Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 67
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
اب یہی ہے کہ راہ دیکھتے ہیں قیامت کی کہ آ کھڑی ہو ان پر اچانک اور ان کو خبر بھی نہ ہو
خلاصہ تفسیر
یہ لوگ (حق واضح ہونے کے باوجود باطل پر اصرار کر رہے ہیں تو) بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر دفعتاً آ پڑے اور ان کو خبر بھی نہ ہو (انکار کے باوجود انتظار سے مراد یہ ہے کہ ان کا دلائل کو نہ ماننا ایسا ہے جیسے کوئی شخص مشاہدہ کا منتظر ہو کہ جب آنکھوں سے دیکھ لوں گا تب مانوں گا، اور اس روز قیامت کے واقعات یہ ہیں کہ) تمام (دنیا کے دوست) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجاویں گے، بجز خدا سے ڈرنے والوں (یعنی اہل ایمان) کے (کیونکہ اس روز باطل کی دوستی کا نقصان محسوس ہوگا تو لا محالہ اس سے کراہت اور دوستوں سے نفرت ہوگی کہ یہ لوگ نقصان کا سبب ہوئے اور حق کی دوستی کا نفع اور ثواب محسوس ہوگا اس لئے وہ باقی رہے گی۔ اور ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا ہوگی) اے میرے بندو تم پر آج کوئی خوف (کی بات واقع ہونے والی) نہیں، اور نہ تم غمگین ہو گے یعنی وہ بندے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تھے اور (علماً وعملاً ہمارے) فرمانبردار تھے، تم اور تمہاری (ایمان دار) بیبیاں خوش بخوش جنت میں داخل ہوجاؤ (اور جنت میں جانے کے بعد ان کے لئے یہ ہوگا کہ) ان کے پاس سونے کی رکابیاں (کھانے کی چیزوں سے بھری ہوئی) اور گلاس (مشروبات سے بھرے ہوئے سونے کے یا اور کسی چیز کے) لائے جاویں گے (یعنی غلمان لائیں گے) اور وہاں وہ چیزیں ملیں گی جن کو جی چاہے گا اور جن سے آنکھوں کو لذت ہوگی اور (ان سے کہا جائے گا کہ) تم یہاں ہمیشہ رہو گے اور (یہ بھی کہا جائے گا) کہ یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے (تم سے کبھی نہ لی جاوے گی) اپنے (نیک) اعمال کے عوض میں (اور) تمہارے لئے اس میں بہت سے میوے ہیں جن میں سے کھا رہے ہو (یہ تو اہل ایمان کا حال ہوا۔ آگے کفار کا ذکر ہے کہ) بیشک نافرمان (یعنی کافر) لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے وہ (عذاب) ان (پر) سے ہلکا نہ کیا جاوے گا اور وہ اسی (عذاب) میں مایوس پڑے رہیں گے اور (آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) ہم نے ان پر (ذرا) ظلم نہیں کیا (کہ ناحق عذاب دیا ہو) لیکن یہ خود ہی ظالم تھے (کہ کفر و شرک کر کے اپنا نقصان کرلیا) اور (آگے ان کا باقی حال مذکور ہے کہ جب نجات سے بالکل مایوس ہوجائیں گے اس وقت موت کی تمنا کریں گے اور دوزخ کے داروغہ مالک نامی فرشتہ کو) پکاریں گے کہ اے مالک (تم ہی دعا کرو کہ) تمہارا پروردگار (ہم کو موت دے کر) ہمارا کام ہی تمام کر دے وہ (فرشتہ) جواب دے گا کہ تم ہمیشہ اسی حال میں رہو گے (نہ نکلو گے نہ مرو گے)۔
Top