Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Maryam : 51
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ
: جب
اَنْتُمْ
: تم
بِالْعُدْوَةِ
: کنارہ پر
الدُّنْيَا
: ادھر والا
وَهُمْ
: اور وہ
بِالْعُدْوَةِ
: کنارہ پر
الْقُصْوٰي
: پرلا
وَالرَّكْبُ
: اور قافلہ
اَسْفَلَ
: نیچے
مِنْكُمْ
: تم سے
وَلَوْ
: اور اگر
تَوَاعَدْتُّمْ
: تم باہم وعدہ کرتے
لَاخْتَلَفْتُمْ
: البتہ تم اختلاف کرتے
فِي الْمِيْعٰدِ
: وعدہ میں
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
لِّيَقْضِيَ
: تاکہ پورا کردے
اللّٰهُ
: اللہ
اَمْرًا
: جو کام
كَانَ
: تھا
مَفْعُوْلًا
: ہو کر رہنے والا
لِّيَهْلِكَ
: تاکہ ہلاک ہو
مَنْ
: جو
هَلَكَ
: ہلاک ہو
عَنْ
: سے
بَيِّنَةٍ
: دلیل
وَّيَحْيٰي
: اور زندہ رہے
مَنْ
: جس
حَيَّ
: زندہ رہنا ہے
عَنْ
: سے
بَيِّنَةٍ
: دلیل
وَاِنَّ
: اور بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَسَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
جس وقت تم تھے ورلے کنارہ پر اور وہ پرلے کنارہ پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے، اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو نہ پہنچتے وعدہ پر ایک ساتھ لیکن اللہ کو کر ڈالنا تھا ایک کام کو جو مقرر ہوچکا تھا، تاکہ مرے جس کو مرنا ہے قیام حجت کے بعد اور جیوے جس کو جینا ہے قیام حجت کے بعد، اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
خلاصہ تفسیر
یہ وہ وقت تھا کہ جب تم اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے اور وہ لوگ (یعنی کفار) اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے (ادھر والے سے مراد مدینہ سے نزدیک کا موقع اور ادھر والے سے مراد مدینہ سے دور کا موقع) اور وہ قافلہ (قریش کا) تم سے نیچے کی طرف کو (بچا ہوا) تھا (یعنی سمندر کے کنارے کنارے جارہا تھا حاصل یہ کہ پورے جوش کا سامان جمع ہو رہا تھا کہ دونوں آپس میں آمنے سامنے تھے کہ ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر جوش میں آئے ادھر قافلہ رستہ ہی میں تھا جس کی وجہ سے لشکر کفار کو اس کی حمایت کا خیال دلنشین ہوا جس سے اور جوش میں زیادتی ہو غرض وہ ایسا شدید وقت تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تم پر امداد غیبی نازل کی جیسا اوپر ارشاد ہوا ہے (آیت) اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا) اور (وہ تو مصلحت یہ ہوئی کہ اتفاقا مقابلہ ہوگیا ورنہ) اگر (پہلے سے حسب معمول و عادت) تم اور وہ (لڑائی کے لئے) کوئی بات ٹھہراتے (کہ فلاں وقت لڑیں گے) تو (مقتضا حالت موجودہ کا یہ تھا کہ) ضرور اس تقرر کے بارے میں تم میں اختلاف ہوتا (یعنی خواہ صرف مسلمانوں میں باہم کہ بوجہ بےسرو سامانی کے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا اور خواہ کفار کے ساتھ اختلاف ہوتا جس کی وجہ اس طرف بےسرو سامانی اور اس طرف مسلمانوں کا رعب بہرحال دونوں طرح اس جنگ کی نوبت نہ آتی پس اس میں جو فوائد ہوئے وہ ظہور میں نہ آتے جن کا بیان لِّيَهْلِكَ میں آتا ہے) لیکن (اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کردیا کہ اس کی نوبت نہیں آئی بلا قصد لڑائی ٹھن گئی) تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے یعنی تاکہ (حق کا نشان ظاہر ہوجائے اور) جس کو برباد (یعنی گمراہ) ہونا ہے وہ نشان آئے پیچھے برباد ہو اور جس کو زندہ (یعنی ہدایت یافتہ) ہونا ہے وہ (بھی) نشان آئے پیچھے زندہ ہو (مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا لڑائی ہونا تاکہ ایک خاص طریق سے اسلام کا حق ہونا ظاہر ہوجائے کہ اس قلت عدد و کم سامانی پر مسلمان غالب آئے جو کہ خارق عادت ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسلام حق ہے پس اس سے حجت الہیہ تام ہوگئی اس کے بعد جو گمراہ ہوگا وہ وضوح حق کے بعد ہوگا کہ جس میں عذاب کا پورا استحقاق ہوگیا اور عذر کی گنجائش ہی نہ رہی اسی طرح جس کو ہدایت ہونا ہوگا وہ حق قبول کرلے گا۔ خلاصہ حکمت کا یہ ہوا کہ حق واضح ہوجائے) اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں (کہ اس وضوح کے بعد زبان اور قلب سے کون کفر کرتا ہے اور کون ایمان لاتا ہے اور) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے خواب میں آپ کو وہ لوگ کم دکھلائے (چناچہ آپ نے صحابہ کو اس خواب کی خبر کی ان کے دل خوب قوی ہوگئے) اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو وہ لوگ زیادہ کرکے دکھا دیتے (اور آپ صحابہ سے فرما دیتے) تو (اے صحابہ) تمہاری ہمتیں ہار جاتیں اور اس امر (قتال) میں تم میں باہم نزاع (اور اختلاف) ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے (اس کم ہمتی اور اختلاف سے تم کو بچا لیا بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے (اس کو معلوم تھا کہ اس طرح ضعف پیدا ہوگا اس طرح قوت، اس لئے ایسی تدبیر کی) اور (صرف خواب ہی میں آپ کو کم دکھلانے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تتمیم حکمت کے لئے بیداری میں مقابلہ کے وقت مسلمانوں کی نظر میں بھی کفار کم دکھلائی دیئے جیسا کہ بالعکس بھی ہوا جو کہ واقع کے مطابق بھی تھا چناچہ فرماتے ہیں کہ) اس وقت کو یاد کرو جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہے تھے اور (اسی طرح) ان کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہے تھے تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے (جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ الخ) اور سب مقدمے خدا ہی کی طرف رجوع کئے جائیں گے (وہ ہالک اور حی یعنی گمراہ اور مہتد کو سزا و جزا دیں گے)۔
معارف و مسائل
غزوہ بدر کفر و اسلام کا وہ پہلا معرکہ تھا جس نے ظاہری اور مادی طور پر بھی اسلام کی برتری اور حقانیت کا ثبوت دیا اس لئے قرآن کریم نے اس کی تفصیلات بیان کرنے کا خاص اہتمام فرمایا۔ آیات متذکرہ میں اسی کا بیان ہے۔ جس کے ذکر میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے علاوہ ایک خاص مصلحت اس کا اظہار ہے کہ اس معرکہ میں ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کے فتح پانے کا کوئی امکان نہ تھا اور مشرکین مکہ کی شکست کا کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی قوت نے سارے ساز و سامان اور ظاہری اسباب کی کایا پلٹ دی۔ اسی واقعہ کی وضاحت کے لئے ان آیات میں غزوہ بدر کے محاذجنگ کا پورا نقشہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے ان آیات کی تشریح سے پہلے چند الفاظ و لغات کی تشریح دیکھ لیجئے۔
عُدْوَةِ کے یعنی ایک جانب کے آتے ہیں اور لفظ دُّنْيَا ادنی سے بنا ہے جس کے معنی ہیں قریب تر۔ آخرت کے مقابلہ میں اس جہان کو بھی دنیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم آخرت کی نسبت انسان کی طرف قریب تر ہے۔ اور لفظ قُصْوٰي اقصی سے بنا ہے اقصی کے معنی ہیں بعید تر۔
بیالیسویں آیت میں ہلاکت اور اس کے مقابلہ میں حیات کا ذکر آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں سے موت وحیات کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ معنوی موت وحیات یا ہلاکت و نجات مراد ہے۔ معنوی حیات اسلام و ایمان ہے اور موت شرک و کفر۔ قرآن کریم نے کئی جگہ یہ الفاظ اس معنی میں استعمال کئے۔ ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ، یعنی اے ایمان والو تم کہا مانو اللہ و رسول کا جب تم کو وہ ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات ہے۔ مراد حیات سے وہ حقیقی حیات اور دائمی راحت ہے جو ایمان و اسلام کے صلہ میں ملتی ہے۔ اب آیات کی تفسیر یہ ہوئی کہ
بیالیسویں آیت میں غزوہ بدر کے محاذ جنگ کا نقشہ یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان عُدْوَةِ دُّنْيَا کے پاس تھے اور کفار عُدْوَةِ قُصْوٰي کے پاس مسلمانوں کا مقام اس میدان کے اس کنارہ پر تھا جو مدینہ سے قریب تھا اور کفار میدان کے دوسرے کنارے پر تھے جو مدینہ سے بعید تھا۔ اور ابو سفیان کے تجارتی قافلہ جس کی وجہ سے یہ جہاد کھڑا کیا گیا تھا وہ بھی مکہ سے آنے والے لشکر کفار سے قریب اور مسلمانوں کی زد سے باہر تین میل کے فاصلہ پر سمندر کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ اس نقشہ جنگ کے بیان سے مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنگی اعتبار سے مسلمان بالکل بےموقع غلط جگہ ٹھہرے تھے جہاں سے دشمن پر قابو پانے کا بلکہ اپنی جان بچانے کا بھی کوئی امکان ظاہری اعتبار سے نہ تھا۔ کیونکہ اس میدان کی وہ جانب جو مدینہ سے قریب تھی ایک ریتیلی زمین تھی جس میں چلنا بھی دو بھر تھا۔ پھر پانی کی کوئی جگہ ان کے پاس نہ تھی۔ اور مدینہ سے بعید والی جانب جس پر کفار نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا وہ صاف زمین تھی اور پانی بھی وہاں سے قریب تھا۔
اور اس میدان کے دونوں کناروں کا پتہ دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ دونوں لشکر باکل آمنے سامنے تھے کہ کسی کی طاقت یا ضعف دوسرے سے مخفی نہ رہ سکتا۔ نیز یہ بھی بتلا دیا کہ مشرکین مکہ کے لشکر کو یہ بھی اطمینان حاصل تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے نکل چکا ہے اب اگر ہمیں ضرورت پڑے تو وہ بھی ہماری امداد کرسکتا ہے۔ اس کے بالمقابل مسلمان اپنی جگہ کے اعتبار سے بھی تکلیف و پریشانی میں تھے اور کہیں سے کمک ملنے کا بھی کوئی احتمال نہ تھا۔ اور یہ بات پہلے سے متعین اور ہر لکھے پڑھے آدمی کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ سواریوں کی تعداد کافی تھی اور نہ اسلحہ کی۔ اس کے بالمقابل لشکر کفار ان سب چیزوں سے آراستہ تھا۔
نہ مسلمان اس جہاد میں کسی مسلح لشکر سے جنگ کی تیاری کرکے نکلے تھے۔ ہنگامی طور پر ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے اور دشمن کی قوت کو پست کرنے کے خیال سے صرف تین سو تیرہ مسلمان بےسامانی کے عالم میں نکل کھڑے ہوئے تھے اچانک غیر ارادی طور پر ایک ہزار جوانوں کے مسلح لشکر سے مقابلہ پڑگیا۔ قرآن کی اس آیت نے بتلایا کہ لوگوں کی نظر میں یہ واقعہ اگرچہ ایک اتفاقی حادثہ کی سورت میں بلا ارادہ پیش آیا۔ لیکن دنیا میں جتنے اتفاقات غیر اختیاری صورت سے پیش آیا کرتے ہیں ان کی سطح اور صورت اگرچہ محض اتفاقات کی ہوتی ہے لیکن خالق کائنات کی نظر میں وہ سب کے سب ایک مستحکم نظام کی لگی بندھی کڑیاں ہوتی ہیں ان میں کوئی چیز بےربط یا بےموقع نہیں ہوتی۔ جب وہ پورا انظام سامنے آجائے اس وقت انسان کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اس اتفاقی واقعہ میں کیا کیا حکمتیں مستور تھیں۔
غزوہ بدر ہی کے واقعہ کو لے لیجئے اس کی اتفاقی اور غیر اختیاری صورت سے ظاہر ہونے میں یہ مصلحت تھی کہ (آیت) وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ، یعنی اگر عام دنیا کی جنگوں کی طرف یہ جنگ بھی تمام پہلوؤں پر غور و فکر اور باہمی قراردادوں کے ذریعہ لڑی جاتی تو حالات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ جنگ ہوتی ہی نہیں بلکہ اس میں اختلاف پڑجاتا خواہ اس طرح کہ خود مسلمانوں کی رائے اپنی قلت و کمزوری اور مقابل کی کثرت و قوت کو دیکھ کر مختلف ہوجاتی یا اس طرح کہ دونوں فریق اہل کفر و اہل اسلام مقررہ وعدہ پر میدان میں نہ پہنچتے۔ مسلمان تو اپنی قلت و کمزوری کو دیکھ کر اقدام کی ہمت نہ کرتے اور کفار پر حق تعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب جمایا ہوا تھا وہ کثرت و قوت کے باوجود مقابلہ پر آنے سے گھبراتے۔
اس لئے قدرت کے مستحکم نظام نے دونوں طرف ایسے حالات پیدا کردیئے کہ زیادہ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملے۔ مکہ والوں کو تو ابوسفیان کے قافلہ کی گھبرائی ہوئی فریاد نے ایک ہولناک صورت میں سامنے آکر بےسوچے سمجھے چلنے پر آمادہ کردیا۔ مسلمانوں کو اس خیال نے کہ ہمارے مقابلہ پر کوئی جنگی مسلح لشکر نہیں۔ ایک معمولی تجارتی قافلہ ہے۔ مگر علیم وخبیر کو منظور یہ تھا کہ دونوں میں باقاعدہ جنگ ہوجائے تاکہ اس جنگ کے پیچھے جو نتائج فتح اسلام کے ظہور میں آنے والے ہیں وہ سامنے آجائیں۔ اسی لئے فرمایا (آیت) وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا، یعنی ان حالات کے باوجود جنگ اس لئے ہو کر رہی کہ اللہ تعالیٰ کو جو کام کرنا ہے اس کی تکمیل کر دکھائے۔ اور وہ یہ تھا کہ ایک ہزار جوانوں کے مسلح باسامان لشکر کے مقابلہ میں تین سو تیرہ بےسرو سامان فاقہ زدہ مسلمانوں کی ایک ٹولی اور وہ بھی محاذجنگ کے اعتبار سے بےموقع جب اس پہاڑ سے ٹکراتی ہے تو یہ پہاڑ پاش پاش ہوجاتا ہے اور یہ چھوٹی سی جماعت فتح مند ہوتی ہے جو کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہے کہ اس جماعت کی پیٹھ پر کوئی بڑی قدرت اور طاقت کام کر رہی تھی جس سے یہ ایک ہزار کا لشکر محروم تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی تائید اسلام کی وجہ سے اور اس کی محرومی کفر کی وجہ سے تھی۔ جس سے حق و باطل اور کھرے کھوٹے کا پورا امتیاز ہر سمجھدار انسان کے سامنے آگیا۔ اسی لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ (آیت) لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ۔ یعنی واقعہ بدر میں اسلام کی کھلی حقانیت اور کفر و شرک کے باطل و مردود ہونے کو اس لئے کھول دیا گیا کہ آئندہ جو ہلاکت میں پڑے وہ دیکھ بھال کر پڑے اور جو زندہ رہے وہ بھی دیکھ بھال کر رہے۔ اندھیرے اور مغالطہ میں کوئی کام نہ ہو۔
اس آیت کے الفاظ میں ہلاکت سے مراد کفر اور حیات و زندگی سے مراد اسلام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد غلط فہمی کا احتمال اور عذر تو ختم ہوگیا اب جو کفر اختیار کرتا ہے وہ دیکھتی آنکھوں ہلاکت کی طرف جارہا ہے اور جو اسلام اختیار کرتا ہے وہ دیکھ بھال کر دائمی زندگی اختیار کر رہا ہے پھر فرمایا (آیت) وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، یعنی اللہ تعالیٰ خوب سننے والے جاننے والے ہیں کہ سب کے دلوں میں چپھے ہوئے کفر و ایمان تک ان کے سامنے ہیں اور ہر ایک کی سزا و جزاء بھی۔
Top