Tadabbur-e-Quran - Yunus : 10
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا١ؕ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَصْبَحَ : اور ہوگیا فُؤَادُ : دل اُمِّ مُوْسٰى : موسیٰ کی ماں فٰرِغًا : صبر سے خالی (بیقرار) اِنْ : تحقیق كَادَتْ : قریب تھا لَتُبْدِيْ : کہ ظاہر کردیتی بِهٖ : اس کو لَوْلَآ : اگر نہ ہوتا اَنْ رَّبَطْنَا : کہ گرہ لگاتے ہم عَلٰي قَلْبِهَا : اس کے دل پر لِتَكُوْنَ : کہ وہ رہے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور موسیٰ کی ماں کا دل بالکل بےچین ہوگیا۔ قریب تھا کہ وہ اس کے راز کو ظاہر کردیتی اگر ہم اس کے دل کو نہ سنبھالتے کہ وہ اہل ایمان میں سے بنی رہے
آزمائشوں میں اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے جب کوئی مقر نہ دیکھا تو جی کڑا کر کے صندوق دریا میں ڈالنے کو تو ڈال دیا لیکن اس کے بعد ان پر جو کچھ گزری یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا دل صبر وقرار سے بالکل خالی ہوگیا۔ قریب تھا کہ بےصبری میں ان سے کوئی ایسی بات صادر ہوجائے جس سے سارا راز فاش ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے انکو سنبھال لیا تاکہ جس دولت ایمان سے وہ بہرہ مند تھیں اس پر اس آزمائش میں بھی وہ ثابت قدم رہیں۔ انسان ہر حال انسان ہے کسی ماں کے لئے خوداپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کو دریا کی موجوں کے حوالہ کردینا کوئی آسان بازی نہیں ہے۔ اگرچہ ایک اشارہ غیبی کا سہارا ان کو حاصل تھا اور یہ سہارا نہ ہوتا تو بھلا اس کا تصور بھی کس طرح کرسکتی تھیں تاہم جب اپنا حال یہ ہے کہ اس واقعہ کا تصور کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ دل سینہ سے نکل پڑے گا تو اس وقت حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل پر جو کچھ گزری ہوگی اس کا اندازہ ان کے رب کے سوا اور کون کرسکتا ہے ! لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نازک موقع پر سنبھالا اور وہی سنبھال سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور بندیوں کو امتحان میں تو ڈالتا ہے کہ یہ امحتان اس کی سنت ہے اور یہ امتحان درجے اور مرتبے کے اعتبار سے سخت سے سخت بھی ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی یہ سنت بھی ہے کہ جو لوگ اس کے امتحان کی راہ میں بازی کھیل جاتے ہیں وہ ان کو سنبھالتا بھی ہے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ ماجدہ نے چونکہ بچے کو دریا کی موجوں کے حوالہ کر کے اپنے ایمان و توکل کی شہادت دے دی تھی اس وجہ سے آگے کے مرحلے میں خود رب کریم نے ان کے دل کو سنبھال لیا کہ ان کے اس ایمان و توکل کی لاج قائم رہے، کوئی ایسی بات صادر نہ ہونے پائے جو اس کے منافی ہو۔ اپنے باایمان بندوں اور بندیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں ہی ہے لیکن اس کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں !
Top