Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 41
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ : اور وحی بھیجی گئی اِلٰي نُوْحٍ : نوح کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَنْ يُّؤْمِنَ : ہرگز ایمان نہ لائے گا مِنْ : سے قَوْمِكَ : تیری قوم اِلَّا : سوائے مَنْ : جو قَدْ اٰمَنَ : ایمان لا چکا فَلَا تَبْتَئِسْ : پس تو غمگین نہ ہو بِمَا : اس پر جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
تم سبکبار ہو یا گراں بار (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے) نکل آؤ اور خدا کے راستے میں مال اور جان سے لڑو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے بشرطیکہ سمجھو !
قول باری ہے (انفروا خفافاً وثقالاً وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ) تا آخر آیت۔ حسن، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ ہلکے اور بوجھل سے مراد جوان اور بوڑھے ہیں، ابو صالح سے مروی ہے کہ دولت مند اور فقراء مراد ہیں جبکہ حسن سے ایک اور روایت کے مطابق مصروف کار اور غیر مصروف کار مراد ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ کے نزدیک چست و چالاک اور سست و کاہل مراد ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ سوار اور پیادو مراد ہیں۔ ایک قول کے مطابق ہنر مند اور غیر ہنر مند مراد ہیں۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ الفاظ میں مذکورہ بالا تمام وجوہ کا احتمال ہے اس لئے تخصیص کی دلالت موجود نہ ہونے کی بنا پر مدلول و مفہوم کو عام رکھنا واجب ہے۔ قول باری (وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ) میں جان اور مال دونوں کے ذریعے جہاد فرض کردیا گیا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس مال ہو اور وہ خود بیمار ہو یا اپاہج ہو یا کمزور ہو جس کی بنا پر وہ میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ ہو تو اس پر مال کے ذریعے جہاد فرض ہوگا یعنی اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنا مال خرچ کرکے کسی اور کو جہاد پر بھیج دے جس طرح اگر کسی شخص میں اتنی طاقت اور سکت ہو کہ وہ قتال کی تکلیفیں جھیل سکے تو اس پر اپنی جان کے ذریعے جہاد فرض ہے خواہ وہ صاحب مال نہ بھی ہو اور اس مالی استطاعت موجود بھی نہ ہو۔ اسے صرف اتنی گنجائش مل جانا کافی ہے جس کے ذریعے وہ میدان جنگ یا محاذ پر پہنچ سکتا ہو۔ جس شخص کے پاس جان ومال دونوں کی گنجائش ہو اس پر جان اور مال دونوں کے ذریعے جہاد کرنا لازم ہے، اگر کوئی شخص جان و مال دونوں کے لحاظ سے گیا گزرا ہو تو اس پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے خلوص دل کے ساتھ وفاداری کے ذریعے جہاد کرنا فرض ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے (لیس علی الضعفاء ولا علی المرضیٰ ولا علی الذین لا یجدون ماینفقون حرک اذا نصحوا للہ ورسولہ ۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لئے زاد راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں۔ قول باری ہے (ذلکم خیر لکم۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے) جبکہ ترک جہاد میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہے۔ اس لئے اس کی دو توجیہیں کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ یہ بات اس بات کی بہ نسبت بہتر ہے کہ جہاد پر جانے کے بجائے مباح عمل کو اس صورت میں اختیار کرلیا جائے جبکہ حالات کے تحت اس پر جہاد فرض عین کی طرح لازم نہ ہوگیا ہو۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ جہاد کرنے میں بھلائی ہے۔ ترک جہاد میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ قول باری ہے (ان کنتم تعلمون۔ اگر تم جانو ایک قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہیں فی الجملہ یہ معلوم ہو کہ خیر اور بھلائی کا کیا مفہوم ہے تو تمہیں معلوم ہونا چائ ہے کہ یہ بھلائی ہے۔ ایک قول کے مطابق اگر تم یہ جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب اور جنت کا جو وعدہ کیا ہے اس کا وعدہ سچا ہے۔
Top