Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 12
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓئِكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍؕ
اِذْ : جب يُوْحِيْ : وحی بھیجی رَبُّكَ : تیرا رب اِلَى : طرف (کو) الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اَنِّىْ : کہ میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَثَبِّتُوا : تم ثابت رکھو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے سَاُلْقِيْ : عنقریب میں ڈالدوں گا فِيْ : میں قُلُوْبِ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوا : کفر کیا (کافر) الرُّعْبَ : رعب فَاضْرِبُوْا : سو تم ضرب لگاؤ فَوْقَ : اوپر الْاَعْنَاقِ : گردنیں وَاضْرِبُوْا : اور ضرب لگاؤ مِنْهُمْ : ان سے (ان کی) كُلَّ : ہر بَنَانٍ : پور
جب حکم بھیجا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں ساتھ ہوں تمہارے سو تم دل ثابت رکھو مسلمانوں کے، میں ڈال دوں گا دل میں کافروں کے دہشت سو مارو گردنوں پر اور کاٹو ان کی پور پور۔
معارف و مسائل
شروع سورة انفال سے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا بیان ہو رہا ہے جو اس کے فرمانبردار بندوں پر مبزول ہوئے۔ غزوہ بدر کے واقعات بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ غزوہ بدر میں جو انعامات حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے ان میں سے پہلا انعام تو خود اس جہاد کے لئے مسلمانوں کو نکالنا ہے جس کا بیان (آیت) كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ میں ہوا ہے، دوسرا انعام فرشتوں کی مدد کا وعدہ ہے جس کا ذکر (آیت) اِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ میں آیا ہے۔ تیسرا انعام دعا کی قبولیت اور مدد کا وعدہ پوا کرنا ہے جس کا ذکر (آیت) اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ ، میں ہوا ہے۔ مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں چوتھے انعام کا تذکرہ ہے جس میں مسلمانوں کے لئے دو نعمتوں کا ذکر ہے ایک سب پر نیند غالب آکر پریشانی اور تکان کا دور ہوجانا دوسرے بارش کے ذریعہ ان کے لئے پانی مہیا فرمانا اور میدان جنگ کو ان کے لئے ہموار اور دشمن کے لئے دلدل بنادینا۔
تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ جس وقت کفر و اسلام کا یہ پہلا معرکہ ٹھن گیا تو کفار مکہ کا لشکر پہلے پہنچ کر ایک ایسے مقام پر پڑاؤ ڈال چکا تھا جو اونچائی پر تھا۔ پانی اس کے قریب تھا آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام اس جگہ پہنچے تو وادی کے نچلے حصہ میں جگہ ملی۔ قرآن کریم نے اس میدان جنگ کا نقشہ اسی سورت کی بیالیسویں آیت میں اس طرح کھینچا ہے (آیت) اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي، جس کا مفصل بیان بعد میں آئے گا۔
جس جگہ پہنچ کر رسول کریم ﷺ نے اول قیام فرمایا۔ اس مقام کے واقف کار حضرت حباب بن منذر نے اس کو جنگی اعتبار سے نامناسب سمجھ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ جو مقام آپ نے اختیار فرمایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے جس میں ہمیں کوئی اختیار نہیں یا محض رائے اور مصلحت کے پیش نظر اختیار فرمایا گیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں یہ کوئی حکم خداوندی نہیں، اس میں تغیر و تبدل کیا جاسکتا ہے، تب حضرت حباب بن منذر نے عرض کیا کہ پھر تو بہتر ہے کہ اس مقام سے آگے بڑھ کر مکی سرداروں کے لشکر کے قریب ایک پانی کا مقام ہے اس پر قبضہ کیا جائے وہاں ہمیں پانی افراط کے ساتھ مل جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کا مشورہ قبول فرمایا اور وہاں جاکر پانی پر قبضہ کیا ایک حوض پانی کے لئے بنا کر اس میں پانی کا ذخیرہ جمع فرمایا۔
اس سے مطمئن ہونے کے بعد حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم آپ کے لئے ایک سایہ بان کسی محفوظ جگہ میں بنادیں جہاں آپ مقیم رہیں اور آپ کی سواریاں بھی آپ کے پاس رہیں۔
منشاء اس کا یہ ہے کہ ہم دشمن کے مقابلہ میں جہاد کریں گے اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح نصیب فرمائی تو یہی مقصد ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی دوسری صورت ہو تو آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر ان صحابہ کرام کے ساتھ جاملیں جو مدینہ طیبہ میں رہ گئے ہیں کیونکہ میرا گمان یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جانثاری اور آپ سے محبت میں ہم سے کم نہیں اور اگر ان کو آپ کے نکلنے کے وقت یہ خیال ہوتا کہ آپ کا اس مصلح لشکر سے مقابلہ ہوگا تو ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہتا، آپ مدینہ میں پہنچ جائیں گے تو وہ آپ کے رفیق کار رہیں گے۔ رسول کریم ﷺ نے ان کی اس جانبازانہ پیش کش پر دعائیں دیں۔ اور ایک مختصر سا سایہ بان آپ کے لئے بنادیا گیا جس میں آنحضرت ﷺ اور صدیق اکبر کے سوا کوئی نہ تھا۔ حضرت معاذ دروازہ پر حفاظت کے لئے تلوار لئے کھڑے تھے۔
معرکہ کی پہلی رات تھی۔ تین سو تیرہ بےسامان لوگوں کا مقابلہ اپنے سے تین گنی تعداد یعنی ایک ہزار مصلح فوج سے تھا۔ میدان جنگ کا بھی اچھا مقام ان کے قبضہ میں آچکا تھا۔ نچلا حصہ وہ بھی سخت ریتیلا جس میں چلنا دشوار مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ طبعی پریشانی اور فکر سب کو تھی، بعض لوگوں کے دل میں شیطان نے یہ وساوس بھی ڈالنے شروع کئے کہ تم لوگ اپنے آپ کو حق پر کہتے ہو اور اس وقت بھی بجائے آرام کرنے کے نماز تہجد وغیرہ میں مشغول ہو مگر حال یہ ہے کہ دشمن ہر حیثیت سے تم پر غالب اور تم سے بڑھا ہوا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک خاص قسم کی نیند مسلط فرمادی جس نے ہر مسلمان کو خواہ اس کا ارادہ سونے کا تھا یا نہیں جبرا سلادیا۔
حافظ حدیث ابو یعلی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی مرتضی نے فرمایا کہ غزوہ بدر کی اس رات میں ہم میں سے کوئی باقی نہیں رہا جو سو نہ گیا ہو۔ صرف رسول اللہ ﷺ تمام رات بیدار رہ کر صبح تک نماز تہجد میں مشغول رہے۔
اور ابن کثیر نے بحوالہ صحیح نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس رات میں جب کہ اپنے عریش یعنی سائبان میں نماز تہجد میں مشغول تھے آپ کو بھی کسی قدر اونگھ آگئی مگر فورا ہی ہنستے ہوئے بیدار ہو کر فرمایا۔ اے ابوبکر خوشخبری سنو یہ جبرئیل ؑ ٹیلہ کے قریب کھڑے ہیں اور یہ کہہ کر آپ سائبان سے باہر یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے (آیت) سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ، یعنی عنقریب دشمن کی جماعت ہار جائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے باہر نکل کر مخلتف جگہوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ ابو جہل کی قتل گاہ ہے یہ فلاں کی یہ فلاں کی۔ اور پھر ٹھیک اسی طرح واقعات پیش آئے (تفسیر مظہری)
اور جیسا غزوہ بدر میں تکان اور پریشانی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام پر خاص قسم کی نیند مسلط فرمائی اسی طرح غزوہ احد میں بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا۔
سفیان ثوری ؒ نے بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود نقل کیا ہے کہ جنگ کی حالت میں نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن و اطمینان کی نشانی ہوتی ہے۔ اور نماز میں نیند شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ (ابن کثیر)
دوسری نعمت مسلمانوں کو اس رات میں یہ ملی کہ بارش ہوگئی جس نے میدان جنگ کا نقشہ بالکل پلٹ دیا، قریشی لشکر نے جس جگہ پر قبضہ کیا تھا وہاں تو بارش بہت تیز آئی اور میدان میں دلدل ہو کر چلنا مشکل ہوگیا۔ اور جس جگہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام مقیم تھے یہاں ریت کی وجہ سے چلنا مشکل تھا یہاں بارش ہلکی ہوئی جس نے تمام ریتے کو جما کر میدان کو نہایت ہموار خوشگوار بنادیا۔
آیت مذکورہ میں انھیں دو نعمتوں کا ذکر ہے نیند اور بارش جس نے میدان کارزار کا نقشہ پلٹ کر وہ شیطانی وساوس دھو ڈالے جو بعض کمزور لوگوں کو ستا رہے تھے کہ ہم حق پر ہونے کے باوجود مقہور و مغلوب نظر آتے ہیں اور دشمن باطل پر ہونے کے باوجود قوت و شوکت اور اطمینان کی حالت میں ہے۔
آیت مذکورہ میں فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا چین دینے کے لئے اور تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس پانی سے تم کو پاک کر دے۔ اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے۔
دوسری آیت میں پانچویں انعام کا ذکر ہے جو اس غزوہ بدر کے میدان کارزار میں مسلمانوں پر مبذول ہوا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرشتے مسلمانوں کی امداد کے لئے بھیجے تھے ان کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم کفار کی گردنوں پر حربہ مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔
اس میں فرشتوں کو دو کام سپرد کئے گئے ایک یہ کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھائیں یہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے میدان میں آکر ان کی جماعت کو بڑھائیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لیں اور اس طرح بھی کہ اپنے تصرف سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کردیں اور ان میں قوت پیدا کردیں۔ دوسرا کام یہ بھی ان کے سپرد ہوا کہ فرشتے خود بھی قتال میں حصہ لیں اور کفار پر حملہ آور ہوں۔ اس آیت سے ظاہر یہی ہے کہ فرشتوں نے دونوں کام انجام دیئے، مسلمانوں کے دلوں میں تصرف کرکے ہمت و قوت بھی بڑھائی اور قتال میں بھی حصہ لیا۔ اور اس کی تائید چند روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے جو تفسیر درمنثور اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور قتال ملائکہ کی عینی شہادتیں صحابہ کرام سے نقل کی ہیں۔
تیسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس معرکہ کفر و اسلام میں جو کچھ ہوا اس کا سبب یہ تھا کہ ان کفار نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی اور جو اللہ و رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب شدید اور سخت ہوا کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غزوہ بدر میں ایک طرف تو مسلمانوں پر انعامات نازل ہوئے۔ فتح و نصرت ان کو حاصل ہوئی۔ دوسری طرف کفار پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے عذاب نازل فرما کر ان کی بدکرداریوں کی تھوڑی سی سزادے دی گئی۔ اور اس سے زیادہ بھاری سزا آخرت میں ہونے والی ہے جس کو چوتھی آیت میں بیان فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَاب النَّارِ۔
یعنی یہ ہمارا تھوڑ سا عذاب ہے اس کو چکھو اور سمجھ لو کہ اس کے بعد کافروں کے لئے جہنم کا عذاب آنے والا ہے جو نہایت شدید و مدید اور ناقابل قیاس ہے۔
Top