Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور ان لوگوں کی نماز خانہٴ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو
وما کان صلاتھم عند البیت الا مکاءً وتصدیۃً ط اور کعبہ کے پاس ان کی نماز صرف سیٹیاں اور تالیاں بجانا ہوتی ہے۔ صلٰوۃ سے مراد دعا ہے ‘ یا وہ عبادت مراد ہے جس کو مشرک نماز کہتے تھے۔ مُکاء کا ترجمہ حضرت ابن عباس اور حسن نے سیٹی کیا ہے۔ اصل میں مکاء اس سفید پرندہ کو کہا جاتا تھا جس کی آواز سیٹی کی طرح ہوتی تھی ‘ یہ پرندہ حجاز میں ہوتا تھا۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت میں مکاء سے مراد مکاء کی آواز ہوگی۔ تصدیۃ کا معنی تالی بجانا۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ قریش کعبہ کا طواف برہنہ ہو کر کیا کرتے تھے اور طواف کی حالت میں سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے۔ واحدی نے حضرت ابن عمر کی طرف بھی اس بیان کو منسوب کیا ہے۔ بغوی نے مجاہد کا بیان لکھا ہے کہ قبیلہ عبدالدار کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے طواف کرتے وقت سامنے آجاتے ‘ مذاق بناتے اور اپنے منہ میں انگلیاں ڈال کر سیٹیاں بجاتے تھے۔ اس روایت کی روشنی میں مکاء کا معنی ہوگا بانچھوں کے اندر انگلیاں داخل کرنا اور تصدیۃ کا معنی ہوگا سیٹی جیسی آواز نکالنی۔ پہاڑ کے درّہ میں آواز نکالنے والے کو جو بازگشت کی آواز سنائی دیتی ہے جس کو صدا کہا جاتا ہے ‘ اس کا ماخذ لفظ تصدیۃ ہی ہے۔ لغت میں صدا اس آواز کو کہتے ہیں جو (میدان یا پہاڑ یا کسی بلند عمارت میں) ہر طرف سے آتی ہے۔ ابن جریر نے بحوالۂ سعید بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے طواف کے دوران قریش آپ کے سامنے آجاتے ‘ آپ سے ٹھٹھا کرتے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جعفر بن ابی ربیعہ نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے مکاء وتصدیۃ کا معنی پوچھا تو حضرت ابوسلمہ نے دونوں ہتھیلیاں ملا کر بیچ میں پھونکا جس سے سیٹی جیسی آواز پیدا ہوئی۔ رواہ ابن جریر۔ مقاتل کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تو دو آدمی آپ کے دائیں جانب کھڑے سیٹی کی آواز نکالتے اور دو آدمی آپ کے بائیں کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگتے تھے تاکہ رسول اللہ ﷺ کی نماز میں گڑبڑ ہوجائے۔ یہ لوگ قبیلۂ عبدالدار کے تھے۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا : تصدیۃ سے مراد ہے مسلمانوں کو مسجد حرام اور دین اور نماز سے روکنا۔ اس قول کی بناء پر تصدیۃ کا مادہ صَدٌّ قرار پائے گا۔ دوسری دال کو یاء سے بدل دیا گیا۔ بہرصورت لفظ صلٰوۃ سے مراد کافروں کی وہ حرکات ہوں گی جن کو نماز کے قائم مقام انہوں نے بنا رکھا تھا۔ حکم تو دیا گیا تھا مسجد میں نماز پڑھنے کا اور انہوں نے بجائے نماز کے ان حرکات کو اختیار کیا۔ فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون۔ اب تم عذاب کو چکھو کفر کرتے رہنے کے عوض۔ عذاب سے مراد ہے بدر کی لڑائی میں مارا جانا۔ بعض کے نزدیک عذاب آخرت مراد ہے اور العذاب میں الف لام عہدی ہوسکتا ہے ‘ یعنی وہ عذاب جس کی انہوں نے درخواست کی تھی اور کہا تھا : اَوِاءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمِ ۔ اور کفر سے مراد ہے اعتقادی اور عملی کفر۔ یہ آیت گذشتہ آیت سے وابستہ ہے اور اس بات کو پختہ کر رہی ہے کہ واقعی وہ عذاب کے مستحق ہیں اور تولیت کعبہ کے حقدار نہیں ہیں۔ جس کے یہ احوال ہوں جو اوپر بیان کر دئیے گئے ‘ وہ ضرور عذاب کا مستحق ہوگا اور تولیت کعبہ کا حقدار نہ ہوگا۔
Top