Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور تم جان لو
اَنَّمَا
: جو کچھ
غَنِمْتُمْ
: تم غنیمت لو
مِّنْ
: سے
شَيْءٍ
: کسی چیز
فَاَنَّ
: سو
لِلّٰهِ
: اللہ کے واسطے
خُمُسَهٗ
: اس کا پانچوا حصہ
وَلِلرَّسُوْلِ
: اور رسول کے لیے
وَ
: اور
لِذِي الْقُرْبٰي
: قرابت داروں کے لیے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیموں
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور مسکینوں
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافروں
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
اٰمَنْتُمْ
: ایمان رکھتے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَمَآ
: اور جو
اَنْزَلْنَا
: ہم نے نازل کیا
عَلٰي
: پر
عَبْدِنَا
: اپنا بندہ
يَوْمَ الْفُرْقَانِ
: فیصلہ کے دن
يَوْمَ
: جس دن
الْتَقَى الْجَمْعٰنِ
: دونوں فوجیں بھڑ گئیں
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کو غنیمت ملے کسی چیز سے سو اللہ کے واسطے ہے اس میں سے پانچواں حصہ اور رسول کے واسطے اور اس کے قرابت والوں کے واسطے اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے واسطے اگر تم کو یقین ہے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے اتاری اپنے بندے پر فیصلہ کے دن جس دن بھڑ گئیں دونوں فوجیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
خلاصہ تفسیر
اور اس بات کو جان لو کہ جو شئے (کفار سے) بطور غنیمت کے تم کو حاصل ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ (اس کے کل پانچ حصے کئے جائیں جن میں سے چار حصے تو مقاتلین کا حق ہے اور ایک حصہ یعنی) اس کا پانچواں حصہ (پھر پانچ حصوں پر تقسیم ہوگا جن میں سے ایک تو) اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا ہے (یعنی رسول اللہ ﷺ کو ملے گا جن کو دینا بمنزلہ اس کے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا) اور (ایک حصہ) آپ کے قرابت داروں کا ہے اور (ایک حصہ) یتیموں کا ہے (ایک حصہ) غریبوں کا ہے اور (ایک حصہ) مسافروں کا ہے اگر تم اللہ پر یقین رکھتے ہو اور اس چیز پر (یقین رکھتے ہو) جس کو ہم نے اپنے بندہ (محمد ﷺ پر فیصلہ کے دن (یعنی) جس دن کہ (بدر میں) دونوں جماعتیں (مؤ منین اور کفار کی) باہم مقابل ہوئی تھیں نازل فرمایا تھا (مراد اس سے امداد غیبی بواسطہ ملائکہ کے ہے یعنی اگر ہم پر اور ہمارے الطاف غیبیہ پر یقین رکھتے ہو تو اس حکم کو جان رکھو اور عمل کرو یہ اس لئے بڑھا دیا کہ خمس نکالنا شاق نہ ہوا اور یہ سمجھ لیں کہ یہ ساری غنیمت اللہ ہی کی امداد سے تو ہاتھ آئی پھر اگر ہم کو ایک خمس نہ ملا تو کیا ہوا وہ چار خمس بھی تو ہماری قدرت سے خارج تھے بلکہ محض قدرت الہیہ سے حاصل ہوئے) اور اللہ (ہی) ہر شئے پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں (پھر تمہارا استحقاق تو اتنا بھی نہیں تھا یہ بھی بہت مل گیا)۔
معارف و مسائل
اس آیت میں مال غنیمت کے احکام اور اس کی تقسیم کا قانون مذکور ہے۔ اس سے پہلے چند ضروری الفاظ کی تشریح سن لیجئے۔
لفظ غنیمت لغت میں اس مال کے لئے بولا جاتا ہے جو دشمن سے حاصل کیا جائے، اصطلاح شریعت میں غیر مسلموں سے جو مال جنگ و قتال اور قہر و غلبہ کے ذریعہ حاصل ہو اس کو غنیمت کہتے ہیں اور جو صلح و رضامندی سے حاصل ہو جیسے جزیہ و خراج وغیرہ اس کو فیئ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں انھیں دونوں لفظوں سے ان دونوں قسموں کے احکام بتلائے گئے ہیں۔ سورة انفال میں مال غنیمت کے احکام کا ذکر ہے جو جنگ و قتال کے وقت غیر مسلموں سے حاصل ہو۔
یہاں سب سے پہلے ایک بات پیش نظر رہنا چاہئے وہ یہ کہ اسلامی اور قرآنی نظریہ کے مطابق تمام کائنات کی اصلی ملکیت صرف اس ذات حق تعالیٰ کی ہے جس نے انھیں پیدا کیا ہے انسان کی طرف کسی چیز کی ملکیت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے ذریعہ کسی شخص کی ملکیت قرار دے دی ہو۔ جیسے سورة یسین میں چوپائے جانوروں کے ذکر میں ارشاد فرمایا (آیت) اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ۔ یعنی کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ چوپاؤں کو ہم اپنے ہاتھوں سے بنایا پھر لوگ ان کے مالک بن گئے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی ملکیت ذاتی نہیں ہم نے اپنے فضل سے ان کو مالک بنادیا۔
جب کوئی قوم اللہ سے بغاوت کرتی ہے یعنی کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتی ہے تو پہلے حق تعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے اپنے رسول اور کتابیں بھیجتے ہیں جو بدبخت اس انعام الہی سے بھی متاثر نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال کا حکم دے دیتے ہیں جس کا حاصل یہ ہوتا کہ ان باغیوں کے جان و مال سب مباح کردیئے گئے ان کو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اموال سے نفع اٹھانے کا حق نہیں رہا۔ بلکہ ان کے اموال بحق سرکار ضبط ہوگئے۔ انھیں ضبط شدہ اموال کا دوسرا نام مال غنیمت ہے جو کفار کی ملکیت سے نکل کر خالص حق تعالیٰ کی ملکیت میں رہ گئے۔
ان ضبط شدہ اموال کے لئے زمانہ قدیم سے حق تعالیٰ کا قانون یہ رہا ہے کہ ان سے کسی کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ ایسے اموال کو جمع کرکے کسی کھلی جگہ میں رکھ دیا جاتا اور آسمان سے ایک بجلی آکر ان کو جلادیتی تھی۔ یہی علامت ہوتی تھی اس جہاد کے قبول ہونے کی۔
خاتم الانبیاء ﷺ کو جو چند خصوصیات حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مال غنیمت آپ کی امت کے لئے حلال کردیا گیا۔ (کما فی حدیث مسلم) اور حلال بھی ایسا کہ اس کو اطیب الاموال کہا جاتا ہے یعنی سب سے زیادہ پاک مال۔ وجہ یہ ہے کہ جو مال انسان اپنے کسب اور کمائی سے حاصل کرتا ہے اس میں انسانوں کی ملکیت سے واسطہ در واسطہ منتقل ہو کر ایک مال اس کی ملکیت میں آیا ہے اور ان واسطوں میں حرام و ناجائز یا مکروہ طریقوں کا احتمال رہتا ہے بخلاف مال غنیمت کے کہ کفار کی ملکیت ان سے ختم ہو کر براہ راست حق تعالیٰ کی ملکیت رہ گئی اور اب جس کو ملتا ہے براہ راست حق تعالیٰ کی ملکیت سے ملتا ہے جس میں کوئی شبہ اور شائبہ حرمت یا کراہت کا نہیں رہتا جیسے کنویں سے نکالا ہوا پانی یا خودرو گھاس جو براہ راست حق تعالیٰ کا انعام انسان کو ملتا ہے کوئی انسانی واسطہ درمیان میں نہیں ہوتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال غنیمت جو پچھلی امتوں کے لئے حلال نہیں تھا امت مرحومہ کے لئے بطور انعام حلال کردیا گیا۔ آیت مذکورہ میں اس کی تقسیم کا ضابطہ اس عنوان سے بیان فرمایا گیا ہے کہ (آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ۔ اس میں عربی لغت کے قاعدہ سے اول تو لفظ مَا عموم پر دلالت کرتا ہے پھر اس عموم کی تاکید مزید کے لئے لفظ مّنْ شَيْءٍ بڑھایا گیا جس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ چھوٹی بڑی چیز مال غنیمت میں حاصل ہو وہ سب اسی قانون کے تحت داخل ہے کسی چیز کو معمولی یا چھوٹا سمجھ کر کوئی شخص قانون تقسیم کے علاوہ اگر لے لے گا تو وہ سخت مجرم قرار پائے گا۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک سوئی اور اس کا دھاگہ بھی جو مال غنیمت کا جز ہو کسی کے لئے اس کا بغیر اپنے حصہ شرعی کے لے لینا جائز نہیں۔ اور مال غنیمت میں سے کوئی چیز بغیر حصہ کے لینے کو حدیث میں غلول فرما کر اس پر شدید وعید فرمائی ہے اور عام چوری سے زیادہ شدید حرام قرار دیا ہے۔
ضابطہ تقسیم کا یہ عنوان دے کر تمام مجاہد مسلمانوں کو اس سے باخبر کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال تمہارے لئے حلال کردیا ہے مگر ایک خاص ضابطہ کے تحت حلال ہے اس کے خلاف اگر کوئی لے گا تو وہ جہنم کا ایک انگارہ ہوگا۔
قرآنی قانون کا یہی وہ امتیاز ہے جو دنیا کے دوسرے قوانین کو حاصل نہیں اور یہی قانون قرآن کی تاثیر کامل اور کامیابی کا اصلی راز ہے کہ اول خوف خدا و آخرت کو پیش نظر کر کے اس سے ڈرایا گیا دوسرے نمبر میں تعزیری سزائیں بھی جاری کی گئیں۔
ورنہ غور کا مقام ہے کہ عین میدان جنگ کی افراتفری کے وقت جو اموال غیر مسلموں کے قبضہ سے حاصل کئے جائیں جن کی تفصیل نہ پہلے سے مسلمانوں کے امیر کے علم میں ہے نہ کسی دوسرے کے۔ اور موقع میدان جنگ کا ہے جو عموما جنگل اور صحراء ہوتے ہیں جن میں چھپنے چھپانے کے ہزاروں مواقع ہوتے ہیں۔ نرے قانون کے زور سے ان اموال کی حفاظت کسی کے بس میں نہیں صرف خوف خدا و آخرت ہی وہ چیز تھی جس نے ایک ایک مسلمان کو ان اموال میں ادنی تصرف کرنے سے باز رکھا۔
اب اس ضابطہ تقسیم کو دیکھئے ارشاد فرمایا (آیت) فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۔ یعنی مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کا اور اس کے رسول کا اور اس کے رشتہ داروں کا اور یتیموں، مسکینوں، مسافروں کا ہے۔
یہاں پہلے تو یہ بات غور طلب ہے کہ ضابطہ پورے مال غنیمت کی تقسیم کا بیان ہورہا ہے مگر قرآن نے صرف اس کے پانچویں حصے کی تقسیم کا ضابطہ یہاں ذکر فرمایا باقی چار حصوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس میں کیا راز ہے اور باقی چار حصوں کی تقسیم کا کیا قانون ہے۔ لیکن قرآن میں غور و تدبر کرنے سے ان دونوں باتوں کا جواب انھیں لفظوں میں یہ نکل آتا ہے کہ قرآن کریم نے جہاد کرنے والے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا مَا غَنِمْتُمْ یعنی جو کچھ تم نے غنیمت میں حاصل کیا۔ اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ مال ان حاصل کرنے والوں کا حق ہے اور اس کے بعد جب یہ ارشاد فرما دیا کہ اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول وغیرہ کا ہے تو اس کا نتیجہ صاف یہ نکل آیا کہ باقی چار حصے غانمین اور مجاہدین کے ہیں۔ جیسے قرآن کریم کے قانون وراثت میں ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ۔ یعنی جب کسی شخص کے وارث اس کے ماں باپ ہوں تو ماں کا تیسرا حصہ ہے۔ یہاں بھی صرف ماں کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ باقی دو حصے باپ کا حق ہیں۔ اسی طرح مَا غَنِمْتُمْ کے بعد جب صرف پانچویں حصہ کو اللہ کے لئے رکھا گیا تو معلوم ہوا کہ باقی چار حصے مجاہدین کا حق ہیں پھر رسول کریم ﷺ کے بیان اور عمل نے اس کے اور اس کی پوری تفصیلات کو واضح کردیا کہ یہ چار حصے مجاہدین میں ایک خاص قانون کے تحت تقسیم فرمائے۔
اب اس پانچویں حصہ کی تفصیل سنئے جس کو قرآن کریم نے اس آیت میں متعین فرما دیا ہے الفاظ قرآنی میں اس جگہ چھ الفاظ مذکورہ میں لِلّٰهِ۔ لِلرَّسُوْلِ۔ لِذِي الْقُرْبٰي۔ الْيَتٰمٰي۔ الْمَسٰكِيْنِ ، ابْنِ السَّبِيْلِ۔
اس میں لفظ للہ تو ایک جلی عنوان ہے ان مصارف کا جن میں یہ پا نچواں حصہ تقسیم ہوگا یعنی یہ سب مصارف خالص اللہ کے لئے ہیں۔ اور اس لفظ کے اس جگہ لانے میں ایک خاص حکمت ہے جس کی طرف تفسیر مظہری میں اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے خاندان کے لئے صدقات کا مال حرام قرار دیا گیا ہے کہ وہ آپ کے شایان شان نہیں کیونکہ عام لوگوں کے اموال کو پاک کرنے کے لئے ان میں سے نکالا ہوا حصہ ہے جس کو حدیث میں اوساخ الناس فرمایا ہے یعنی لوگوں کا میل کچیل۔ وہ شان نبوت کے لائق نہیں۔
مال غنیمت کے پانچویں حصہ میں سے چونکہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے خاندان کو بھی قرآن کی اس آیت نے حصہ دیا ہے اس لئے اس پر متنبہ کیا گیا کہ یہ حصہ لوگوں کی ملیکت سے منتقل ہو کر نہیں آیا بلکہ بلاواسطہ اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہے۔ جسیا کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ مال غنیمت کفار کی ملک سے نکل کر براہ راست حق تعالیٰ کی خالص ملکیت ہوجاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام تقسیم ہوتا ہے۔ اس لئے اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہ رسول اللہ ﷺ اور ذوی القربی کو جو حصہ مال غنیمت کے خمس سے دیا گیا ہے وہ لوگوں کے صدقات کا نہیں بلکہ براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے فضل و انعام ہے۔ شروع آیت میں فرمایا گیا لِلّٰهِ یعنی یہ سب مال اصل میں خالص ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے اسی کے فرمان کے مطابق مذکورہ مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔
اس لئے اس خمس کے اصلی مصارف پانچ رہ گئے رسول۔ ذوی القربی، یتیم۔ مسکین، مسافر۔ پھر ان میں استحقاق کے درجے مختلف ہیں۔ قرآن کریم کی بلاغت دیکھئے کہ ان درجات استحقاق کا فرق کس باریک اور لطیف انداز سے ظاہر فرمایا گیا ہے کہ ان پانچ میں سے پہلے دو پر حرف لام لایا گیا للرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي۔ اور باقی تین قسموں کو بغیر حرف لام کے باہم معطوف بنا کر ذکر کردیا گیا۔
حرف لام عربی زبان میں کسی خصوصیت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ للہ میں حرف لام اختصاص ملکیت کے بیان کے لئے ہے کہ اصل مالک سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ ہے اور لفظ للرَّسُوْلِ میں استحقاق کی خصوصیت کا بیان مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خمس غنیمت کے صرف کرنے اور تقسیم کرنے کا حق رسول کریم ﷺ کو عطا فرمایا جس کا حاصل امام طحاوی کی تحقیق اور تفسیر مظہری کی تقریر کے مطابق یہ ہے کہ اگرچہ اس جگہ خمس کے مصارف میں پانچ ناموں کا ذکر ہے لیکن درحقیقت اس میں پورا تصرف نبی کریم ﷺ کو حاصل ہے کہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان پانچ قسموں میں خمس غنیمت کو صرف فرمائیں جیسا کہ سورة انفال کی پہلی آیت میں پورے مال غنیمت کا حکم یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہیں صرف فرمائیں جس کو چاہیں دیں۔ (آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ نے کل مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار کو مجاہدین کا حق قرار دے دیا مگر پانچواں حصہ بدستور اسی حکم میں رہا کہ اس کا صرف کرنا رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر چھوڑا گیا صرف اتنی بات کا اضافہ ہوا کہ اس پانچویں حصے کے پانچ مصارف بیان کردیئے گئے کہ یہ ان میں دائر رہے گا۔ مگر جمہور ائمہ اہل تحقیق کے نزدیک آپ کے ذمہ یہ لازم نہیں تھا کہ اس خمس کے پانچ حصہ برابر کریں اور مندرجہ آیت پانچوں قسموں میں برابر تقسیم کریں بلکہ صرف اتنا ضروری تھا کہ خمس غنیمت کو انھیں پانچ قسموں کے اندر سب کو یا بعض کو اپنی صوابدید کے مطابق عطا فرمائیں۔
اس کی سب سے بڑی واضح دلیل خود اس آیت کے الفاظ اور ان میں بیان کی ہوئی مصارف کی قسمیں ہیں کہ یہ سب قسمیں عملاً الگ الگ نہیں بلکہ باہم مشترک بھی ہوسکتی ہیں مثلا جو شخص ذوی القربی میں داخل ہے وہ یتیم بھی ہوسکتا ہے مسکین اور مسافر بھی۔ اسی طرح مسکین اور مسافر یتیم بھی ہوسکتے ہیں ذوی القربی بھی۔ جو مسکین ہے وہ مسافر کی فہرست میں بھی آسکتا ہے اگر ان سب قسموں میں الگ الگ برابر تقسیم کرانا مقصود ہوتا تو یہ قسمیں ایسی ہونا چاہئے تھیں کہ ایک قسم کا آدمی دوسری قسم میں داخل نہ ہو۔ ورنہ پھر یہ لازم آئے گا کہ جو ذوی القربی میں سے ہے اور وہ یتیم بھی ہے مسکین بھی مسافر بھی تو اس کو ہر حیثت سے ایک ایک حصہ ملا کر چار حصے دیئے جائیں جیسا کہ تقسیم فرائض و میراث کا یہی قاعدہ ہے کہ ایک شخص کو میت کے ساتھ مختلف قسم کی قربتیں حاصل ہیں تو ہر قرابت کا حصہ اس کو الگ ملتا ہے اور امت میں اس کا کوئی قائل نہیں کہ ایک شخص کو چار حصے دیئے جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مقصود اس آیت کا آنحضرت ﷺ پر یہ پابندی عائد کرنا نہیں ہے کہ ان سب قسموں کو ضرور ہی دیں اور برابر دیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ خمس غنیمت کا مال ان پانچ قسموں میں سے جس قسم پر جتنا خرچ کرنا آپ کی رائے میں مناسب ہو اتنا دے دیں (تفسیر مظہری)
یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ نے جب اس خمس میں سے ایک خادم کا سوال آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور گھر کے کاموں میں اپنی محنت و مشقت اور کمزوری کا سبب بھی ظاہر کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے یہ عذر فرما کر ان کو دینے سے انکار کردیا کہ میرے سامنے تمہاری ضرورت سے زیادہ اہل صفہ صحابہ کرام کی ضرورت ہے جو انتہائی فقر و افلاس میں مبتلا ہیں ان کو چھوڑ کر میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ (صحیح بخاری و مسلم)
اس سے واضح ہوگیا کہ ہر ایک قسم کا الگ حق نہیں تھا ورنہ ذوی القربی کے حق میں فاطمہ زہرا ؓ سے کون مقدم ہوتا۔ بلکہ یہ سب بیان مصارف ہے بیان استحقاق نہیں۔
تقسیم خمس بعد وفات رسول اللہ ﷺ
جمہور ائمہ کے نزدیک خمس غنیمت میں جو حصہ رسول اللہ ﷺ کا رکھا گیا وہ آپ کے منصب نبوت و رسالت کی بنا پر ایسا ہی تھا جیسے آپ کو خصوصی طور پر یہ بھی حق دیا گیا تھا کہ پورے مال غنیمت میں آپ اپنے لئے کوئی چیز انتخاب کرکے لے لیں جس کی وجہ سے بعض غنیمتوں سے آنحضرت ﷺ نے بعض اشیاء لی بھی تھیں۔ اور خمس غنیمت میں سے آپ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ ادا فرماتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد حصہ خود بخود ختم ہوگیا کیونکہ آپ کے بعد کوئی رسول و نبی نہیں۔
خمس ذوی القربی
اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ فقراء ذوی القربی کا حق خمس غنیمت میں دوسرے مصارف یعنی یتیم، مسکین، مسافر سے مقدم ہے، کیونکہ فقراء ذوی القربی کی امداد زکوة و صدقات سے نہیں ہو سکتی دوسرے مصارف زکوة و صدقات سے بھی ہوسکتے ہیں (کما صرح بہ فی الہدایہ و یقدمون) البتہ اغنیاء ذوی القربی کو اس میں سے دیا جائے گا یا نہیں۔ اس میں امام اعظم ابوحنیفہ کا فرمانا یہ ہے کہ خود آنحضرت ﷺ بھی ذوی القربی کو عطا فرماتے تھے تو اس کی دو بنیادیں تھیں ایک ان کی حاجتمندی اور فقر دوسرے اقامت دین اور دفاع عن الاسلام میں رسول اللہ ﷺ کی نصرت و امداد۔ دوسرا سبب تو وفات نبوی کے ساتھ ختم ہوگیا صرف پہلا سبب فقر و حاجتمندی رہ گیا اس کی بنا پر تا قیامت ہر امام و امیر ان کو دوسروں سے مقدم رکھے گا (ہدایہ۔ جصاص) امام شافعی سے بھی یہی قول منقول ہے (قرطبی)
اور بعض فقہاء کے نزدیک سہم ذوی القربی بحیثیت قرابت رسول اللہ ﷺ ہمیشہ کے لئے باقی ہے جس میں اغنیاء اور فقراء سب شریک ہیں البتہ امیر وقت اپنی صوابدید کے مطابق ان کو حصہ دے گا (مظہری)
اور اصل چیز اس معاملہ میں خلفاء راشدین کا تعامل ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد کیا کیا۔ صاحب ہدایہ نے اس کے متعلق لکھا ہے
ان الخلفاء الاربعة الراشدین قسموہ علی ثلثة اسھم۔ " چاروں خلفاء راشدین نے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد خمس غنیمت کو صرف تین قسموں میں تقسیم فرمایا ہے " یتیم، مسکین، فقیر۔ البتہ حضرت فاروق اعظم سے ثابت ہے کہ فقراء ذوی القربی کو خمس غنیمت سے دیا کرتے تھے (اخرجہ ابوداؤد) اور ظاہر ہے کہ یہ تخصیص صرف فاروق اعظم کی نہیں دوسرے خلفاء کا بھی یہی عمل ہوگا۔
اور جن روایات سے یہ ثابت ہے کہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم اپنے آخری زمانہ خلافت تک ذوی القربی کا حق نکالتے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس کا متولی بنا کر ذوی القربی میں تقسیم کراتے تھے (کما فی روایۃ کتاب الخراج لابی یوسف) تو یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ وہ تقسیم فقراء ذوی القربی کے لئے مخصوص ہو۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
فائدہ
ذوی القربی کی تعیین خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے اس طرح فرما دی کہ بنو ہاشم تو آپ کا اپنا قبیلہ ہی تھا بنو المطلب کو بھی ان کے ساتھ اس لئے شامل فرما لیا تھا کہ یہ لوگ بھی جاہلیت و اسلام میں کبھی بنو ہاشم سے الگ نہیں ہوئے یہاں تک کہ قریش مکہ نے جب غذائی مقاطعہ بنو ہاشم کا کیا اور ان کو شعب ابی طالب میں بند کردیا تو بنو المطلب کو اگرچہ قریش نے مقاطعہ میں داخل نہیں کیا تھا مگر یہ لوگ اپنی رضا مندی سے مقاطعہ میں شریک ہوگئے (مظہری)
غزوہ بدر کے دن کو یوم الفرقان فرمایا گیا
آیت مذکورہ میں بدر کے دن کو یوم الفرقان فرمایا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ سب سے پہلے مادی اور ظاہری طور پر مسلمانوں کی واضح فتح اور کفار کی عبرتناک شکست اس دن میں ہونے کی بنا پر کفر و اسلام کا ظاہری فیصلہ بھی اس دن ہوگیا۔
Top