Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 9
وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَ١ؕ لَا تَقْتُلُوْهُ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا امْرَاَتُ : بیوی فِرْعَوْنَ : فرعون قُرَّةُ : ٹھنڈک عَيْنٍ لِّيْ : میری آنکھوں کے لیے وَلَكَ : اور تیرے لیے لَا تَقْتُلُوْهُ : تو قتل نہ کر اسے عَسٰٓى : شاید اَنْ يَّنْفَعَنَآ : کہ نفع پہنچائے ہمیں اَوْ نَتَّخِذَهٗ : یا ہم بنالیں اسے وَلَدًا : بیٹا وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : (حقیقت حال) نہیں جانتے تھے
اور فرعون کی بیوی نے کہا، یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسکو قتل نہ کرو۔ کیا عجب کہ یہ ہم کو نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا ہی بنا لیں اور ان کو انجام کی کچھ خبر نہ تھی
فرعون کی بیوی نہایت نیک دل تھیں ملکہ نے جب بچے کو دیکھا تو اس موہنی صورت پر قربان ہوگئیں۔ فرعون سے کہا، یہ تو میری اور تمہاری دونوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اس کو قتل نہ کرو۔ امید ہے یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا ہی بنا لیں۔ ملکہ کے متعلق دوسرے مقام میں ہم یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ یہ نہایت نیک دل اور فرعون کے رویہ سے سخت بیزار تھیں۔ عسی ان ینفعنا اونتخذہ ولدا یہ بعینیہ وہی بات ہے، جو عزیز مصر نے، حضرت یوسف سے متعلق، اپنی بیوی کو خطا کر کے کہی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک ملکہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور اگر تورات کے بیان کو باور کرلیا جائے کہ جس نے حضرت موسیٰ کے صندوق کو سب سیپہلے دیکھا وہ فرعون کی لڑکی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت تک ان کے ہاں کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اول تو اس شکل و صورت کا بچہ فوائد و برکات سے خالی نہیں ہوسکتا، پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر کسی اولاد نرینہ کے لئے ہماری امید پوری نہ ہوئی تو ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں گے۔ و ھم لایشعرون یعنی بادشاہ اور مکلہ یہ سوچ رہے تھے، انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ قدرت اس پردے میں اپنی کشا شان دکھانے والی ہے !
Top