Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 189
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ
ربط آیات
اوپر حلال چیزوں کے ترک خاص کی ممانعت تھی، آگے بعض حرام چیزوں کے استعمال کی ممانعت ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو (بوجہ ان کو مضرتوں سے بچنے کے جو آگے مذکور ہیں) فلاح ہو (اور وہ مضرتیں دنیوی بھی ہیں اور دینی بھی جن کا بیان یہ ہے کہ) شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں (برتاؤ میں) عداوت اور (دلوں میں) بغض واقع کر دے (چنانچہ ظاہر ہے کہ شراب میں تو عقل نہیں رہتی، گالی گلوچ دنگہ فساد ہوجاتا ہے، جس سے بعد میں بھی طبعاً کدورت باقی رہتی ہے، اور جوئے میں جو شخص مغلوب ہوتا ہے اس کو غالب پر غیظ ہوتا ہے، اور جب اس کو رنج ہوگا دوسرے پر بھی اس کا اثر پہنچے گا، یہ تو دنیوی مضرت ہوئی) اور (شیطان یوں چاہتا ہے کہ اسی شراب اور جوئے کے ذریعہ سے) اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے (جو کہ اللہ کی یاد کا سب سے افضل طریقہ ہے) تم کو باز رکھے (چنانچہ یہ بھی ظاہر ہے، کیونکہ شراب میں تو اس کے ہوش ہی بجا نہیں ہوتے اور قمار میں غالب کو تو سرور و نشاط اس درجہ ہوتا ہے کہ وہ اس میں غرق ہوتا ہے، اور مغلوب کو مغلوب ہونے کا رنج و اضمحلال اور پھر غالب آنے کی کوشش اس درجہ ہوتی ہے کہ اس سے فراغ نہیں ہوتا، یہ دینی مضرت ہوئی۔ جب ایسی بری چیزیں ہیں) سو (بتلاؤ) اب بھی باز آؤ گے ؟ اور تم (جمیع احکام میں) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو اور (مخالفت حکم سے) احتیاط رکھو اور اگر (اطاعت سے) اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف (حکم کا) پہنچا دینا تھا (اور وہ اس کو بخوبی انجام دے چکے اور تم کو احکام پہنچا چکے اب تمارے پاس کسی عذر کی گنجائش نہیں رہی)۔

معارف و مسائل
کائنات کی تخلیق انسان کے نفع کے لئے ہے
ان آیات میں بتلانا یہ منظور ہے کہ مالک کائنات نے ساری کائنات کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا فرمایا، اور ہر ایک چیز کو انسان کی خاص خاص خدمت پر لگا دیا ہے، اور انسان کو مخدوم کائنات بنایا ہے، انسان پر صرف ایک پابندی لگا دی کہ ہماری مخلوقات سے نفع اٹھانے کی جو حدود ہم نے مقرر کردی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، جن چیزوں کو تمہارے لئے حلال طیب بنادیا ہے ان سے احتراز کرنا بےادبی اور ناشکری ہے اور جن چیزوں کے کسی خاص استعمال کو حرام قرار دے دیا ہے، اس میں خلاف ورزی کرنا نافرمانی اور بغاوت ہے، بندہ کا کام یہ ہے مالک کی ہدایت کے مطابق اس کی مخلوقات کا استعمال کرے، اسی کا نام عبدیت ہے۔
پہلی آیت میں شراب، جوا، بت اور جُوئے کے تیر، چار چیزوں کی حرمت کا بیان ہے۔ اسی مضمون کی ایک آیت تقریباً ایسے ہی الفاظ کے ساتھ سورة بقرہ میں بھی آچکی ہے۔ (آیت) یایھا الذین امنوا۔ ، اس میں ان چار چیزوں کو رجس فرمایا، رجس عربی زبان میں ایسی گندی چیز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کی طبعیت کو گھن اور نفرت پیدا ہو، یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی عقل سلیم اور طبع سلیم رکھتا ہو تو خود بخود ہی ان چیزوں سے اس کو گھن اور نفرت ہوگی۔
ازلام کی تشریح
ان چار چیزوں میں سے ایک ازلال ہے، جو زلم کی جمع ہے، ازلام ان تیروں کو کہا جاتا ہے جن پر قرعہ اندازی کرکے عرب میں جوا کھیلنے کی رسم جاری تھی، جس کی صورت یہ تھی کہ دس آدمی شرکت میں ایک اونٹ ذبح کرتے تھے، پھر اس کا گوشت تقسیم کرنے کے لئے بجائے اس کے کہ دس حصے برابر کرکے تقسیم کرتے اس میں اس طرح جوا کھیلتے کہ دس عدد تیروں میں سات تیروں پر کچھ مقررہ حصوں کے نشانات بنا رکھتے تھے، کسی پر ایک کسی پر دو یا تین اور تین تیروں کو سادہ رکھا ہوا تھا، ان تیروں کو ترکش میں ڈال کر ہلاتے تھے، پھر ایک ایک شریک کے لئے ایک ایک تیر ترکش میں سے نکالتے، اور جتنے حصوں کا تیر کسی کے نام پر نکل آئے وہ ان حصوں کا مستحق سمجھا جاتا تھا، اور جس کے نام پر سادہ تیر نکل آئے وہ حصہ سے محروم رہتا تھا، جیسے آج کل بہت سی قسمیں لاٹری کے طریقہ پر بازاروں میں جاری ہیں، اس طرح کی قرعہ اندازی، قمار یعنی جوا ہے جو ازروئے قرآن کریم حرام ہے۔
قرعہ اندازی کی جائز صورت
ہاں ایک طرح کی قرعہ اندازی جائز اور رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے وہ یہ کہ جب حقوق سب کے مساوی ہوں اور حصے بھی مساوی تقسیم کر دئیے گئے ہوں پھر ان میں سے حصوں کی تعیین بذریعہ قرعہ اندازی کرلی جائے، مثلاً ایک مکان چار شریکوں میں تقسیم کرنا ہے تو قیمت کے لحاظ سے چار حصے برابر لگا لئے گئے، اب یہ تعین کرنا کہ کونسا حصہ کس شریک کے پاس رہے، اس کا تعیین اگر آپس میں مصالحت و رضا مندی سے نہ ہو تو یہ بھی جائز ہے کہ قرعہ اندازی کرکے جس کے نام پر جس طرف کا حصہ نکل آئے اس کو دے دیا جائے، یا کسی چیز کے خواہش مند ایک ہزار ہیں، اور سب کے حقوق مساوی ہیں مگر جو چیز تقسیم کرنا ہے وہ کل سو ہیں، تو اس میں قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
ازلام کی قرعہ اندازی کے ذریعہ گوشت تقسیم کرنے کی جاہلانہ رسم کی حرمت سورة مائدہ ہی کی آیت میں پہلے آچکی ہے۔ (آیت) وان تستقسموا بالازلام۔
خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں جن چار چیزوں کا حرام ہونا مذکور ہے ان میں سے دو یعنی میسر اور الازلام نتیجہ کے اعتبار سے ایک ہی ہیں، باقی دو میں ایک انصاب ہے جو نصب کی جمع ہے، ایسے چیز کو نصب کہا جاتا ہے جو عبادت کے لئے کھڑی کی گئی ہو خواہ بت ہو یا کوئی درخت پتھر وغیرہ۔
شراب اور جوئے کے جسمانی اور روحانی مفاسد
آیت کے شان نزول اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اصل مقصود دو چیزوں کی حرمت اور مفاسد کا بیان کرنا ہے، یعنی شراب اور جوا، انصاب یعنی بتوں کا ذکر اس کے ساتھ اس لئے ملا دیا گیا ہے کہ سننے والے سمجھ لیں کہ شراب اور جوئے کا معاملہ ایسا سخت جرم ہے جیسے بت پرستی۔
ابن ماجہ کی ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا شارب الخمر کعابدالوثن۔ یعنی ”شراب پینے والا ایسا مجرم ہے جیسے بت کو پوجنے والا“۔ اور بعض روایات میں ہےشارب الخمر کعابد الات والعزی۔ ”یعنی شراب پینے والا ایسا ہے جیسا لات و عزی کی پرستش کرنے والا“۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہاں شراب اور جوئے کی شدید حرمت اور ان کی روحانی اور جسمانی خرابیوں کا بیان ہے، اول روحانی اور معنوی خرابیاں رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ کے الفاظ میں بیان کیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ یہ چیزیں فطرت سلیمہ کے نزدیک گندی قابل نفرت چیزیں اور شیطانی جال ہیں، جن میں پھنس جانے کے بعد انسان بیشمار مفاسد اور ملک خرابیوں کے گڑھے میں جاگرتا ہے، یہ روحانی مفاسد بیان فرمانے کے بعد حکم دیا گیا فاجْتَنِبُوْهُ کہ جب یہ چیزیں ایسی ہیں تو ان سے اجتناب کرو اور پرہیز کرو۔
آخر میں فرمایا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، جس میں بتلا دیا گیا کہ تمہاری فلاح دنیا و آخرت اسی پر موقوف ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرتے رہو۔
Top