Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
مَنْ
: کون
يُّنَجِّيْكُمْ
: بچاتا ہے تمہیں
مِّنْ
: سے
ظُلُمٰتِ
: اندھیرے
الْبَرِّ
: خشکی
وَالْبَحْرِ
: اور دریا
تَدْعُوْنَهٗ
: تم پکارتے ہو اس کو
تَضَرُّعًا
: گڑگڑا کر
وَّخُفْيَةً
: اور چپکے سے
لَئِنْ
: کہ اگر
اَنْجٰىنَا
: بچا لے ہمیں
مِنْ
: سے
هٰذِهٖ
: اس
لَنَكُوْنَنَّ
: تو ہم ہوں
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر ادا کرنے والے
تو کہہ کون تم کو بچا لاتا ہے جنگل کے اندھیروں سے اور دریا کے اندھیروں سے اس وقت میں کہ پکارتے ہو تم اس کو گڑ گڑا کر اور چپکے سے کہ اگر ہم کو بچا لے اس بلا سے تو البتہ ہم ضرور احسان مانیں گے
خلاصہ تفسیر
آپ ﷺ (ان لوگوں سے) کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات (یعنی شدائد) سے اس حالت میں نجات دے دیتا ہے کہ تم اس کو (نجات دینے کے لئے) پکارتے ہو (کبھی) تذلل ظاہر کرکے اور (کبھی) چپکے چپکے (اور یوں کہتے ہو) کہ (اے اللہ) اگر آپ ہم کو ان (ظلمات) سے (اب کے) نجات دیدیں تو (پھر) ہم ضرور حق شناسی (پر قائم رہنے) والوں میں سے ہوجاویں (یعنی آپ کی توحید کے کہ بڑی حق شناسی ہے قائل رہیں، اور اس سوال کا جواب چونکہ متعین ہے اور وہ لوگ بھی کوئی دوسرا جواب نہ دیں گے اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے (جب کبھی نجات ملتی ہے) اور (ان ظلمات مذکورہ کی کیا تخصیص ہے بلکہ) ہر غم سے (وہی نجات دیتا ہے مگر) تم (ایسے ہو کہ) پھر بھی (بعد نجات پانے کے بدستور) شرک کرنے لگتے ہو (جو کہ اعلیٰ درجہ کی ناحق شناسی ہے، اور وعدہ کیا تھا حق شناسی کا، غرض یہ کہ شدائد میں تمہارے اقرار سے توحید کا حق ہونا ثابت ہوجاتا ہے، پھر انکار کب قابل التفات ہے)۔
معارف و مسائل
علم الٓہی اور قدرت مطلقہ کے کچھ مظاہر
پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کے علم وقدرت کا کمال اور ان کی بےمثال وسعت بیان کی گئی تھی، مذکورہ آیات میں اسی علم وقدرت کے کچھ آثار اور مظاہر کا بیان ہے۔
پہلی آیت میں لفظ ظلمات، ظلمة کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں اندھیری، ظلمات البر والبحر کے معنی خشکی اور دریا کی اندھیریاں ہے۔ چونکہ اندھیری کی مختلف قسمیں ہیں رات کی اندھیری، گھٹا بادل کی اندھیری، گردوغبار کی اندھیری، ان تمام قسموں کو شامل کرنے کے لئے لفظ ظلمات جمع استعمال فرمایا گیا ہے۔
اگرچہ انسان کے سونے اور آرام کرنے کے لئے اندھیرا بھی ایک نعمت ہے، لیکن عام حالات میں انسان کا کام روشنی ہی سے چلتا ہے، اور اندھیری سب کاموں سے معطل کرنے کے علاوہ بہت سے مصائب اور آفات کا سبب بن جاتی ہے، اس لئے عرب کے محاورہ مفسرین کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔
مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اللہ جل شانہ نے مشرکین مکہ کو تنبیہ اور ان کی غلط کاری پر آگاہ کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں سے یہ سوال کریں کہ برّی اور بحری سفروں میں جب بھی وہ کسی مصیبت میں گھر جاتے ہیں، اور اس وقت تمام بتوں کو بھول کر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں، کبھی علانیہ طور پر اپنی ذلت و عاجزی کا اعتراف کرتے ہیں، اور کبھی دل دل میں اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس مصیبت سے تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں بچا سکتا، اور اس خیال کے ساتھ یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دیتو ہم شکر و حق شناسی کو اپنا شیوہ بنالیں گے، یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں گے، اسی کو اپنا کارساز سمجھیں گے، اس کے سوا کسی کو اس کا شریک نہ سمجھیں گے کیونکہ جب ہماری مصیبت میں کوئی کام نہ آیا تو ہم ان کی پوجا پاٹ کیوں کریں، تو اب آپ ان سے پوچھئے کہ ان حالات میں کون ان کو مصائب اور ہلاکت سے نجات دیتا ہے ؟ چونکہ ان کا جواب متعین اور معلوم تھا کہ وہ اس ہدایت کا انکار نہیں کرسکتے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بت یا دیوتا اس حالت میں ان کے کام نہیں آیا، اس لئے دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے خود ہی رسول کریم ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ آپ ﷺ ہی کہہ دیجئے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تمہیں اس مصیبت سے نجات دیں گے، بلکہ تمہاری ہر تکلیف و پریشانی اور بےچینی کو وہی دور فرمائیں گے، مگر ان سب کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود پھر جب تم کو نجات اور آرام مل جاتا ہے تو تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو، اور بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ جاتے ہو، یہ کیسی غداری اور مہلک قسم کی جہالت ہے۔
ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان بھی ہے کہ ہر انسان کو ہر مصیبت اور تکلیف سے نجات دینے پر اس کو پوری قدرت ہے، اور یہ بھی کہ ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہ بھی کہ یہ ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت اور ہدایت ہے کہ ساری عمر بتوں اور دیوتاؤں کو پوجنے اور پکارنے والے بھی جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس وقت وہ بھی صرف خدا تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
عبرت
مشرکین کا یہ طرز عمل ان کی غداری کے اعتبار سے کتنا ہی بڑا جرم ہو، مگر مصیبت پڑنے کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور حقیقت کا اعتراف ہم مسلمانوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے باوجود مصیبتوں کے وقت بھی خدا تعالیٰ کو یاد نہیں کرتے، بلکہ ہمارا سارا دھیان مادّی سامانوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے، ہم اگرچہ مورتوں اور تصویری بتوں کو اپنا کارساز نہیں سمجھتے، مگر یہ مادّی سامان اور اسباب و آلات بھی ہمارے لئے بتوں سے کم نہیں، جن کی فکروں میں ہم ایسے گم ہیں کہ خدا تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی طرف کبھی دھیان نہیں ہوتا۔
حوادث و مصائب کا اصلی علاج
ہم ہر بیماری میں صرف ڈاکٹروں اور دواؤں کو اور ہر طوفان اور سیلاب کے وقت صرف مادّی سامانوں کو اپنا کارساز سمجھ کر اسی کی فکر میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ مالک کائنات کی طرف دھیان تک نہیں جاتا، حالانکہ قرآن کریم نے بار بار واضح الفاظ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ دنیا کے مصائب اور حوادث عموماً انسانوں کے اعمالِ بد کے نتائج اور آخرت کی سزا کا ہلکا سا نمونہ ہوتے ہیں، اور اس لحاظ سے یہ مصائب مسلمانوں کے لئے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں، کہ ان کے ذریعہ غافل انسانوں کو چونکایا جاتا ہے، تاکہ وہ اب بھی اپنے اعمال بد کا جائزہ لے کر ان سے باز آنے کی فکر میں لگ جائیں، اور آخرت کی بڑی اور سخت سزا سے محفوظ رہیں، اسی مضمون کے لئے قرآن کریم کا ارشاد ہے
(آیت) ولنذیقنھم من العذاب الادنی ”یعنی ہم لوگوں کو تھوڑا سا عذاب قریب دنیا میں چکھا دیتے ہیں آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ اپنی غفلت اور برائیوں سے باز آجائیں“۔
قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہے
(آیت) وما اصابکم من مصیبة (شوری) ”یعنی جو مصیبت تم کو پہنچی ہے وہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور بہت سے برے اعمال کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں“۔
اس آیت کے بیان میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ
”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کسی انسان کو جو کسی لکڑی سے معمولی خراش لگتی ہے، یا قدم کو کہیں لغزش ہوجاتی ہے، یا کسی رگ میں خلش ہوتی ہے یہ سب کسی گناہ کا اثر ہوتا ہے، اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں وہ بہت ہیں“۔
بیضاوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ مجرموں اور گناہگاروں کو جو امراض اور آفات پیش آتے ہیں وہ سب گناہوں کے آثار ہوتے ہیں اور جو لوگ گناہوں سے معصوم یا محفوظ ہیں ان کے امراض اور آفات ان کے صبر استقلال کے امتحان اور جنت کے بلند درجات عطا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ عام انسان جو گناہوں سے خالی نہیں ان کو جو بھی بیماریاں اور حوادث و مصائب یا تکلیف اور پریشانی پیش آتی ہے وہ سب گناہوں کے نتائج اور آثار ہیں۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تمام مصائب اور پریشانیوں کا اور ہر قسم کے حوادث اور آفات کا اصلی اور حقیقی علاج یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی طرف رجوع کیا جائے، پچھلے گناہوں سے استغفار اور آئندہ ان سے پرہیز کرنے کا پختہ ارادہ کریں، اور اللہ تعالیٰ ہی سے رفع مصائب کی دعاء کریں۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ مادّی اسباب دواء، علاج اور مصائب سے بچنے کی مادّی تدبیریں بےکار ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل کارساز حق تعالیٰ کو سمجھیں اور مادّی اسباب کو بھی اسی کا انعام سمجھ کر استعمال کریں کہ سب اسباب اور آلات اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اسی کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، اور اسی کے حکم اور مشیت کے تابع انسان کی خدمت کرتے ہیں، آگ، ہوا، پانی، مٹی اور دنیا کی تمام طاقتیں سب اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہیں، بغیر اس کے ارادہ کے نہ آگ جلا سکتی ہے، نہ پانی بجھا سکتا ہے، نہ کوئی دوا نفع دے سکتی ہے نہ کوئی غذا نقصان پہنچا سکتی ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند
بامن و تو مردہ، با حق زندہ اند
تجربہ شاہد ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر صرف مادّی سامانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تو جوں جوں یہ سامان بڑھتے ہیں پریشانیاں اور مصائب اور بڑھتے ہیں
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
شخصی طور پر کسی دوا یا انجکشن کا کسی وقت مفید ثابت ہونا یا کسی مادّی تدبیر کا کامیاب ہوجانا غفلت و معصیت کے ساتھ بھی ممکن ہے، لیکن جب مجموعی حیثیت سے پوری خلق خدا کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب چیزیں ناکام نظر آتی ہیں، موجودہ زمانہ میں انسان کو راحت پہنچانے اور اس کی ہر تکلیف کو دور کرنے کے لئے کیسے کیسے آلات اور سامان ایجاد کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں کہ اب سب پچاس سال پہلے کے انسان کو ان کا وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔ امراض کے علاج کیلئے نئی نئی زوداثر دوائیں اور طرح طرح کے انجکشن اور بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر اور ان کے لئے جابجا شفا خانوں کی بہتات کون نہیں جانتا کہ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کا انسان ان سب سے محروم تھا۔ لیکن مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان آلات و سامان سے محروم انسان اتنا بیمار اور کمزور نہ تھا، جتنا آج کا انسان بیماریوں کا شکار ہے، اسی طرح آج عام دباؤں کے لئے طرح طرح کے ٹیکے موجود ہیں، حوادث سے انسان کو بچانے کے لئے آگ بجھانے والے انجن اور مصیبت کے وقت فوری اطلاع اور فوری امداد کے ذرائع اور سامان کی فراوانی ہے، لیکن جتنا جتنا یہ مادی سامان بڑھتا جاتا ہے، انسان حوادث اور آفات کا شکار پہلے سے زائد ہوتا جاتا ہے، وجہ اس کے سوا نہیں کہ پچھلے دور میں خالق کائنات سے غفلت اور کھلی نافرمانی اتنی نہ تھی جتنی اب ہے، وہ سامان راحت کو خدا تعالیٰ کا عطیہ سمجھ کر شکر گزاری کے ساتھ استعمال کرتے تھے، اور آج کا انسان بغاوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہے، اس لئے آلات اور سامان کی بہتات اس کو مصیبت سے نہیں بچاتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو مشرکین کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ مصیبت کے وقت وہ بھی خدا ہی کو دیا کرتے تھے، مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے تمام مصائب اور تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے مادی سامان اور تدبیروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، ورنہ انجام وہی ہوگا جو روز مشاہدہ میں آرہا ہے، کہ ہر تدبیر مجموعی حیثیت سے الٹی پڑتی ہے، سیلابوں کو روکنے اور ان کے نقصانات سے بچنے کی ہزار تدبیریں کی جاتی ہیں مگر وہ آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں، امراض کے علاج کی نئی نئی تدبیریں کی جاتی ہیں، مگر امراض روز بروز بڑھتے جاتے ہیں، اشیاء کی گرانی رفع کرنے کے لئے ہزاروں تدبیریں کی جاتی ہیں، اور وہ سطحی طور پر مؤ ثر بھی معلوم ہوتی ہیں، لیکن مجموعی حیثیت سے نتیجہ یہ ہے کہ گرانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے، چوری، ڈکیتی، اغواء، رشوت ستانی، چور بازاری کو روکنے کے لئے کتنی مادّی تدبیریں آج ہر حکومت استعمال کر رہی ہے، مگر حساب لگائیے تو ہر روز ان جرائم میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے، کاش آج کا انسان صرف شخصی اور سطحی اور سرسری نفع نقصان کی سطح سے ذرا بلند ہو کر حالات کا جائزہ لے تو اس کو ثابت ہوگا کہ مجموعی حیثیت سے ہماری مادّی تدبیریں سب ناکام ہیں بلکہ ہمارے مصائب میں اضافہ کر رہی ہیں، پھر اس قرآنی علاج پر نظر کرے کہ مصائب سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہے، کہ خالق کائنات کی طرف رجوع کیا جائے، مادّی تدبیروں کو بھی اسی کی عطا کی ہوئی نعمت کے طور استعمال کیا جائے، اس کے سوا سلامتی کی کوئی صورت نہیں۔
Top