Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 12
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓئِكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍؕ
اِذْ : جب يُوْحِيْ : وحی بھیجی رَبُّكَ : تیرا رب اِلَى : طرف (کو) الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اَنِّىْ : کہ میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَثَبِّتُوا : تم ثابت رکھو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے سَاُلْقِيْ : عنقریب میں ڈالدوں گا فِيْ : میں قُلُوْبِ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوا : کفر کیا (کافر) الرُّعْبَ : رعب فَاضْرِبُوْا : سو تم ضرب لگاؤ فَوْقَ : اوپر الْاَعْنَاقِ : گردنیں وَاضْرِبُوْا : اور ضرب لگاؤ مِنْهُمْ : ان سے (ان کی) كُلَّ : ہر بَنَانٍ : پور
جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم مومنوں کو تسلی دو کہ ثابت قدم رہیں۔ میں ابھی ابھی کافروں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈالے دیتا ہوں تو ان کے سر مار (کر) اڑا دو اور اس کا پور پور مار (کر توڑ) دو ۔
(21) (اذ یوحی ربک الی الملٓئکۃ) ان فرشوتں کی طرف جن کے ذریعے مئومنین کی مدد کی (انی معکم فئبثوا الذین امنوا) یعنی ان کے دلوں کو مضبوط کرو۔ بعض نے کہا یہ ثابت قدمی ان کے لڑائی میں حاضر ہونے اور مدد کرنے کے ذریعے ہوئی اور مقاتل (رح) نے فرمایا کہ ان کو مدد کی خوشخبری دو ، فرشتے صف کے آگے انسانی شکل میں چلتے تھے اور کہتے تھے خوش ہو جائو بیشک اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ (سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب) عطاء فرماتے ہیں کہ اللہ کے الویاء کا خوف مراد ہے (فاضربوا فوق الاعتاق) بعض نے کہا یہ خطاب مئومنوں کو ہے اور بعض نے کہا یہ خطاب فرشتوں کو ہے اور یہ ” فتبتوا الذین امنوا “ کے ساتھ متصل ہے (واضربوا منھم کل بنان) عطیہ (رح) فرماتے ہیں یعنی ہر جوڑ کا ٹو۔ ابن عباس ؓ، ابن جریج اور ضحاک رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے اطراف کاٹو ” بنان بناتۃ “ کی جمع ہے دونوں ہاتھ اور پائوں کی انگلیوں کے اطراف مراد ہیں۔ ابن الانباری (رح) فرماتے ہیں کہ فرشتوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ انسانوں کو کس طرح قتل کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ تعلیم دی۔ عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان جنگ میں ایک مشرک کا تعاقب کر رہا تھا کہ اچانک مسلمان نے اپین اوپر کوڑے اور گھوڑ سوار کی آاز سنی کہ وہ کہہ رہا ہے ۔ حیزوم آگے دیکھا مشرک تو گرا پڑا ہے جا کر دیکھا تو وہ مرچکا تھا اور اس کا چہرہ کوڑے کے لگنے کی وجہ سے پھٹ چکا تھا تو وہ انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور واقعہ بیان کیا تو آپ علیہالسلام نے فرمایا تو نے سچ کہا۔ یہ تیسرے آسمان سے مدد ہے تو اس دن ستر کو قتل کیا اور ستر کو قید کیا۔ ابو دائود مازنی ؓ سے روایت ہے یہ غزوہ بدر میں شریک تھے کہ میں ایک مشرک کے پیچھے قتل کرنے کے لئے لگا ہوا تھا تو میری تلوار اس کو لگنے سے پہلے اس کا سرکٹ گیا تو میں سمجھ گیا کہ اس کہ اس کو میرے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہے۔ ابو امامہ بن سہل بن حنیف نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو غزوہ بدر میں دیکھا کہ ہم میں سے کوئی تلوار سے اشارہ کرتا تو مشرک کا سر، اس کے جسم سے الگ ہوجاتا، تلوار لگنے سے پہلے۔ عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابو رافع ؓ فرماتے ہیں کہ میں عباس بن عبدالمطلب کا غلام تھا اور ہمارے گھر میں اسلام داخل ہوچکا تھا میں اور ام الفضل اسلام لا چکے تھے اور حضرت عباس پر ان کی قوم کا رعب تھا اور ان کی مخالفت سے ڈرتے تھے اور اسلام کو چھپائے ہوئی تھے، ان کا بہت سارا مال جو ان کی قوم میں پھیلا ہوا تھا اور ابو لہب اللہ کا دشمن بدر سے پیچھے رہ گیا تھا اور اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیج دیا تھا۔ جب بدر والوں کے قتل ہونے کی خبر پہنچی تو اللہ نے اس کو ذلیل و رسوا کیا اور ہم اپین دل میں قوت و عزت محسوس کرنے لگے، میں ایک کمزور شخص تھا اور پیالے بناتا تھا اور ان کو زمزم کے پاس بیٹھ کر کھر چتا تھا، اللہ کی قسم ! میں وہاں بیٹھا پیالے کھرچ رہا تھا اور ام فضل میرے پاس بیٹھی تھیں کہ فاسق ابو الہب پائوں گھسٹیتا ہوا آیا اور وہاں پتھر پر بیٹھ گیا، اس کی پیٹھ میری پیٹھ کی طرف تھی وہ وہاں بیٹھا کہ لوگوں نے کہا ابوسفیان ابن حارث آگئے تو ابو لہب کہنے لگا اے بھتیجے میرے پاس آ تیرے پاس کوئی خبر ہے ؟ تو وہ آ کر بیٹھ گیا اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے تھے۔ ابولہب نے پوچھا اے بھتیجے مجھے خبر دے لوگوں کا کیا معاملہ بنا ؟ اس نے کہا کچھ نہیں اللہ کی قسم ہماری ان سے لڑائی ہوئی، وہ ہمیں قتل کرنے لگے اور قید کرنے لگے جیسے ان کا دل چاہے اور اللہ کی قسم ! میں لوگوں کو ملامت نہیں کرتا، ہماری مڈ بھیڑ سفید لوگوں سے ہوئی، وہ چتکبڑے گھوڑوں پر آسمان و زمین کے درمیان تھے تو ابو رافع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اللہ کی قسم ! وہ فرشتے تھے تو ابولہب نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے چہرے پر زور کا تھپڑ مارا اور مجھے اٹھا کر زمین پ پھینک دیا، پھر مجھ پر چڑھا بیٹھا اور مجھے مارنے لگا، میں کمزور آدمی تھا، تو ام فضل کھڑی ہوئیں اور حجرہ کے ایک ستون کی لکڑی پکڑی اور ابولہب کو ماری تو اس کے سر میں زخم ہوگیا اور کہا کہ اس کا آقا نہیں ہے تو تو اس کو کمزور سمجھتا ہے ؟ تو وہ ذلیل ہو کر چلا گیا۔ پس اللہ کی قسم ! وہ اس کے بعد صرف سات راتیں زندہ رہا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک کنکر مار کر ہلاک کردیا۔ مقسم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عباس کو ابوالیسر کعب بن عمرو بن سلمہ کے بھائی نے قید کیا تھا حالانکہ حضرت عباس بڑے قدم آور صحتمند تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ابوالیسر سے پوچھا کہ آپ نے عباس کو کیسے قید کرلیا ؟ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ اس پر میری ایک آدمی نے مدد کی، میں نے نہ اس کو اس سے پہلے دیکھا اور نہ اس کے بعد اس کی ہئیت اس طرح تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیری مدد معزز فرشتے نے کی ہے۔
Top