ساتھ لوگوں کو پہنچا دیں جس صورت سے وہ نازل ہوئیں۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کو ظاہری اور باطنی گندگیوں سے پاک کریں۔ تیسرے یہ کہ وہ اس کتاب کے مضامین کی امت کو تعلیم دیں، اور اس کے مقاصد کو بیان فرمائیں، نیز یہ کہ وہ کتاب کے ساتھ حکمت کی تعلیم دیں، یہ مضمون قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تقریبا ایک ہی عنوان سے آیا ہے۔ یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ۔ (ق۔ 62: 2)
معلوم ہوا کہ رسول کے فرائض منصبی میں صرف اتنا ہی داخل نہیں کہ وہ قرآن لوگوں تک پہنچا دیں، بلکہ اس کی تعلیم اور تبیین بھی رسول کے ذمہ ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ کے مخاطب عرب کے فصحاء و بلغاء تھے، ان کے لئے قرآن کریم کی تعلیم کے یہ معنی تو نہیں ہوسکتے کہ محض الفاظ قرآنی کے لفظی معنی ان کو سمجھائے جائیں، کیونکہ وہ سب خود بخود سمجھتے تھے بلکہ اس تعلیم و تبیین کا مقصد صرف یہی تھا اور یہی ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم نے ایک حکم مجمل یا مبہم الفاظ میں بیان فرمایا، اس کی تشریح اور تفصیل رسول کریم ﷺ نے اس وحی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچائی جو قرآن کے الفاظ میں نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک میں ڈالی جس کی طرف آیت قرآن ان ھو الا وحی یوحی میں اشارہ کیا گیا ہے، مثلا قرآن نے بیشمار مواقع میں صرف اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فرمانے پر اکتفا کیا ہے، کہیں نماز کے معاملہ میں قیام، رکوع اور سجدہ کا ذکر بھی آیا تو وہ بھی بالکل مبہم ہے ان کی کیفیات کا ذکر نہیں، رسول کریم ﷺ کو جبریل امین نے خود آکر اللہ کے حکم سے ان تمام اعمال اور ارکان کی تفصیل صورت عمل کر کے بتلائی، اور آپ نے اسی طرح قول و عمل کے ذریعہ امت کو پہنچا دیا۔ زکوٰۃ کے مختلف نصاب اور ہر نصاب پر زکوٰۃ کی مقدار کا تعین، پھر یہ بات کہ کس مال پر زکوٰۃ ہے اور کس مال پر نہیں، اور مقادیر نصاب میں کتنا حصہ معاف ہے، یہ سب تفصیلات رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائیں، اور ان کے فرامین لکھوا کر متعدد صحابہ کرام کے سپرد فرمائے۔ یا مثلا قرآن حکیم نے حکم دیا کہلا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔ (2: 188) " یعنی آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ پر ناحق نہ کھاؤ "۔
اب اس کی یہ تفصیل کہ رائج الوقت معاملات، بیع و شراء اور اجارہ میں کیا کیا صورتیں ناحق اور بےانصافی یا ضرر عوام پر مشتمل ہونے کی وجہ سے باطل ہیں، یہ سب حضور اکرم ﷺ نے باذن خداوندی امت کو بتلائی، اسی طرح تمام شرعی احکام کا بھی یہی حال ہے۔ تو یہ تمام تفصیلات جو آنحضرت ﷺ نے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لئے بہ وحی الہی امت کو پہنچائیں، چونکہ یہ تفصیلات قرآن کریم میں مذکور نہیں، اس لئے یہ احتمال تھا کہ کسی وقت کسی ناواقف کو یہ دھوکا ہو کہ یہ تفصیلی احکام اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے احکام نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی تعمیل ضروری نہیں، اس لئے حق تعالیٰ نے سارے قرآن میں بار بار اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے، جو حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے مگر ظاہری صورت اور تفصیل بیان کے اعتبار سے اس سے کچھ مختلف بھی ہے، اس لئے بار بار تاکیدات کے ساتھ بتلادیا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں جو کچھ حکم دیں اس کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت سمجھ کر مانو، خواہ وہ قرآن میں صراحۃ موجود ہو یا نہ ہو، یہ مسئلہ چونکہ اہم تھا اور کسی ناواقف کو دھوکہ لگ جانے کے علاوہ دشمنان اسلام کے لئے اسلامی اصول میں گڑ بڑ پھیلانے اور مسلمانوں کو اسلام کے صحیح راستہ سے بہکانے کا بھی ایک موقع تھا، اس لئے قرآن کریم نے اس مضمون کو صرف لفظ اطاعت رسول کے ساتھ ہی نہیں بلکہ مختلف عنوانات سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو بتلایا ہے، مثلا آپ کے فرائض میں تعلیم کتاب کے ساتھ تعلیم حکمت کا اضافہ کر کے اس طرف اشارہ کردیا، کہ علاوہ کتاب کے کچھ اور بھی آپ کی تعلیمات میں داخل ہے اور وہ بھی مسلمانوں کے لئے واجب الاتباع ہے، جس کو لفظ حکمت سے تعبیر فرمایا گیا ہے، کہیں ارشاد فرمایا کہلتبین للناس ما نزل الیھم (16: 44) " یعنی رسول کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے لئے آپ پر نازل شدہ آیات کے مطالب و مقاصد اور تشریحات کو بیان فرمائیں "۔ اور کہیں یہ ارشاد ہے کہ ما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا۔ (59: 7) " یعنی رسول تم کو جو کچھ دین وہ لے لو، اور جس سے روکیں اس سے باز آجاؤ "۔ یہ سب انتظام اس کا کیا گیا کہ کل کو کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ ہم تو صرف ان احکام کے مکلف ہیں جو قرآن میں آئے ہیں، جو احکام ہمیں قرآن میں نہ ملیں ان کے ہم مکلف نہیں، رسول کریم ﷺ پر غالبا یہ منکشف ہوگیا تھا کہ کسی زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو رسول کی تعلیمات اور تشریحات سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لئے یہی دعوی کریں گے کہ ہمیں کتاب اللہ کافی ہے، اس لئے ایک حدیث میں صراحۃ بھی اس کا ذکر فرمایا، جس کو ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، بیہقی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہم نے اپنی اپنی کتابوں میں ان الفاظ سے نقل فرمایا ہے(لا الفین احدکم متکئا علی اریکتہ یاتیہ الامر من امری مما امرت بہ او نھیت عنہ فیقول لا ادری ما وجدنا فی کتاب اللہ اتبعناہ۔)
" یعنی ایسا نہ ہو کہ میں تم سے کسی کو ایسا پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے ہوئے بےفکری سے بیٹھے ہوئے میرے امر و نہی کے متعلق یہ کہہ دے کہ ہم اس کو نہیں جانتے ہمارے لئے تو کتاب اللہ کافی ہے، جو کچھ اس میں پاتے ہیں اس کا اتباع کرلیتے ہیں "۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ جگہ جگہ رسول کی اطاعت کا بار بار ارشاد اور پھر مختلف عنوانات سے رسول کے دیے ہوئے احکام کو ماننے کی ہدایات یہ سب اس خطرہ کے پیش نظر ہیں کہ کوئی شخص ذخیرہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی بیان کی ہوئی تفصیلات احکام کو قرآن سے الگ اور اطاعت اللہ تعالیٰ سے جدا سمجھ کر انکار نہ کر بیٹھے، کہ وہ در حقیقت الگ نہیں
گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
Top