Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
وہی ہیں سچے ایمان والے، ان کے لئے درجے ہیں اپنے رب کے پاس اور معافی اور روزی عزت کی۔
مرد مومن کی یہ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤ ْمِنُوْنَ حَقًّا، یعنی ایسے ہی لوگ سچے مومن ہیں جن کا ظاہر و باطن یکساں اور زبان اور دل متفق ہیں ورنہ جن میں یہ صفات نہیں وہ زبان سے تو اشھد ان لآ الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ کہتے ہیں مگر ان کے دلوں میں نہ توحید کا رنگ نہ اطاعت رسول کا۔ ان کے اعمال ان کے اقوال کی تردید کرتے ہیں۔ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر حق کی ایک حقیقت ہوتی ہے جب وہ حاصل نہ ہو حق حاصل نہیں ہوتا۔
ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے ابو سعید کیا آپ مومن ہیں تو آپ نے فرمایا کہ بھائی ایمان دو قسم کے ہیں۔ تمہارے سوال کا مطلب اگر یہ ہے کہ میں اللہ تعالے اور اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں پر اور جنت دوزخ اور قیامت اور حساب کتاب پر ایمان رکھتا ہوں تو جواب یہ ہے کہ بیشک میں مومن ہوں۔ اور اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ مومن کامل ہوں جس کا ذکر سورة انفال کی آیات میں ہے تو مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں ان میں داخل ہوں یا نہیں۔ سورة انفال کی آیات سے وہی آیات مراد ہیں جو ابھی آپ نے سنی ہیں۔
آیات مذکورہ میں سچے مومن کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۔
اس میں سچے مومنین کے لئے تین چیزوں کا وعدہ فرمایا۔ ایک درجات عالیہ دوسرے مغفرت، تیسرے رزق عمدہ۔
تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے پہلی آیات میں سچے مومنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ تین قسم کی ہیں، ایک وہ جن کا تعلق قلب اور باطن کے ساتھ ہے جیسے ایمان۔ خوف خدا۔ توکل علی اللہ، دوسرے وہ جن کا تعلق جسمانی اعمال سے ہے جیسے نماز وغیرہ۔ تیسرے وہ جن کا تعلق انسان کے مال سے ہے جیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔
ان تینوں قسموں کے بالمقابل تین انعاموں کا ذکر آیا ہے۔ درجات عالیہ قلبی اور باطنی صفات کے مقابلہ میں اور مغفرت ان اعمال کے مقابلہ میں جو انسان کے ظاہر بدن سے متعلق ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نماز گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور رزق کریم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بالمقابل آیا ہے کہ جو کچھ خرچ کیا اس سے بہت بہتر اور بہت زیادہ اس کو آخرت میں ملے گا۔
Top