Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور ان کی نماز نہیں تھی کعبہ کے پاس مگر سیٹیاں بجانی اور تالیاں، سو چکھو عذاب بدلہ اپنے کفر کا۔
تیسرا جرم ان لوگوں کا یہ بتلایا کہ کفر و شرک کی گندگی تو تھی ہی ان کے افعال و اعمال تو عام انسانی سطح سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے جس فعل کا نام نماز رکھتے ہیں وہ بجز اس کے نہیں کہ اس میں کچھ منہ سے سیٹیاں بجائیں کچھ ہاتھوں سے تالیاں اور یہ ظاہر ہے کہ جس کو ذرا بھی عقل ہو وہ ان افعال کو عبادت و نماز کیا کوئی صحیح انسانی فعل بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۔ یعنی تمہارے کفر اور جرائم کا انجام یہی ہے کہ اب اللہ کا عذاب چکھو۔ عذاب سے اس جگہ عذاب آخرت بھی مراد ہوسکتا ہے اور عذاب دنیا بھی جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ان پر نازل ہوا۔
اس کے بعد چھتیسویں آیت میں کفار مکہ کے ایک اور واقعہ کا بیان ہے جس میں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قوت جمع کرنے کے لئے مال بھی ہاتھ سے گیا اور مقصد حاصل ہونے کے بجائے خود ذلیل و خوار ہوئے۔
واقعہ اس کا بروایت محمد بن اسحاق حضرت عبداللہ بن عباس سے یہ منقول ہے کہ غزوہ بدر کے شکست زدہ زخم خوردہ، بچے کھچے کفار مکہ جب وہاں سے واپس مکہ پہنچے تو جن لوگوں کے باپ بیٹے اس جہاد میں مارے گئے تھے وہ تجارتی قافلہ کے امیر ابو سفیان کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ جنگ تمہارے تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لئے لڑی گئی جس کے نتیجہ میں یہ تمام جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس مشترک تجارتی کمپنی سے ہماری کچھ مدد کی جائے تاکہ ہم آئندہ مسلمانوں سے اپنا انتقام لے سکیں، ان لوگوں نے اس کو منظور کر کے ایک بڑی رقم دے دی جس کو انہوں نے غزوہ بدر کا انتقام لینے کے لئے غزوہ احد میں خرچ کیا اور اس میں بھی انجام کار مغلوب ہوئے اور شکست کے غم کے ساتھ مال ضائع کرنے کی حسرت مزید ہوگئی۔
قرآن کریم نے اس آیت میں یہ واقعہ پیش آنے سے پہلے ہی رسول کریم ﷺ کو اس کے انجام کی خبر دے دی۔ ارشاد فرمایاوہ لوگ جو کافر ہیں اپنے مالوں کو اس کام کے لئے خرچ کرنا چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے دین سے روک دیں۔ سو اس کا انجام یہ ہوگا کہ یہ اپنا مال بھی خرچ کر ڈالیں گے اور پھر ان کو مال خرچ کرنے پر حسرت ہوگی، اور انجام کار مغلوب ہوجائیں گے۔ چناچہ غزوہ احد میں ٹھیک یہی صورت ہوئی کہ جمع شدہ مال بھی خرچ کر ڈالا۔ اور پھر مغلوب ہوئے تو شکست کے غم کے ساتھ مال ضائع ہونے پر الگ حسرت و ندامت ہوئی۔
اور بغوی وغیرہ بعض مفسرین نے اس آیت کے مضمون کو خود غزوہ بدر کے اخراجات پر محمول فرمایا ہے کہ غزوہ بدر میں ایک ہزار جوانوں کا جو لشکر مسلمانوں کے مقابلہ پر گیا تھا ان کے کھانے پینے کے کل اخراجات مکہ کے بارہ سرداروں نے اپنے ذمہ لئے تھے جن میں ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک ہزار آدمیوں کے آنے جانے کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات پر بڑی رقم خرچ ہوئی۔ تو ان لوگوں کو اپنی شکست کے ساتھ اپنے اموال ضائع ہونے پر بھی شدید حسرت و ندامت پیش آئی (مظہری)
Top