Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 44
وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب يُرِيْكُمُوْهُمْ : وہ تمہیں دکھلائے اِذِ : جب۔ تو الْتَقَيْتُمْ : تم آمنے سامنے ہوئے فِيْٓ : میں اَعْيُنِكُمْ : تمہاری آنکھ قَلِيْلًا : تھوڑا وَّ يُقَلِّلُكُمْ : اور تھوڑے دکھلائے تم فِيْٓ : میں اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں لِيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہوکر رہنے والا وَ : اور اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹنا (بازگشت) الْاُمُوْرُ : کام (جمع)
اور جب تم کو دکھلائی وہ فوج مقابلہ کے وقت تمہاری آنکھوں میں تھوڑی اور تم کو تھوڑا دکھلایا ان کی آنکھوں میں تاکہ کر ڈالے اللہ ایک کام جو مقرر ہوچکا تھا، اور اللہ تک پہنچتا ہے ہر کام۔
آخری آیت میں اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے (آیت) يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی مقابل لشکر کی نظر میں کم کرکے دکھلایا۔ اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں مسلمانوں کی تعداد تو حقیقت ہی میں کم تھی وہ صحیح تعداد ان کو دکھلا دی اور یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جتنی تعداد واقعی تھی اس سے بھی کم کرکے دکھلایا گیا جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ ابوجہل نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان کی تعداد تو اس سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی جن کی خوراک ایک اونٹ ہو۔ عرب میں کسی لشکر کی تعداد معلوم کرنے کے لئے اس سے اندازہ قائم کیا جاتا تھا کہ کتنے جانور ان کی خوراک کے لئے ذبح ہوتے ہیں، ایک اونٹ سو آدمیوں کی خوراک سمجھا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس میدان بدر میں وہاں کے کچھ لوگوں سے قریش مکہ کے لشکر کا بتہ چلانے کے لئے پوچھا تھا کہ ان کے لشکر میں روزانہ کتنے اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں تو آپ کو دس اونٹ روزانہ بتلائے گئے جس سے آپ نے ایک ہزار لشکر کا تخمینہ قائم فرمایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابو جہل کی نظر میں مسلمان کل سو آدمی کی تعداد میں دکھلائے گئے۔ یہاں بھی کم کرکے دکھلانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین کے قلوب پر مسلمانوں کا رعب پہلے ہی نہ چھا جائے جس کی وجہ سے وہ میدان چھوڑ بھاگیں۔
فائدہ
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات معجزہ اور خرق عادت کے طور پر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنکھوں کا مشاہدہ غلط ہوجائے۔ جیسا یہاں ہوا۔ اسی لئے اس جگہ دوبارہ فرمایا (آیت) لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۔ یعنی یہ کرشمہ قدرت اور آنکھوں کے مشاہدات پر تصرف اس لئے ظاہر کیا گیا کہ جو کام اللہ تعالیٰ کرنا چاہتے ہیں وہ پورا ہوجائے۔ یعنی مسلمانوں کو قلت و بےسامانی کے باوجود فتح دے کر اسلام کی حقانیت اور تائید غیبی کا اظہار جو اس جنگ سے مقصود تھا وہ پورا کر دکھائے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ، یعنی آخر کار سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں جو چاہے کرے جو چاہے حکم دے۔ قلت کو کثرت پر قوت کو ضعف پر غلبہ دے دے کم کو زیادہ، زیادہ کو کم کر دے۔ مولانا رومی نے خوب فرمایا
گر تو خواہی عین غم شادی شود عین بند پائے آزادی شود
چوں تو خواہی آتش آب خوش شود در تو خواہی آب ہم آتش شود
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ باحق زندہ اند
Top