Urwatul-Wusqaa - Hud : 36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ : اور وحی بھیجی گئی اِلٰي نُوْحٍ : نوح کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَنْ يُّؤْمِنَ : ہرگز ایمان نہ لائے گا مِنْ : سے قَوْمِكَ : تیری قوم اِلَّا : سوائے مَنْ : جو قَدْ اٰمَنَ : ایمان لا چکا فَلَا تَبْتَئِسْ : پس تو غمگین نہ ہو بِمَا : اس پر جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور نوح (علیہ السلام) پر وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اب کوئی ایمان لانے والا نہیں پس جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر غم نہ کر
نوح (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ جو لوگ آپ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے بس لا چکے اب فیصلہ کا وقت آنے والا ہے 51 ؎ نوح (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کی مدت جب پوری ہوگئی تو آپ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی گئی اور قوم کیلئے ہر آنے والا دن گزشتہ سے بد تر ہونے لگا وہ اس طرح کہ وہ مخالفت میں بالکل چھوٹ ہوگئے اور کسی ضابطہ اخلاق کے بھی پابند نہ رہے اور دشمنی میں انہوں نے وہ بد اخلاقیاں کیں کہ جن کا ذکر بھی باعث شرم ہے۔ نوح (علیہ السلام) کو اس سے جو کو فت ہوتی ہوگی وہ ہم آپ سن بی نہیں سکتے تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو اپنے حکم خاص سے مطلع فرما دیا اور وحی نے بات واضح کرتے ہوئے آپ کو جو اطلاع دی وہ یہ تھی کہ جن کی قسمت میں دولت ایمان رقم تھی وہ ایمان لا چکے اب ان کے علاوہ اور کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا اس لئے آپ ان لوگوں کیلئے غم زدہ نہ ہوں ۔ اب مہلت کی گھڑیاں بس ختم ہونے ہی والی ہیں اور ان کی تباہی کا مقرر وقت آپہنچا ہے اور تورات میں بھی اس چیز کا ذکر جن الفاظ میں کیا گیا ہے وہ بھی قابل مطالعہ ہیں ۔ قرآن کریم کی عبارت زیر نظر آیت میں آپ نے پڑھی اور تورات کی عبارت بھی ملاحظہ فرما کر دونوں کا فرق آپ خود معلوم کرلیں ۔ چناچہ مذکور ہے کہ : ” اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اس کے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں ، تب خداوند زمین پر انسان کو پیدا کرنے سے ملول ہوا اور دل میں غم کیا اور خداوند نے کہا کہ میں انسان کو جسے میں نے پیدا کیا روئے زمین سے مٹا ڈالوں گا ۔ انسان سے لے کر حیوان اور رینگنے والے جانور اور ہوا کے پرندوں تک کیونکہ میں ان کے بنانے سے ملول ہوں ( پیدائش 6 : 5 تا 7) عبارت بول بول کر کہہ رہی ہے کہ میں الہام الٰہی نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام ہوں کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے انسان کے اعمال کا علم نہ تھا اس لئے اس کو پیدا کیا لیکن جب اس کے کرتوتوں سے دنیا بھر گئی تو پتہ چلا کہ یہ کتنی خطرناک مخلوق تھی اسے تو پیدا ہی نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ لیکن پیدا تو وہ ہوگیا اس لئے اب کف افسوس ملنے لگا ۔ خود سوچئے کہ یہ اسلوب بیان شان الٰہی کے شایان ہے ؟
Top