Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ کو نشانیاں دے کر فرعون اور اسکے اعیان سلطنت کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان کے ساتھ کفر کیا سو دیکھ لو کہ خرابی کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ : ثم بعثنا۔۔۔۔۔ وملائہ (الآیۃ) ، یہاں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہو رہا ہے، جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے اور بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاء میں سے ہیں جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل و معجزات دیکر بھیجا گیا تھا، بنی اسرائیل اصالۃً ملک شام کے علاقہ فلسطین میں کنعان کے رہنے والے تھے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے مصری وزارت مالیات کے زمانہ میں اپنے خاندان کو مصر بلا لیا تھا، یہ لوگ مصر آکر آباد ہوگئے اور یہیں کے ہو کر وہ گئے، اسی خاندان بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کیلئے آپ کو معجزے دیکر بھیجا گیا۔ فرعون موسیٰ کون تھا : فرعون شاہان مصر کا لقب ہے کسی خاص بادشاہ کا نام نہیں ہے، لفظ فرعون کے معنی ہیں سورج دیوتا کی اولاد، قدیم اہل مصر سورج کو جو ان کا مہادیو یا رب اعلیٰ تھا، رَع کہتے تھے اور لفظ فرعون اسی کی طرف منسوب تھا، مصر کا حاکم اور فرمانروا خود کو اسی کا جسمانی مظہر اور نمائندہ ہونے کا دعویدار ہوتا تھا، اسی لئے مصر میں جو خاندان برسر اقتدار آتا تھا وہ اپنے آپ کو سورج و نسی بنا کر پیش کرتا تھا جیسا کہ ہندوستان میں بھی بہت سے خاندان خود کو سورج و نسی اور چند رونسی بتاتے ہیں۔ تین ہزار قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر تک فراعنہ کے اکتیس (31) خاندان مصر پر حکمراں رہے ہیں اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا فرعون کون ہے ؟ عام مؤرخین عرب اور مفسرین اس کو عمالقہ کے خاندان کا فرد بتاتے ہیں، کسی نے اس کا نام ولید بن ریان بتایا ہے اور کوئی مصعب بن ریّان بتاتا ہے ارباب تحقیق کی رائے ہے کہ اس کا نام ریّان تھا، ابن کثیرفرماتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مرّہ تھی یہ سب اقوال قدیم مؤرخین کی تحقیقی روایات پر مبنی ہیں، مگر اب جدید مصری اثری تحقیقات اور حجری کتبات کے پیش نظر اس سلسلہ میں دوسری رائے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا فرعون ریمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح ہے جس کا دور حکومت 1292 ق م سے شروع ہو کر 1225 ق م پر ختم ہوتا ہے۔ (قصص القرآن) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے تھے اور جو بالآخر غرق ہوا موجودہ زمانہ کے محققین کا عام خیال یہ ہے کہ پہلا فرعون ریمسیس (رعمسیس) دوم تھا اور جس فرعون کا زیر تفسیر آیتوں میں ذکر ہے وہ ریمسیس دوم کا بیٹا منفتاح تھا، اسی بادشاہ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا جس کی تفصیل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے یہ دوسرا مطالبہ رکھا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر دے تاکہ وہ اپنے آبائی وطن جاکر عزت و احترام کی زندگی بسر کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے عطا کئے تھے ان میں سے دو عظیم معجزے، معجزہ عصاء اور یدبیضاء، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون کے سامنے دلیل صداقت کے طور پیش کئے تو یہ معجزے دیکھ کر ایمان لانے کے بجائے فرعون اور اس کے درباریوں نے معجزوں کو جادو قرار دیکر کہہ دیا یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے جس سے اس کا مقصد تنہاری حکومت کو ختم کرنا ہے۔
Top