Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچا دو امانتیں امانت والوں کو اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو فیصلہ کرو انصاف سے اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے تم کو بیشک اللہ ہے سننے والا دیکھنے والا
خلاصہ تفسیر
(اے اہل حکومت خواہ تھوڑوں پر حکومت ہو خواہ بہتوں پر) بیشک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق (جو تمہارے ذمہ ہیں) پہنچا دیا کرو اور (تم کو) یہ (بھی حکم دیتے ہیں) کہ جب (محروم) لوگوں کا تصفیہ کیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ جس بات کی تم کو نصیحت کرتے ہیں وہ بات بہت اچھی ہے، دنیا کے اعتبار سے بھی کہ اس میں استحکام حکومت ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی کہ موجب قرب وثواب ہے) بلاشک اللہ تعالیٰ (تمہارے اقوال کو جو دوبارہ امانت و تصفیہ تم سے صادر ہوتے ہیں) خوب سنتے ہیں (اور تمہارے افعال کو جو اس باب میں تم سے واقع ہوتے ہیں) خواب دیکھتے ہیں (تو اگر کمی و کوتاہی کرو گے مطلع ہو کر تم کو سزا دیں گے، یہ خطاب تو حکام کو ہوا، آگے محکومین کو ارشاد ہے کہ) اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کا کہنا مانو اور رسول ﷺ کا کہنا مانو (ور یہ حکم تو تمہارے اور حکام سب کے لئے عام ہے) اور تم (مسلمانوں) میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی (کہنا مارو اور یہ حکم خاص ہی تم محکومین کے ساتھ) پھر (اگر ان کے احکام کا اللہ اور رسول کے کہنے کے خلاف نہ ہونا محکوم و حاکم دونوں کے اتفاق معتبر سے ثابت ہو تو خیر اس میں تو حکام کی اطاعت کرو گے ہی اور) اگر (ان کے احکام میں سے) کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو (کہ یہ اللہ و رسول کے کہے ہوئے کے خلاف ہے یا نہیں) تو رسول اللہ ﷺ کی حیات میں تو آپ سے پوچھ کر اور بعد آپ کی وفات کے ائمہ مجتہدین و علماء دین سے رجوع کر کے) اس امر کو (کتاب) اللہ اور (سنت) رسول ﷺ کی طرف حوالہ کرلیا کرو (اور ان حضرات سے جیسا فتوی ملے اس پر سب محکوم و حکام عمل کرلیا کرو) اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو (کیونکہ اس ایمان کا مقتضی یہی ہے کہ قوم قیامت میں اللہ تعالیٰ کی دارگیر سے جو کہ مخالفت کرنے پر ہونے والی ڈریں) یہ امور (جو مذکور ہوئے، اطاعت اللہ کی، رسول کی، اولی الامر کی، حوالہ کرنا تنازعات کا کتاب و سنت کی طرف) سب (دنیا میں بھی) بہتر ہیں اور (آخرت میں بھی) ان کا انجام خوش تر ہے (کیونکہ دنیا میں امن و راحت اور آخرت میں نجات وسعادت ہیں۔)
معارف و مسائل
آیات کا شان نزول۔
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے کہ کعبہ کی خدمت اسلام سے پہلے بھی بڑی عزت سمجھی جاتی تھی اور جو لوگ بیت اللہ کی کسی خاص خدمت کے لئے منتخب ہوتے تھے وہ پوری قوم میں معزز و ممتاز مانے جاتے تھے اسی لئے بیت اللہ کی مختلف خدمتیں مختلف لوگوں میں تقسیم کی جاتی تھیں، زمانہ جاہلیت سے ایام حج میں حجاج کو زمزم کا پانی پلانے کی خدمت آنحضرت ﷺ کے عم محترم حضرت عباس کے سپرد تھی، جس کو سقایہ کہا جاتا تھا، اسی طرح اور بعض خدمتیں آنحضرت ﷺ کے دوسرے چچا ابو طالب کے سپرد تھی، اسی طرح بیت اللہ کی کنجی رکھنا اور مقررہ ایام میں کھولنا بند کرنا عثمان بن طلحہ سے متعلق تھا۔
عثمان بن طلحہ کا اپنا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم پیر اور جمعرات کے روز بیت اللہ کو کھولا کرتے تھے اور لوگ اس میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے، ہجرت سے پہلے ایک روز رسول کریم ﷺ اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے تشریف لائے (اس وقت تک عثمان بن طلحہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے) انہوں نے آنحضرت ﷺ کو اندر جانے سے روکا اور انتہائی ترشی دکھائی، آپ نے بڑی برد باری کے ساتھ ان کے سخت کلمات کو برداشت کیا، پھر فرمایا، اے عثمان شاید تم ایک روز یہ بیت اللہ کی کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، جبکہ مجھے اختیار ہوگا کہ جس کو چاہوں سپرد کر دوں، عثمان بن طلحہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا تو قریش ہلاک اور ذلیل ہوجائیں گے، آپ نے فرمایا کہ نہیں ! اس وقت قریش آباد اور عزت والے ہوجائیں گے آپ یہ کہتے ہوئے بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، اس کے بعد جب میں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو مجھے یقین سا ہوگیا کہ آپ نے مجھے کچھ فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا، میں نے اسی وقت مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا لیکن میں نے اپنی قوم کے تیور بدلے ہوئے پائے، وہ سب کے سب مجھے سخت ملامت کرنے لگے، اس لئے میں اپنے ارادہ کو پورا نہ کرسکا، جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلا کر بیت اللہ کی کنجی طلب فرمائی، میں نے پیش کردی۔
بعض روایات میں ہے کہ عثمان بن طلحہ کنجی لے کر بیت اللہ کے اوپر چڑھ گئے تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے زبردستی کنجی ان کے ہاتھ سے لے کر انٓحضرت ﷺ کو دے دیتھی، بیت اللہ میں داخلہ اور وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جب آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائے تو پھر کنجی مجھ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا، کرلو اب یہ کنجی ہمیشہ تمہارے ہی خاندان کے پاس قیامت تک رہے گی، جو شخص تم سے یہ کنجی لے گا وہ ظالم ہوگا، مقصد یہ تھا کہ کسی دوسرے شخص کو اس کا حق نہیں کہ تم سے یہ کنجی لے لے، اسی کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ بیت اللہ کی اس خدمت کے صلہ میں تمہیں جو مال مل جائے اس کو شرعی قاعدہ کے موافق استعمال کرو۔
عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ جب میں کنجی لے کر خوشی خوشی چلنے لگا تو آپ نے پھر مجھے آواز دی اور فرمایا ! کیوں عثمان جو بات میں نے کہی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اب مجھے وہ بات یاد آگئی جو آنحضرت ﷺ نے ہجرت سے پہلے فرمائی تھی کہ ایک روز تم یہ کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، میں نے عرض کیا کہ بیشک آپ کا ارشاد پورا ہوا اور اس وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا (مظہری بروایت ابن سعد)
حضرت فاروق اعظم عمر بن الخطاب ؓ فرماتے ہیں کہ اس روز جب آنحضرت ﷺ بیت اللہ سے باہرت شریف لائے تو یہ آیت آپ کی زبان پر تھی ان اللہ یامرکم ان تودو الامنت الی اھلھا۔“ اس سے پہلے میں نے یہ آیت کبھی آپ سے نہ سنی تھی، ظاہر ہے کہ یہ آیت اس وقت جوف کعبہ میں نازل ہوئی تھی، اسی آیت کی تعمیل میں آنحضرت ﷺ نے دوبارہ عثمان بن طلحہ کو بلا کر کنجی ان کو سپرد کی، کیونکہ عثمان بن طلحہ نے جب یہ کنجی آنحضرت ﷺ کو دی تھی تو یہ کہہ کردی تھی کہ ”میں یہ امانت آپ کے سپرد کرتا ہوں“ اگرچہ ضابطہ سے ان کا یہ کہنا صحیح نہ تھا، بلکہ رسول کریم ﷺ ہی کو ہر طرح کا اختیار تھا کہ جو چاہیں کریں، لیکن قرآن کریم نے صورت امانت کی بھی رعایت فرمائی اور آنحضرت ﷺ کو اس کی ہدایت کی کہ کنجی عثمان ہی کو واپس فرما دیں“ حالانکہ اس وقت حضرت عباس اور حضرت علی ؓ نے بھی آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست کی خدمت بھی ہمیں عطا فرما دیجئے، مگر آیت مذکورہ کی ہدایت کے موافق آنحضرت ﷺ نے ان کی درخواست رد کر کے کنجی عثمان بن طلحہ کو واپس فرمائی (تفسیر مظہری)
یہاں تک آیت کے شان نزول پر کلام تھا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص وقوعہ ہوا کرتا ہے لیکن حکم عام ہوتا ہے، جس کی پابندی پوری امت کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
اب اس معنی اور مطلب ملاحظہ کیجئے۔
ارشاد ہےان اللہ یامرکم ان تودوالامنت الی اھلھا ”یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہونچایا کرو۔“ اس حکم کا مخاطب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام مسلمان ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ خاص امراء و حکام مخاطب ہوں اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو کسی امانت کا امین ہے، اس میں عوام بھی داخل ہیں اور حکام بھی۔
ادائے امانت کی تاکید۔
حاصل اس ارشاد کا یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہونچاوے، رسول کریم ﷺ نے اداء امانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوگا کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو
”یعنی جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔“
(یہ روایت بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے)
خیانت نفاق کی علامت ہے۔
بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز نفاق کی علامتیں بتلاتے ہوئے ایک علامت یہ بتلائی کہ جب امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے۔
امانت کی قسمیں۔
اس جگہ یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن حکیم نے لفظ امانت بصیغہ جمع استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہو جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے، بلکہ امانت کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں جو واقعہ آیت کے نزول کا ابھی ذکر کیا گیا خود اس میں بھی کوئی مالی امانت نہیں، بیت اللہ کی کنجی کوئی خاص مال نہ تھا، بلکہ یہ کنجی خدمت بیت اللہ کے ایک عہدہ کی نشانی تھی۔
حکومت کے مناصیب اللہ کی امانتیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔
کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے۔
پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔
ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے (جمع الفوائد، ص 523)
بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی، آج جہاں نظام حکومت کی ابتری نظر آتی ہے وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ ہے کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظام حکومت برباد ہوجاتا ہے۔
اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایااذا وسد الامرالی غیر اھلہ فانتظر الساعة۔ ”یعنی جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔“ یہ ہدایت صحیح بخاری کتاب علم میں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے لفظ امنت بصیغہ جمع لا کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ امانت صرف اسی کا نام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو، بلکہ امانت کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں حکومت کے عہدے بھی داخل ہیں۔
اور ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے
”یعنی مجلسیں امانتداری کے ساتھ ہونی چاہئیں۔“
مطلب یہ ہے مجلس میں جو بات کہی جائے وہ اسی مجلس کی امانت ہے، ان کی اجازت کے بغیر اس کو دوسروں سے نقل کرنا اور پھیلانا جائز نہیں۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے”المستشار مؤ تمن“”یعنی جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔“ اس پر لازم ہے کہ مشورہ وہی دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے حق میں مفید اور بہتر ہو، اگر جانتے ہوئے خلاف مشورہ دے دیاتو امانت میں خیانت کا مرتکب ہوگیا، اسی طرح کسی نے آپ سے اپنا راز کہا تو وہ اس کی امانت ہے، بغیر اس کی اجازت کے کسی سے کہہ دینا خیانت ہے آیت مذکورہ میں ان سب امانتوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے۔
یہاں تک پہلی آیت کے ابتدائی جملہ کی تفسیر تھی، آگے پہلی آیت کے دوسرے جملہ کی تفسیر ہے کا فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو۔“ ظاہر یہ ہے کہ اس کا خطاب حکام اور امراء کو ہے جو خصومات مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے ہیں اور اسی کے قرینہ سے بعض حضرات نے پہلے جملہ کا مخاطب بھی حکام و امراء کو قرار دیا ہے، اگرچہ پہلے جملہ کی طرح اس میں بھی گنجائش اس کی بنا کر فیصلہ کردیا کرتے ہیں، اسی طرح جھگڑوں کا فیصلہ کرنا عوام میں بھی پایا جاسکتا ہے، مگر اس میں شبہ نہیں کہ اول نظر میں ان دونوں جملوں کے مخاطب حکام و امراء ہی معلوم ہوتے ہیں، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مخاطب ال حکام و امراء ہیں اور ثانیاً یہ خطاب ہر اس شخص کے لئے بھی ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں اور جس کو کسی مقدمہ کا ثالث بنادیا جائے۔
اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا بین المسلمین یا بین المومنین نہیں فرمایا۔ اس میں اشارہ فرما دیا کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم اور دوست ہوں یا دشمن اپنے ہم وطن، ہم رنگ، ہم زبان ہوں یا غیر فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہو کر بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کریں۔
عدل و انصاف امن عالم کا ضامن ہے۔
غرض آیت کے پہلے جملہ میں ادائے امانت کا حکم ہے اور دوسرے میں عدل و انصاف کا ان میں ادائے امانات کو مقدم کیا یا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پورے ملک میں عدم و انصاف کا قیام اس کے بیر ہو ہی نہیں سکتا کہ جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار ہے وہ پہلے اداء امانات کا فریضہ صحیح طور پر ادا کریں، یعنی حکومت کے عہدوں پر صرف انہی لوگوں کو مقرر کریں جو صلاحیت کار اور امانت و دیانت کی رو سے اس عہدہ کے لے سب سے زیادہ بہتر نظر آئیں، دوستی اور تعلقات یا محض سفارش یا رشوت کو اس میں راہ نہ دیں، ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ نااہل ناقابل یا خائن اور ظالم لوگ عہدوں پر قابض ہوجائیں گے پھر اگر ارباب اقتدار دل سے بھی یہ چاہیں کہ ملک میں عدل و انصاف کار رواج ہو تو ان کے لئے ناممکن ہوجائے گا، کیونکہ یہ عہدہ داران حکومت ہی حکومت کے ہاتھ اور پیر ہیں، جب یہ خائن یا ناقابل ہوئے تو عدل و انصاف قائم کرنے کی کیا راہ ہے ؟
اس آیت میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں حق جل شانہ نے حکمت کے عہدوں کو بھی امانت قرار دے کر اول تو یہ واضح فرما دیا کہ جس طرح امانت صرف اسی کو ادا کرنا چاہئے جو اس کا مالک ہو، کسی فقیر، مسکین پر رحم کھا کر کسی کی امانت اس کو دینا جائز نہیں یا کسی رشتہ دار یا دوست کا حق ادا کرنے کے لئے کسی شخص کی امانت اس کو دے دینا درست نہیں، اسی طرح حکومت کے عہدے جن کے ساتھ عام خلق اللہ تعالیٰ کا کام متعلق ہوتا ہے یہ بھی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیت کار اور قابلیت و استعداد کے اعتبار سے بھی اس عہدے کے لئے مناسب اور موجودہ لوگوں میں سب سے بہتر ہوں اور دیانت اور امانت کے اعتبار سے بھی سب میں بہتر ہوں، ان کے سوا کسی دوسرے کو یہ عہدہ سپرد کردیا تو یہ امانت ادا نہ ہوئی۔
علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر حکومت کے مناسب سپرد کرنا اصولی غلطی ہے۔
اس کے ساتھ قرآن حکیم کے اس جملہ نے اس عام غلطی کو بھی دور کردیا جو اکثر ممالک کے دستوروں میں چل رہی ہے کہ حکومت کے عہدوں کو باشندگان ملک کے حقوق قرار دے دیا ہے۔
اور اس اصولی غلطی کی بناء پر یہ قانون بنانا پڑا کہ حکومت کے عہدے تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کئے جائیں، ہر صوبہ ملک کے لئے کوٹے مقرر ہیں، ایک صوبہ کے کوٹہ میں دوسرے صوبہ کا آدمی نہیں رکھا جاسکتا، خواہ وہ کتنا ہی قابل اور امین کیوں نہ ہو، اور اس صوبہ کا آدمی کتنا ہی غلط کار نااہل ہو، قرآن حکیم نے صاف اعلان فرما دیا کہ یہ عہدے کسی کا حق نہیں بلکہ امانتیں ہیں جو صرف اہل امانت ہی کو دی جاسکتی ہیں خواہ وہ کسی صوبہ اور کسی خطہ کے رہنے والے ہوں، البتہ کسی خاص علاقہ اور صوبہ پر حکمت کے لئے اسی علاقہ کے آدمی کو ترجیح دی جاسکتی ہے کہ اس میں بہت سی مصالح ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ کام کی صلاحیت اور امانت میں اس پر پورا اطمینان ہو۔
دستور مملکت کے چند زریں اصول۔
اسی طرح اس مختصر آیت میں دستور مملکت کے چند بنیادی اصول آگئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ اول یہ کہ آیت کے پہلے جملہ کو ان اللہ یامرکم سے شروع فرما کہ اس طرف اشارہ کردیا کہ اصل امر اور حکم اللہ تعالیٰ کا ہے، سلاطین دنیا سب اس کے مامور ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ ملک میں اقتدار اعلی صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔
2۔ دوسرے یہ کہ حکومت کے عہدے باشندگان ملک کے حقوق نہیں جن کو تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں جو صرف ان کے اہل اور لائق لوگوں کو دیئے جاسکتے ہیں۔
3۔ تیسرے یہ کہ زمین پر انسان کی حکمرانی صرف ایک نائب و امین کی حیثیت سے ہو سکتی ہے وہ ملک کی قانون سازی میں ان اصول کا پابند رہے گا جو حاکم مطلق حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلا دیئے گئے ہیں۔
4۔ چوتھے یہ کہ حکام و امراء کا فرض ہے کہ جب کوئی مقدمہ ان کے پاس آئے تو نسل و وطن اور رنگ و زبان یہاں تک کہ مذہب و مسلک کا امتیاز کئے بغیر عدل و انصاف کا فیصلہ کریں۔
اس آیت میں دستور مملکت کے زرین اصول بتلا کر آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نصیحت کی ہے وہ بہت ہی اچھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی سنتا ہے اور جو بولنے اور فریاد کرنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو اس کے حالات کو خود دیکھنا ہے، اس لئے اس کے بتلانے اور بنائے ہوئے اصول ہی ایسے ہیں جو ہمیشہ ہر ملک میں اور ہر دور میں قابل عمل ہو سکتے ہیں، انسانی دماغوں کے بنائے اصول و دستور صرف اپنے ماحول کے اندر محدود ہوا کرتے ہیں اور تغیر حالات کے بعد ان کا بدلنا ناگزیر ہوتا ہے جس طرح پہلی آیت کے مخاطب حکام و امراء تھے دوسری آیت میں عوام کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم اللہ کی اور رسول کی اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو۔
اولی الامر کون لوگ ہیں ؟:۔
اولی الامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام و انتظام ہو، اسی لئے حضرت ابن عباس، مجاہد اور حسن بصری وغیرہ ؓ ، مفسرین قرآن نے اولی الامر کے مصداق علمئا و فقہاء کو قرار دیا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے نائب ہیں اور نظام دین ان کے ہاتھ میں ہے۔
اور ایک جماعت مفسرین نے جن میں حضرت ابوہریرہ ؓ بھی شامل ہیں، فرمایا کہ اولی الامر سے مراد و حکام اور امراء ہیں جن کے ہاتھ میں نظام حکومت ہے۔
اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ لفظ دونوں طبقوں کو شامل ہے، یعنی علماء کو بھی اور حکام و امراء کو بھی، کیونکہ نظام امرا انہیں دونوں کے ساتھ وابستہ ہے۔
اس آیت میں ظاہر اً تین کی اطاعتوں کا حکم ہے، رسول، رسول، اول الامر، لیکن قرآن کی دوسری آیات نے واضح فرما دیا کہ حکم و اطاعت دراصل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہے، ان الحکم الا للہ مگر اس کے حکم اور اس کی اطاعت کی عملی صورت چار حصوں میں منقسم ہے۔
حکم اور اطاعت کی تین عملی صورتیں۔
ایک وہ جس چیز کا حکم صراحتة خود حق تعالیٰ نے قرآن میں نازل فرما دیا اور اس میں کسی تفصیل و تشریح کی حاجت نہیں، جیسے شرک و کفر کا انتہائی جرم ہونا ایک اللہ وحدہ کی عبادت کرنا اور آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا اور محمد مصطفے ﷺ کو اللہ کا آخری برحق رسول ماننا، نماز، روزہ، حج، زکوة کو فرض سمجھنا، یہ وہ چیزیں ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں، ان کی تعمیل بلاواسطہ حق تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
دسرا حصہ احکام کا وہ ہے جس میں تفصیلات و تشریحات کی ضرورت ہے، ان میں قرآن کریم اکثر ایک مجمل یا مبہم حکم دیتا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل نبی کریم ﷺ کے حوالے کی جاتی ہے، پھر وہ تفصیل و تشریح جو آنحضرت ﷺ اپنی احادیث کے ذریعہ فرماتے ہیں وہ بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے، اگر اس تفصیل و تشریح میں اجتہادی طور پر کوئی کمی یا کوتاہی رہ جاتی ہے تو بذریعہ حی اس کی اصلاح فرما دی جاتی ہے اور بالاخر آنحضرت ﷺ کا قول و عمل جو آخر میں ہوتا ہے وہ حکم الہی کا ترجمان ہوتا ہے۔
اس قسم کے احکام کی اطاعت بھی اگرچہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے لیکن ظاہری اعتبار سے چونکہ یہ احکام صریح طور پر قرآن نہیں، آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے امت کو پہنچنے ہیں، اس لئے ان کی اطاعت ظاہری اعتبار سے اطاعت رسول ہی کہلاتی ہے جو حقیقت میں اطاعت الہی کے ساتھ متحد ہونے کے باوجود ظاہری اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، اسی لئے پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلاً مذکور ہے۔
تیسرا درجہ احکام کا وہ ہے جو نہ قرآن میں صراحتہ مذکور ہیں نہ حدیث میں یا ذخیرہ احادیث میں اس کے متعلق متضاد روایات ملتی ہیں، ایسے احکام میں علماء مجتہدین قرآن و سنت کے منصوصات اور زیر غور مسئلہ کے نظائر میں غور و فکر کر کے ان کا حکم تلاش کرتے ہیں ان احکام کی اطاعت بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے قرآن و سنت سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اطاعت خداوندی ہی کی ایک فرد ہیں، مگر ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ فقہی فتاوی کہلاتے ہیں اور علماء کی طرف منسوب ہیں۔
اسی تیسری قسم میں ایسے احکام بھی ہیں جن میں کتاب و سنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں، بلکہ ان میں عمل کرنے والوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں، جن کو اصطلاح میں مباحات کہا جاتا ہے، ایسے احکام میں عملی انتظام حکام و امراء کے سپرد ہے کہ وہ حالات اور مصالح کے پیش نظر کوئی قانون بنا کر سب کو اس پر چلائیں، مثلاً شہر کراچی میں ڈاک خانے پچاس ہوں یا سو، پولیس اسٹیشن کتنے ہوں، ریلوے کا نظام کس طرح ہو، آباد کاری کا انتظام کن قواعد پر کیا جائے یہ سب مباحات ہیں، ان کی کوئی جانب نہ واجب ہے نہ حرام بلکہ اختیاری ہے، لیکن یہ اختیار عوام کو دے دیا جائے تو کوئی نظام نہیں چل سکتا، اس لئے نظام کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔
آیت مذکورہ میں اولوالامر کی اطاعت سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے، اس لئے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام و امراء کی اطاعت واجب ہوگئی۔
یہ اطاعت بھی درحقیقت اللہ جل شانہ کے احکام ہی کی اطاعت ہے، لیکن ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ احکام نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں، بلکہ ان کا بیان یا علماء کی طرف سے ہو یا حکام کی طرف سے اس لئے اس اطاعت کو تیسرا نمبر جداگانہ قرار دے کر اولی الامر کی اطاعت نام رکھا گیا اور جس طرح منصوصات قرآن میں قرآن کا اتباع اور منصوصات رسول میں رسول کا اتباع لازم واجب ہے، اسی طرح غیر منصوص فقہی چیزوں میں فقہا کا اور انتظامی امور میں حکام و امراء کا اتباع واجب ہے، یہی مفہم ہے اطاعت اولی الامر کا۔
خلاف شرع کاموں میں امیر کی اطاعت جائز نہیں۔
واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس کام کو ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں کے درمیان کوئی فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو اور اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کی تعلیم دی اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ امیر اگر عدل پر قائم رہے تو اس کی اطاعت واجب ہے اور اگر وہ عدل و انصاف کو چھوڑ کر خلاف شرع احکام صادر کرے تو ان میں امیر کی اطاعت نہیں کی جائے گی، چناچہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے”لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔“ ”یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس سے خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشادفرما رہے ہیں کہ اگر تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو آدمی عدل و انصاف کو قائم رکھنے کی طاقت اور صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کو قاضی بھی نہیں بننا چاہئے، کیونکہ حکم بالعدل بھی ایک امانت ہے، جس کی حفاظت نہ رکھتا ہو تو اس کو قاضی بھی نہیں بننا چاہئے، کیونکہ حکم بالعدل بھی ایک امانت ہے، جس کی حفاظت کمزور اور نااہل آدمی نہیں کرسکتا، چناچہ جب حضرت ابوذر نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ مجھے کسی جگہ کا حاکم مقرر فرما لیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ
”اے ابوذر آپ ضعیف آدمی ہیں اور منصب ایک امانت ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن انتہائی ذلت اور رسوائی ہوگی، سوائے اس شخص کے جس نے امانت کا حق پورا کردیا ہو (یعنی وہ ذلت سے بچ جائے گا۔“)
عادل آدمی اللہ کا محبوب ترین بندہ ہے۔
ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عادل اللہ کا محبوب اور قریب ترین انسان ہے اور ظالم اللہ کی رحمت اور نظر کرم سے دور ہوتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ سب سے پہلے اللہ کے سایہ کے نیچے کون جائے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس بات کا زیادہ علم ہے، تو پھر آپ نے ارشاد فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے سامنے جب حق آجائے تو فوراً قبول کرلیتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو مال کو خرچ کرتے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرتے ہیں تو ایسا عادلانہ کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے لئے کرتے۔
Top