Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 48
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر بھیجا ہم نے ان کے پیچھے موسیٰ ؑ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس پس کفر کیا انہوں نے ان کے مقابلہ میں، سو دیکھ کیا انجام ہوا مفسدوں کا،
خلاصہ تفسیر
پھر ان (مذکور پیغمبروں) کے بعد ہم نے (حضرت) موسیٰ ؑ کو اپنے دلائل (یعنی معجزات) دے کر فرعون کے اور اس کے امراء کے پاس (ان کی ہدایت و تبلیع کے لئے) بھیجا سو (جب موسیٰ ؑ نے وہ دلائل ظاہر کئے تو) ان لوگوں نے ان (معجزات) کا بالکل حق ادا نہ کیا (کیونکہ ان کا حق اور مقتضا یہ تھا کہ ایمان لے آتے) سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا (برا) انجام ہوا (جیسا اور جگہ ان کا غرق اور ہلاک ہونا مذکور ہے۔ یہ تو تمام قصہ کا اجمال تھا آگے تفصیل ہے یعنی) اور (موسیٰ ؑ نے (فرعون کے پاس بحکم الہی جاکر) فرمایا کہ میں رب العالمین کی طرف سے (تم لوگوں کی ہدایت کے واسطے) پیغمبر (مقرر ہوا) ہوں (جو مجھ کو کاذب بتلائے اس کی غلطی ہے کیونکہ) میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے خدا کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں (اور میں رسالت کا خالی دعوی ہی نہیں کرتا بلکہ) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل (یعنی معجزہ) بھی لایا ہوں (جو طلب کے وقت دکھلا سکتا ہوں) سو (جب میں رسول مع الدلیل ہوں تو میں جو کہوں اس کی اطاعت کر۔ چناچہ منجملہ ان امور کے ایک یہ کہتا ہوں کہ) تو بنی اسرائیل کو (اپنی بیگار سے خلاصی دے کر) میرے ساتھ (ملک شام کو جو ان کا اصلی وطن ہے) بھیج دے فرعون نے کہا کہ اگر آپ (من جانب اللہ) کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے اگر آپ (اس دعوی میں) سچے ہیں، بس آپ نے (فورا) اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیا سو دفعة وہ صاف ایک اژدھا بن گیا (جس کے اژدھا ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا تھا) اور (دوسرا معجزہ یہ ظاہر کیا کہ) اپنا ہاتھ (گریبان کے اندر بغل میں دباکر) باہر نکال لیا سو وہ یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا (کہ اس کو بھی سب نے دیکھا، حضرت موسیٰ ؑ کے جو یہ معجزات عظیمہ ظاہر ہوئے تو فرعون نے اہل دربار سے کہا کہ یہ شخص بڑا جادوگر ہے اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو سے تم لوگوں پر غالب آکر یہاں کا رئیس ہوجائے اور تم کو یہاں آباد نہ رہنے دے سو اس بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے۔ چناچہ سورة شعراء میں یہ قول فرعون کا منقول ہے اس کو سن کر جیسا کہ مصاحبین سلاطین کی عادت ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی ہوتی ہے فرعون کے قول کی تصدیق و موافقت کے لئے) قوم فرعون میں جو سردار (اور اہل دربار) لوگ تھے انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا کہ واقعی (جیسا ہمارے بادشاہ کہتے ہیں کہ) یہ شخص بڑا جادوگر ہے (ضرور) یہ (ہی) چاہتا ہے کہ (اپنے جادو کے زور سے خود مع بنی اسرائیل کے رئیس ہوجائے اور) تم کو (بوجہ اس کے کہ بنی اسرائیل کی نظر میں خار ہو) تمہاری (اس) سر زمین سے باہر کر دے سو تم لوگ (جیسا کہ بادشاہ دریافت کررہے ہیں) کیا مشورہ دیتے ہو۔

معارف و مسائل
اس سورت میں جتنے قصص اور واقعات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے ذکر کئے گئے ہیں یہ ان میں سے چھٹا قصہ ہے، اس کو زیادہ تشریح و تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات بہ نسبت دوسرے انبیاء سابقین کی تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور قوت ظہور میں بھی۔ اسی طرح اس کے بالمقابل ان کی قوم بنی اسرائیل کی جہالت اور ہٹ دھرمی بھی پچھلی امتوں کے مقابلہ میں زیادہ اشد ہے اور یہ بھی ہے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے معارف و مسائل اور احکام بھی آئے ہیں۔
پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ان کے بعد یعنی نوح اور ہود اور لوط اور شعیب (علیہم السلام) کے یا ان کی قوموں کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ کو اپنی آیات دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ آیت سے مراد تورات کی آیات بھی ہوسکتی ہیں اور موسیٰ ؑ کے معجزات بھی۔ اور فرعون اس زمانہ میں ہر باشاہ مصر کا لقب ہوتا تھا۔ موسیٰ ؑ کے زمانہ کے فرعون کا نام قابوس بیان کیا جاتا ہے (قرطبی)
فَظَلَمُوا بِھَا کی ضمیر مجرور آیات کی طرف راجع ہے، یعنی یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری آیات پر ظلم کیا، اور آیات الہی پر ظلم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے آیات الہی کی قدر نہ پہچانی، ان پر شکر کے بجائے ناشکری، اقرار کے بجائے انکار، ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا۔ کیونکہ ظلم کے اصلی معنی ہی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس کے محل اور موقع کے خلاف استعمال کرنا۔
پھر فرمایا فانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ، یعنی دیکھو تو سہی کہ پھر ان فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ مراد یہ ہے کہ ان کے حالات اور انجام بد پر غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔
Top