Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
نہیں ہے ان کی نماز بیت اللہ کے پاس مگر سیٹی بجانا اور تالیاں پیٹنا تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کی پاداش میں
وَمَاکَانَ صَلَا تُھُمْ عِنْدَالْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّتَصْدِیَۃً ط فَذُوْقُوْا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ۔ ( الانفال : 35 ) (نہیں ہے ان کی نماز بیت اللہ کے پاس مگر سیٹی بجانا اور تالیاں پیٹنا تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کی پاداش میں۔ ) تمہاری بیخبر ی کا عالم تو یہ ہے کہ تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا کیا دعائیں مانگی تھیں اور اس میں بطور خاص اقامتِ صلوٰۃ کی جو دعا مانگی تھی اس کی شکل و صورت اور اس کا مفہوم کیا تھا ؟ قرآن کریم نے سورة ابراہیم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چند دعائوں کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہے : وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَاٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ۔ ط رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ ج وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ ۔ (ابراہیم : 35 تا 37) (اور یاد کرو ! جب ابراہیم نے دعا کی اے میرے رب ! اس سرزمین کو پرامن سرزمین بنا دے اور مجھ کو اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھ۔ اے میرے رب ! ان بتوں نے بہتوں کو گمراہ کررکھا ہے سو جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو غفور رحیم ہے۔ اے ہمارے رب ! میں نے اپنی اولادوں میں سے کچھ کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بن کھیتی کی سرزمین میں بسایا ہے۔ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرماتا کہ وہ تیرے شکر گزار ہوں۔ ) اس دعا کو غور سے پڑھئے تو اندازہ ہوجائے گا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل کو کس مقصد کے لیے مکہ معظمہ بسایا تھا اور انھوں نے اپنی اولاد کے لیے کیا دعائیں مانگی تھیں۔ ربنا لیقیموالصلٰوۃ کے الفاظ سے بطور خاص معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کو عبادت کا مرکز بنایا گیا تھا اور حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کو اس گھر کے پڑوس میں بسانے سے اصل مدعا نماز کا اہتمام و قیام تھا۔ لیکن قریش نے جس طرح بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنانے کی بجائے بت خانہ بنا کر رکھ دیا اسی طرح جس نماز کی خاطر انھیں یہاں بسایا گیا تھا اس کی صرف شکل ہی نہیں بگاڑی بلکہ اسے کھیل تماشے میں بدل ڈالا۔ مُکَآئً کا معنی ہے ” منہ سے سیٹی بجانا “۔ تَصْدِ یَۃً کا معنی ہے ” تالی پیٹنا “۔ یہ لوگ بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجاتے تالیاں پیٹتے اور اس مسخرہ پن کو نماز سمجھتے۔ جس قوم کو عبادت کا ذرا سا بھی تصور میسر ہو وہ کم از کم اسے ایسی شکل تو نہیں دے سکتی جسے دیکھنے والا کھیل تماشا سمجھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب نفسانیت کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متانت رخصت ہوجاتی ہے تو جس طرح وہ عام زندگی میں میلوں ٹھیلوں کی رسیا ہوجاتی ہیں اور ہر وقت یہ چاہتی ہیں کہ ان کی نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کی تسکین کا سامان ہوتا رہے اسی طرح وہ اپنے مذہب کو بھی بگاڑ کر اسی ڈھب میں لے آتی ہیں۔ عیسائیوں نے جس طرح اپنے عبادت خانوں میں گھنٹے بجانے کی رسم ڈالی اور ہندوؤں نے بھجن گانے کے ساتھ ساتھ دوشیزائوں کے رقص کو عبادت کا حصہ بنایا اور مسلمانوں نے تعزیہ داری کی رسوم، مزاروں پر ہونے والی خرافات اور ذکر اللہ کی مجلسوں میں ناچ اور بھنگڑا، اسی بگڑے ہوئے ذوق کی علامتیں ہیں۔ قریش چونکہ اپنے بگاڑ میں حیوانی سطح تک اتر چکے تھے انھوں نے نماز جو اللہ کے ساتھ قرب اور تعلق کا سب سے اہم ذریعہ ہے کو بگاڑ کر ایسی شکل میں تبدیل کردیا جس سے کبھی وہم بھی نہیں ہوسکتا کہ ایسی چیز کبھی نماز رہی ہوگی۔ تو ایسی قوم جنھوں نے اللہ کے گھر کی ہیئت بدل ڈالی روایات پامال کردیں، تاریخ مسخ کردی، مقاصد تبدیل کردئیے، بیت اللہ کی بجائے قومی معبد کی شکل دے دی اور عبادت اور نماز کو سیٹی اور تالیوں میں تبدیل کردیا ان کا انجام عذاب کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اس لیے پروردگار نے براہ راست ان سے خطاب کرکے فرمایا کہ تم اب بگاڑ کی جس انتہا کو پہنچ گئے ہو کہ اب اس کی پاداش میں اللہ کا عذاب چکھنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ چناچہ اس عذاب کا پہلا تھپڑ تو میدانِ بدر میں انھیں مارا گیا اور آئندہ کے لیے انھیں وارننگ دی گئی کہ اگر تم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو پھر ایسے ہی اور تھپڑ لگیں گے اور بالآخر تمہاری ہر حیثیت تباہ کردی جائے گی۔
Top