Maarif-ul-Quran - Maryam : 51
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الدُّنْيَا : ادھر والا وَهُمْ : اور وہ بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الْقُصْوٰي : پرلا وَالرَّكْبُ : اور قافلہ اَسْفَلَ : نیچے مِنْكُمْ : تم سے وَلَوْ : اور اگر تَوَاعَدْتُّمْ : تم باہم وعدہ کرتے لَاخْتَلَفْتُمْ : البتہ تم اختلاف کرتے فِي الْمِيْعٰدِ : وعدہ میں وَلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : جو کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہو کر رہنے والا لِّيَهْلِكَ : تاکہ ہلاک ہو مَنْ : جو هَلَكَ : ہلاک ہو عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَّيَحْيٰي : اور زندہ رہے مَنْ : جس حَيَّ : زندہ رہنا ہے عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَسَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جس وقت تم تھے ورلے کنارہ پر اور وہ پرلے کنارہ پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے، اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو نہ پہنچتے وعدہ پر ایک ساتھ لیکن اللہ کو کر ڈالنا تھا ایک کام کو جو مقرر ہوچکا تھا، تاکہ مرے جس کو مرنا ہے قیام حجت کے بعد اور جیوے جس کو جینا ہے قیام حجت کے بعد، اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
خلاصہ تفسیر
یہ وہ وقت تھا کہ جب تم اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے اور وہ لوگ (یعنی کفار) اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے (ادھر والے سے مراد مدینہ سے نزدیک کا موقع اور ادھر والے سے مراد مدینہ سے دور کا موقع) اور وہ قافلہ (قریش کا) تم سے نیچے کی طرف کو (بچا ہوا) تھا (یعنی سمندر کے کنارے کنارے جارہا تھا حاصل یہ کہ پورے جوش کا سامان جمع ہو رہا تھا کہ دونوں آپس میں آمنے سامنے تھے کہ ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر جوش میں آئے ادھر قافلہ رستہ ہی میں تھا جس کی وجہ سے لشکر کفار کو اس کی حمایت کا خیال دلنشین ہوا جس سے اور جوش میں زیادتی ہو غرض وہ ایسا شدید وقت تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تم پر امداد غیبی نازل کی جیسا اوپر ارشاد ہوا ہے (آیت) اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا) اور (وہ تو مصلحت یہ ہوئی کہ اتفاقا مقابلہ ہوگیا ورنہ) اگر (پہلے سے حسب معمول و عادت) تم اور وہ (لڑائی کے لئے) کوئی بات ٹھہراتے (کہ فلاں وقت لڑیں گے) تو (مقتضا حالت موجودہ کا یہ تھا کہ) ضرور اس تقرر کے بارے میں تم میں اختلاف ہوتا (یعنی خواہ صرف مسلمانوں میں باہم کہ بوجہ بےسرو سامانی کے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا اور خواہ کفار کے ساتھ اختلاف ہوتا جس کی وجہ اس طرف بےسرو سامانی اور اس طرف مسلمانوں کا رعب بہرحال دونوں طرح اس جنگ کی نوبت نہ آتی پس اس میں جو فوائد ہوئے وہ ظہور میں نہ آتے جن کا بیان لِّيَهْلِكَ میں آتا ہے) لیکن (اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کردیا کہ اس کی نوبت نہیں آئی بلا قصد لڑائی ٹھن گئی) تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے یعنی تاکہ (حق کا نشان ظاہر ہوجائے اور) جس کو برباد (یعنی گمراہ) ہونا ہے وہ نشان آئے پیچھے برباد ہو اور جس کو زندہ (یعنی ہدایت یافتہ) ہونا ہے وہ (بھی) نشان آئے پیچھے زندہ ہو (مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا لڑائی ہونا تاکہ ایک خاص طریق سے اسلام کا حق ہونا ظاہر ہوجائے کہ اس قلت عدد و کم سامانی پر مسلمان غالب آئے جو کہ خارق عادت ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسلام حق ہے پس اس سے حجت الہیہ تام ہوگئی اس کے بعد جو گمراہ ہوگا وہ وضوح حق کے بعد ہوگا کہ جس میں عذاب کا پورا استحقاق ہوگیا اور عذر کی گنجائش ہی نہ رہی اسی طرح جس کو ہدایت ہونا ہوگا وہ حق قبول کرلے گا۔ خلاصہ حکمت کا یہ ہوا کہ حق واضح ہوجائے) اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں (کہ اس وضوح کے بعد زبان اور قلب سے کون کفر کرتا ہے اور کون ایمان لاتا ہے اور) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے خواب میں آپ کو وہ لوگ کم دکھلائے (چناچہ آپ نے صحابہ کو اس خواب کی خبر کی ان کے دل خوب قوی ہوگئے) اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو وہ لوگ زیادہ کرکے دکھا دیتے (اور آپ صحابہ سے فرما دیتے) تو (اے صحابہ) تمہاری ہمتیں ہار جاتیں اور اس امر (قتال) میں تم میں باہم نزاع (اور اختلاف) ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے (اس کم ہمتی اور اختلاف سے تم کو بچا لیا بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے (اس کو معلوم تھا کہ اس طرح ضعف پیدا ہوگا اس طرح قوت، اس لئے ایسی تدبیر کی) اور (صرف خواب ہی میں آپ کو کم دکھلانے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تتمیم حکمت کے لئے بیداری میں مقابلہ کے وقت مسلمانوں کی نظر میں بھی کفار کم دکھلائی دیئے جیسا کہ بالعکس بھی ہوا جو کہ واقع کے مطابق بھی تھا چناچہ فرماتے ہیں کہ) اس وقت کو یاد کرو جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہے تھے اور (اسی طرح) ان کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہے تھے تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے (جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ الخ) اور سب مقدمے خدا ہی کی طرف رجوع کئے جائیں گے (وہ ہالک اور حی یعنی گمراہ اور مہتد کو سزا و جزا دیں گے)۔

معارف و مسائل
غزوہ بدر کفر و اسلام کا وہ پہلا معرکہ تھا جس نے ظاہری اور مادی طور پر بھی اسلام کی برتری اور حقانیت کا ثبوت دیا اس لئے قرآن کریم نے اس کی تفصیلات بیان کرنے کا خاص اہتمام فرمایا۔ آیات متذکرہ میں اسی کا بیان ہے۔ جس کے ذکر میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے علاوہ ایک خاص مصلحت اس کا اظہار ہے کہ اس معرکہ میں ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کے فتح پانے کا کوئی امکان نہ تھا اور مشرکین مکہ کی شکست کا کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی قوت نے سارے ساز و سامان اور ظاہری اسباب کی کایا پلٹ دی۔ اسی واقعہ کی وضاحت کے لئے ان آیات میں غزوہ بدر کے محاذجنگ کا پورا نقشہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے ان آیات کی تشریح سے پہلے چند الفاظ و لغات کی تشریح دیکھ لیجئے۔
عُدْوَةِ کے یعنی ایک جانب کے آتے ہیں اور لفظ دُّنْيَا ادنی سے بنا ہے جس کے معنی ہیں قریب تر۔ آخرت کے مقابلہ میں اس جہان کو بھی دنیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم آخرت کی نسبت انسان کی طرف قریب تر ہے۔ اور لفظ قُصْوٰي اقصی سے بنا ہے اقصی کے معنی ہیں بعید تر۔
بیالیسویں آیت میں ہلاکت اور اس کے مقابلہ میں حیات کا ذکر آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں سے موت وحیات کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ معنوی موت وحیات یا ہلاکت و نجات مراد ہے۔ معنوی حیات اسلام و ایمان ہے اور موت شرک و کفر۔ قرآن کریم نے کئی جگہ یہ الفاظ اس معنی میں استعمال کئے۔ ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ، یعنی اے ایمان والو تم کہا مانو اللہ و رسول کا جب تم کو وہ ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات ہے۔ مراد حیات سے وہ حقیقی حیات اور دائمی راحت ہے جو ایمان و اسلام کے صلہ میں ملتی ہے۔ اب آیات کی تفسیر یہ ہوئی کہ
بیالیسویں آیت میں غزوہ بدر کے محاذ جنگ کا نقشہ یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان عُدْوَةِ دُّنْيَا کے پاس تھے اور کفار عُدْوَةِ قُصْوٰي کے پاس مسلمانوں کا مقام اس میدان کے اس کنارہ پر تھا جو مدینہ سے قریب تھا اور کفار میدان کے دوسرے کنارے پر تھے جو مدینہ سے بعید تھا۔ اور ابو سفیان کے تجارتی قافلہ جس کی وجہ سے یہ جہاد کھڑا کیا گیا تھا وہ بھی مکہ سے آنے والے لشکر کفار سے قریب اور مسلمانوں کی زد سے باہر تین میل کے فاصلہ پر سمندر کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ اس نقشہ جنگ کے بیان سے مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنگی اعتبار سے مسلمان بالکل بےموقع غلط جگہ ٹھہرے تھے جہاں سے دشمن پر قابو پانے کا بلکہ اپنی جان بچانے کا بھی کوئی امکان ظاہری اعتبار سے نہ تھا۔ کیونکہ اس میدان کی وہ جانب جو مدینہ سے قریب تھی ایک ریتیلی زمین تھی جس میں چلنا بھی دو بھر تھا۔ پھر پانی کی کوئی جگہ ان کے پاس نہ تھی۔ اور مدینہ سے بعید والی جانب جس پر کفار نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا وہ صاف زمین تھی اور پانی بھی وہاں سے قریب تھا۔
اور اس میدان کے دونوں کناروں کا پتہ دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ دونوں لشکر باکل آمنے سامنے تھے کہ کسی کی طاقت یا ضعف دوسرے سے مخفی نہ رہ سکتا۔ نیز یہ بھی بتلا دیا کہ مشرکین مکہ کے لشکر کو یہ بھی اطمینان حاصل تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے نکل چکا ہے اب اگر ہمیں ضرورت پڑے تو وہ بھی ہماری امداد کرسکتا ہے۔ اس کے بالمقابل مسلمان اپنی جگہ کے اعتبار سے بھی تکلیف و پریشانی میں تھے اور کہیں سے کمک ملنے کا بھی کوئی احتمال نہ تھا۔ اور یہ بات پہلے سے متعین اور ہر لکھے پڑھے آدمی کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ سواریوں کی تعداد کافی تھی اور نہ اسلحہ کی۔ اس کے بالمقابل لشکر کفار ان سب چیزوں سے آراستہ تھا۔
نہ مسلمان اس جہاد میں کسی مسلح لشکر سے جنگ کی تیاری کرکے نکلے تھے۔ ہنگامی طور پر ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے اور دشمن کی قوت کو پست کرنے کے خیال سے صرف تین سو تیرہ مسلمان بےسامانی کے عالم میں نکل کھڑے ہوئے تھے اچانک غیر ارادی طور پر ایک ہزار جوانوں کے مسلح لشکر سے مقابلہ پڑگیا۔ قرآن کی اس آیت نے بتلایا کہ لوگوں کی نظر میں یہ واقعہ اگرچہ ایک اتفاقی حادثہ کی سورت میں بلا ارادہ پیش آیا۔ لیکن دنیا میں جتنے اتفاقات غیر اختیاری صورت سے پیش آیا کرتے ہیں ان کی سطح اور صورت اگرچہ محض اتفاقات کی ہوتی ہے لیکن خالق کائنات کی نظر میں وہ سب کے سب ایک مستحکم نظام کی لگی بندھی کڑیاں ہوتی ہیں ان میں کوئی چیز بےربط یا بےموقع نہیں ہوتی۔ جب وہ پورا انظام سامنے آجائے اس وقت انسان کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اس اتفاقی واقعہ میں کیا کیا حکمتیں مستور تھیں۔
غزوہ بدر ہی کے واقعہ کو لے لیجئے اس کی اتفاقی اور غیر اختیاری صورت سے ظاہر ہونے میں یہ مصلحت تھی کہ (آیت) وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ، یعنی اگر عام دنیا کی جنگوں کی طرف یہ جنگ بھی تمام پہلوؤں پر غور و فکر اور باہمی قراردادوں کے ذریعہ لڑی جاتی تو حالات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ جنگ ہوتی ہی نہیں بلکہ اس میں اختلاف پڑجاتا خواہ اس طرح کہ خود مسلمانوں کی رائے اپنی قلت و کمزوری اور مقابل کی کثرت و قوت کو دیکھ کر مختلف ہوجاتی یا اس طرح کہ دونوں فریق اہل کفر و اہل اسلام مقررہ وعدہ پر میدان میں نہ پہنچتے۔ مسلمان تو اپنی قلت و کمزوری کو دیکھ کر اقدام کی ہمت نہ کرتے اور کفار پر حق تعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب جمایا ہوا تھا وہ کثرت و قوت کے باوجود مقابلہ پر آنے سے گھبراتے۔
اس لئے قدرت کے مستحکم نظام نے دونوں طرف ایسے حالات پیدا کردیئے کہ زیادہ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملے۔ مکہ والوں کو تو ابوسفیان کے قافلہ کی گھبرائی ہوئی فریاد نے ایک ہولناک صورت میں سامنے آکر بےسوچے سمجھے چلنے پر آمادہ کردیا۔ مسلمانوں کو اس خیال نے کہ ہمارے مقابلہ پر کوئی جنگی مسلح لشکر نہیں۔ ایک معمولی تجارتی قافلہ ہے۔ مگر علیم وخبیر کو منظور یہ تھا کہ دونوں میں باقاعدہ جنگ ہوجائے تاکہ اس جنگ کے پیچھے جو نتائج فتح اسلام کے ظہور میں آنے والے ہیں وہ سامنے آجائیں۔ اسی لئے فرمایا (آیت) وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا، یعنی ان حالات کے باوجود جنگ اس لئے ہو کر رہی کہ اللہ تعالیٰ کو جو کام کرنا ہے اس کی تکمیل کر دکھائے۔ اور وہ یہ تھا کہ ایک ہزار جوانوں کے مسلح باسامان لشکر کے مقابلہ میں تین سو تیرہ بےسرو سامان فاقہ زدہ مسلمانوں کی ایک ٹولی اور وہ بھی محاذجنگ کے اعتبار سے بےموقع جب اس پہاڑ سے ٹکراتی ہے تو یہ پہاڑ پاش پاش ہوجاتا ہے اور یہ چھوٹی سی جماعت فتح مند ہوتی ہے جو کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہے کہ اس جماعت کی پیٹھ پر کوئی بڑی قدرت اور طاقت کام کر رہی تھی جس سے یہ ایک ہزار کا لشکر محروم تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی تائید اسلام کی وجہ سے اور اس کی محرومی کفر کی وجہ سے تھی۔ جس سے حق و باطل اور کھرے کھوٹے کا پورا امتیاز ہر سمجھدار انسان کے سامنے آگیا۔ اسی لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ (آیت) لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ۔ یعنی واقعہ بدر میں اسلام کی کھلی حقانیت اور کفر و شرک کے باطل و مردود ہونے کو اس لئے کھول دیا گیا کہ آئندہ جو ہلاکت میں پڑے وہ دیکھ بھال کر پڑے اور جو زندہ رہے وہ بھی دیکھ بھال کر رہے۔ اندھیرے اور مغالطہ میں کوئی کام نہ ہو۔
اس آیت کے الفاظ میں ہلاکت سے مراد کفر اور حیات و زندگی سے مراد اسلام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد غلط فہمی کا احتمال اور عذر تو ختم ہوگیا اب جو کفر اختیار کرتا ہے وہ دیکھتی آنکھوں ہلاکت کی طرف جارہا ہے اور جو اسلام اختیار کرتا ہے وہ دیکھ بھال کر دائمی زندگی اختیار کر رہا ہے پھر فرمایا (آیت) وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، یعنی اللہ تعالیٰ خوب سننے والے جاننے والے ہیں کہ سب کے دلوں میں چپھے ہوئے کفر و ایمان تک ان کے سامنے ہیں اور ہر ایک کی سزا و جزاء بھی۔
Top