Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو جب بھڑو کسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم مراد پاؤ،
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو جب تم کو (کفار کی کسی) جماعت سے (جہاد میں) مقابلہ کا اتفاق ہوا کرے تو (ان آداب کا لحاظ رکھو ایک یہ کہ) ثابت قدم رہو (بھاگو مت) اور (دوسرے یہ کہ) اللہ کا خوب کثرت سے ذکر کرو (کہ ذکر سے قلب میں قوت ہوتی ہے) امید ہے تم (مقابلہ میں) کامیاب ہو (کیونکہ ثبات قدم اور ثبات قلب جب جمع ہوں تو کامیابی غالب ہے) اور (تیسرے یہ کہ تمام امور متعلقہ حرب میں) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت (کا لحاظ) کیا کرو (کہ کوئی کارروائی خلاف شرع نہ ہو) اور (چوتھے یہ کہ اپنے امام سے اور باہم بھی) نزاع مت کرو ورنہ (باہمی نااتفاقی سے) کم ہمت ہوجاؤ گے (کیونکہ قوتیں منتشر ہوجائیں گی ایک کو دوسرے پر وثوق نہ ہوگا اور اکیلا آدمی کیا کرسکتا ہے) اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (ہوا خیزی سے مراد بد رعبی ہے کیونکہ دوسروں کو اس نااتفاقی کی اطلاع ہونے سے یہ امر لازمی ہے) اور (پانچویں یہ کہ اگر کوئی امر ناگواری کا پیش آئے تو اس پر) صبر کرو بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں (اور معیت الہی موجب نصرت ہے) اور (چھٹے یہ کہ نیت خالص رکھو تفاخر اور نمائش میں) ان (کافر) لوگوں کے مشابہ مت ہونا کہ جو (اسی واقعہ بدر میں) اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو (اپنی شان و سامان) دکھلاتے ہوئے نکلے اور (اس فخر و ریا کے ساتھ یہ بھی نیت تھی کہ) لوگوں کو اللہ کے رستہ (یعنی دین) سے روکتے تھے (کیونکہ مسلمانوں کو زک دینے چلے تھے جس کا اثر عام طبائع پر بھی دین سے بعد ہوتا) اور اللہ تعالیٰ (ان لوگوں کو پوری سزا دے گا چناچہ وہ) ان کے اعمال کو (اپنے علم کے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔

معارف و مسائل
جنگ و جہاد میں کامیابی کے لئے قرآنی ہدایات پہلی دو آیتوں میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو میدان جنگ اور مقابلہ دشمن کے لئے ایک خاص ہدایت نامہ دیا ہے جو ان کے لئے دنیا میں کامیابی اور فتح مندی کا اور آخرت کی نجات و فلاح کا نسخہ اکسیر ہے اور قرون اولی کی تمام جنگوں میں مسلمانوں کی فوق العادت کامیابیوں اور فتوحات کا راز اسی میں مضمر ہے۔ اور وہ چند چیزیں ہیں۔ اول ثبات۔ یعنی ثابت رہنا اور جمنا۔ جس میں ثبات قلب اور ثبات قدم دونوں داخل ہیں کیونکہ جب تک کسی شخص کا دل مضبوط اور ثابت نہ ہو اس کا قدم اور اعضاء ثابت نہیں رہ سکتے اور یہ چیز ایسی ہے جس کو ہر مومن و کافر جانتا اور سمجھتا ہے اور دنیا کی ہر قوم اپنی جنگوں میں اس کا اہتمام کرتی ہے۔ کیونکہ اہل تجربہ سے مخفی نہیں کہ میدان جنگ کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ کامیاب ہتھیار ثبات قلب و قدم ہی ہے دوسرے سارے ہتھیار اس کے بغیر بیکار ہیں۔
دوسرے ذکر اللہ یہ وہ مخصوص اور معنوی ہتھیار ہے جس سے مومن کے سوا عام دنیا غافل ہے پوری دنیا جنگ کے لئے بہترین اسلحہ اور نئے سے نیا سامان مہیا کرنے اور فوج کے ثابت قدم رکھنے کی تو پوری تدبیریں کرتی ہے۔ مگر مسلمانوں کے اس روحانی اور معنوی ہتھیار سے بیخبر اور ناآشنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں جہاں مسلمانوں کا مقابلہ ان ہدایات کے مطابق کسی قوم سے ہوا مخالف کی پوری طاقت اور اسلحہ اور سامان کو بیکار کردیا۔ ذکر اللہ کی اپنی ذاتی اور معنوی برکات تو اپنی جگہ ہیں ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ثبات قدم کا اس سے بہتر کوئی نسخہ بھی نہیں۔ اللہ کی یاد اور اس پر اعتماد وہ بجلی کی طاقت ہے جو ایک انسان ضعیف کو پہاڑوں سے ٹکرا جانے پر آمادہ کردیتی ہے اور کیسی ہی مصیبت اور پریشانی ہو اللہ کی یاد سب کو ہوا میں اڑا دیتی ہے اور انسان کے قلب کو مضبوط اور قدم کو ثابت رکھتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھئے کہ جنگ و قتال کا وقت عادةً ایسا وقت ہوتا ہے کہ اس میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا اپنی فکر پڑی ہوتی ہے۔ اس لئے جاہلیت عرب کے شعراء میدان جنگ میں بھی اپنے محبوب کو یاد کرنے پر فخر کیا کرتے ہیں کہ وہ بڑی قوت قلت اور محبت کی پختگی کی دلیل ہے ایک جاہلی شاعر نے کہا ہے ذکرتک والخطی یخطر بیننا۔ یعنی میں نے تجھے اس وقت بھی یاد کیا جب کہ نیزے ہمارے درمیان لچک رہے تھے۔
قرآن کریم نے اس پرخطر موقع میں مسلمانوں کو ذکر اللہ کی تلقین فرمائی اور وہ بھی کثیرا کی تاکید کے ساتھ۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پورے قرآن میں ذکر اللہ کے سوا کسی عبادت کو کثرت سے کرنے کا حکم نہیں صلوة کثیرا صیاما کثیرا کہیں مذکورہ نہیں۔ سبب یہ ہے کہ ذکر اللہ ایک ایسی آسان عبادت ہے کہ اس میں نہ کوئی بڑا وقت خرچ ہوتا ہے نہ محنت نہ کسی دوسرے کام میں اس سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس پر مزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ذکر اللہ کے لئے کوئی شرط اور پابندی، وضو، طہارت، لباس اور قبلہ وغیرہ کی بھی نہیں لگائی ہر شخص ہر حال میں باوضو، بےوضو، کھڑے، بیٹھے، لیٹے، کرسکتا ہے اور اس پر اگر امام جزری کی اس تحقیق کا اضافہ کرلیا جائے جو انہوں نے حصن حصین میں لکھی ہے کہ ذکر اللہ صرف زبان یا دل سے ذکر کرنے ہی کو نہیں کہتے بلکہ ہر جائز کام جو اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی اطاعت میں رہ کر کیا جائے وہ بھی ذکر اللہ ہے۔ تو اس تحقیق پر ذکر اللہ کا مفہوم اس قدر عام اور آسان ہوجاتا ہے کہ سوتے ہوئے بھی انسان کو ذکر کہہ سکتے ہیں۔ جیسے بعض روایات میں ہے نوم العالِم عبادة یعنی عالم کی نیند بھی عبادت میں داخل ہے کیونکہ عالم جو اپنے علم کے مقتضی پر عمل کرتا ہو اس کے لئے یہ لازم ہے کہ اس کا سونا اور جاگنا سب اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کے دائرہ میں ہو۔
میدان جنگ میں ذکر اللہ کی کثرت کا حکم اگرچہ بظاہر مجاہدین کے لئے ایک کام کا اضافہ نظر آتا ہے جو عادةً مشقت و محنت کو چاہتا ہے۔ لیکن ذکر اللہ کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ محنت نہیں لیتا بلکہ ایک فرحت و قوت اور لذت بخشتا ہے اور انسان کے کام میں اور معین و مددگار بنتا ہے۔ یوں بھی محنت و مشقت کے کام کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ کوئی کلمہ یا گیت گنگنایا کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو اس کا نعم البدل دے دیا جو ہزاروں فوائد اور حکمتوں پر مبنی ہے اسی لئے آخر آیت میں فرمایا (آیت) لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی اگر تم نے ثبات اور ذکر اللہ کے دو گُر یاد کرلئے اور ان کو میدان جنگ میں استعمال کیا تو فلاح و کامیابی تمہاری ہے۔
میدان جنگ کا ذکر ایک تو وہ ہے جو عام طور پر نعرہ تکبیر کے انداز میں کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ پر نظر اور اعتماد و توکل اور دل سے اس کی یاد۔ لفظ ذکر اللہ ان سب کو شامل ہے۔
Top