Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ : اور وحی بھیجی گئی اِلٰي نُوْحٍ : نوح کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَنْ يُّؤْمِنَ : ہرگز ایمان نہ لائے گا مِنْ : سے قَوْمِكَ : تیری قوم اِلَّا : سوائے مَنْ : جو قَدْ اٰمَنَ : ایمان لا چکا فَلَا تَبْتَئِسْ : پس تو غمگین نہ ہو بِمَا : اس پر جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ تو جو کام یہ کر رہے ہیں انکی وجہ سے غم نہ کھاؤ۔
36۔ 37۔ جب قوم نوح (علیہ السلام) نے عذاب کی جلدی کی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو بہت ستانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح (علیہ السلام) اب تمہاری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا جتنے ایمان لاچکے وہ لاچکے آئندہ اب کسی سے ایمان لانے کی امید نہیں تم ان کی کسی بات کا غم نہ کرو جو یہ کرتے ہیں کریں تم ایک کشتی تیار کرو ہم وحی کے ذریعہ سے کشتی کے بنانے کا ڈھنگ تمہیں بتاتے ہیں اور ان ظالموں کے باب میں سفارش کے طور پر بارگاہ الٰہی میں کچھ نہ کہو یہ سب ڈوبنے والے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت نوح کی کشتی تین سو گز لمبی تھی۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں بارہ سو گز لمبی اور چھ سو گزر چوڑی تھی کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ دو ہزار گز لمبی اور سو گز چوڑی تھی مگر سب کا اس بات میں اتفاق ہے کہ بلندی میں وہ کشتی تیس گز تھی اس کشتی میں تین درجے تھے ہر درجہ دس گز کا تھا نیچے کا درجہ چار پائے گائے بیل بھینس وغیرہ کی قسم میں سے جانوروں کے واسطے اور بیچ کا درجہ آدمیوں کے لئے اور اوپر کا درجہ پرندوں کے لئے بنایا تھا کشتی کی چوڑائی میں ایک دروازہ بھی تھا اور ایک سرپوش تھا 1 ؎ کشتی کے اوپر ڈہانپنے کو تاکہ کثرت سے مینہ جو برس رہا تھا اس کے صدمہ سے کشتی والے محفوظ رہیں۔ حافظ ابو جعفر ابن جریر عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوارین میں سے ایک شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ کبھی ایسے شخص کو آپ زندہ کریں جس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو وہ ہم سے اس کا حال بیان کرے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے ایک ٹیلہ پر پہنچے اور تھوڑی سی مٹی اٹھا کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا تم لوگ جانتے ہو یہ کون شخص ہے لوگوں نے کہا خدا اور خدا کا رسول جانے ہمیں کیا خبر۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حام کی پنڈلی کی مٹی ہے اور عصا سے ٹیلہ کو مار کر کہا خدا کے حکم سے کھڑا ہوجا جس وقت وہ اٹھا تو اس کے سر کے بال بالکل سفید تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا تو اسی عمر میں ہلاک ہوا تھا اس نے کہا کہ نہیں جب میں مرا تھا تو جوان تھا اس وقت میں نے یہ گمان کیا کہ قیامت آگئی اس لئے اس خوف سے میں بوڑھا ہوگیا پھر اس سے کشتی کا حال پوچھا گیا تو بیان کیا وہ کشتی بارہ سو گز کی لمبی اور چھ سو گز کی چوڑی تھی اس میں تین طبقے تھے نیچے چار پائے بیچ میں آدمی اوپر پرندے جب چار پایوں کی لید کی کثرت ہوئی تو خدا نے وحی بھیجی کہ اے نوح ہاتھی کی دم دباؤ اس کی دم دبانے سے ایک جوڑا سور کا پیدا ہوگیا جس نے لید وغیرہ کا صفایا کیا جب چوہے بہت ہوگئے اور کشتی کی لکڑی اور رسیاں کترنے لگے تو اللہ کا حکم ہوا کہ شیر کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں ہاتھ مارو اس سے ایک جوڑا بلی کا پیدا ہوا جس نے چوہوں کو کھانا شروع کردیا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا نوح (علیہ السلام) کس طرح سمجھے کہ سارا شہر ڈوب گیا اس نے کہا کہ ایک کوے کو بھیجا تھا کہ خبر لائے مگر وہ ایک مردار پر جھک پڑا اس کے لئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے بددعا کی تھی اسی لئے وہ گھر میں رہنا پسند نہیں کرتا خوف زدہ ہو کر آدمیوں سے بھاگتا ہے پھر کبوتر کو بھیجا وہ جا کر چونچ میں ایک پتہ زیتون کا اور تھوڑی سی مٹی پنجے میں دبا کر لایا اس سے سمجھا کہ سب ہلاک ہوگئے۔ آپ نے کبوتر کے واسطے دعا کی تھی وہ گھروں میں رہتا ہے اور آدمیوں سے نہیں بھاگتا پھر حوارین نے کہا یا حضرت اس شخص کو ہمارے گھر لے چلئے وہاں چل کے یہ سارا اور باقی کا حال بیان کرے گا۔ حضرت عیسیٰ نے کہا جس کا رزق اب دنیا میں نہیں ہے وہ کیوں کر تمہارے ساتھ چل سکتا ہے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خدا کے حکم سے پھر ویسا ہی ہوجا جیسا تھا وہ خاک کا ٹیلہ ہوگیا۔ حافظ ابن کثیر نے عبد اللہ بن عباس ؓ کی اس روایت کو غریب قرار دیا ہے۔ 2 ؎ کوئی اکیلا مقبول راوی کسی حدیث کی سند میں ہو تو اس حدیث کو غریب کہتے ہیں اور اگر اس اکیلے مقبول راوی کی روایت کسی ثقہ راوی کے مخالف بھی ہو تو اس کو شاذ کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی اس حدیث کے راوی حافظ ابن کثیر کے نزدیک مقبول تو ہیں مگر اس روایت میں اکیلے ہیں اور ان کی روایت کسی ثقہ راوی کے مخالف نہیں ہے۔ اس لئے غریب ہے شاذ نہیں ہے۔ 3 ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ 4 ؎ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا علم الٰہی کے موافق جو لوگ دنیا میں پیدا ہوئے اور مرنے کے بعد دوزخی ٹھہرے ہیں وہ دنیا میں کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں 5 ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم نوح میں سے جس قدر آدمیوں کا راہ راست پر آنا لوح محفوظ میں لکھا گیا تھا جب ان آدمیوں کی گنتی پوری ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو حکم بھیج دیا کہ اب اس قوم میں سے اور کوئی نیا شخص راہ راست پر نہ آوے گا اور نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی جتلا دیا کہ ان لوگوں کے بےڈھنگے کاموں سے کچھ غمگین نہ ہونا چاہیے یہ لوگ علم الٰہی میں دنیا اور عقبیٰ کے عذاب کے قابل ٹھہر چکے ہیں۔ اس لئے مرتے دم تک یہ ایسے بےڈھنگے کام کریں گے۔ 1 ؎ تمام اقوال کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص 444 ج 2۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 444 ج 2۔ 3 ؎ حافظ ابن کثیر (رح) کی ایسے مواقع پر محدثین کی اصطلاح غریب مراد نہیں ہوتی بلکہ عجیب اور اچنبہ روایت مراد ہوتی ہے حاصل یہ ہے کہ ان کی غرض تنقید و تضعیف ہے (واللہ اعلم (ع، ر) ۔ 4 ؎ صحیح مسلم ص 235 ج 2 باب حجاج آدم و موسیٰ ۔ 5 ؎ صحیح بخاری ص 738 ج 2 تفسیر سورة واللیل اذا یغشی۔
Top