Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
جیسے نکالا تجھ کو تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کام کے واسطے، اور ایک جماعت اہل ایمان کی راضی نہ تھی۔
خلاصہ تفسیر
(مال غنیمت کا لوگوں کی مرضی کے موافق تقسیم نہ ہونا بلکہ منجانب اللہ اس کی تقسیم ہونا اگرچہ بعض لوگوں کو طبعا گراں گزرا ہو مگر مصالح کثیرہ کی وجہ سے یہی خیر اور بہتر ہے۔ اور یہ معاملہ خلاف طبع مگر مصلح کثیرہ کو متضمن ہونے میں ایسا ہی ہے) جیسا آپ کے رب نے آپ کے گھر (اور بستی) سے مصلحت کے ساتھ آپ کو (بدر کی طرف) روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت (اپنی تعداد اور سامان جنگ کی قلت کی وجہ سے طبعا) اس کو گراں سمجھتی تھی وہ اس مصلحت (کے کام) میں (یعنی جہاد اور مقابلہ لشکر کے معاملے میں) بعد اس کے کہ اس کا ظہور ہوچکا تھا (اپنے بچاؤ کے لئے بطور مشورہ کے) آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لئے جاتا ہے اور وہ (موت کو گویا) دیکھ رہے ہیں (مگر آخر کار انجام اس کا بھی اچھا ہوا کہ اسلام غالب اور کفر مغلوب ہوا)۔

معارف و مسائل
شروع سورت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ سورة انفال کے بیشتر مضامین کفار و مشرکین پر عذاب و انتقام اور مسلمانوں پر احسان و انعام کے متعلق ہیں اور اس کے ضمن میں دونوں فریق کے لئے عبرت و نصیحت کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور ان معاملات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم واقعہ غزوہ بدر کا تھا جس میں بڑے ساز و سامان اور تعداد و قوت کے باوجود مشرکین کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ شکست اور مسلمانوں کو باوجود ہر طرح کی قلت اور بےسامانی کے فتح عظیم نصیب ہوئی۔ اس سورت میں واقعہ بدر کا تفصیلی بیان ہے۔ جو آیات مذکورہ سے شروع ہو رہا ہے۔
پہلی آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ بعض مسلمانوں کو بدر کے موقع پر جہاد کے لئے اقدام ناپسند تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فرمان کے ذریعہ اپنے رسول ﷺ کو جہاد کا حکم دیا تو ناپسند کرنے والے بھی ساتھ ہوگئے۔ اس بات کے بیان کرنے کے لئے قرآن کریم نے جو الفاظ اختیار فرمائے ہیں وہ کئی طرح سے قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ آیت کا شروع (آیت) كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ سے ہوتا ہے۔ اس میں لفظ كَمَآ ایک ایسا لفظ ہے جو تشبیہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو غور طلب یہ ہے کہ یہاں تشبیہ کس چیز کی کس چیز سے ہے، حضرات مفسرین نے اس کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں۔ امام تفسیر ابوحیان نے اس طرح کے پندرہ اقوال نقل کئے ان میں زیادہ قرب تین احتمال ہیں۔
اول یہ کہ اس تشبیہ سے مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ جس طرح غزوہ بدر کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت صحابہ کرام کے آپس میں کچھ اختلاف رائے ہوگیا تھا۔ پھر حکم خداوندی کے تحت سب نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کی برکات اور اچھے نتائج کا ظہور سامنے آگیا۔ اسی طرح اس جہاد کے شروع میں کچھ لوگوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار ہوا پھر حکم ربانی کے ماتحت سب نے اطاعت کی اور اس کے مفید نتائج اور اعلی ثمرات کا مشاہدہ ہوگیا۔ یہ توجیہ فراء اور مبرد کی طرف منسوب ہے (بحر محیط) اسی کو بیان القرآن میں ترجیح دی ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکا۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ گذشتہ آیات میں سچے مومنین کے لئے آخرت میں درجات عالیہ اور مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان آیات میں اس وعدہ کے یقینی ہونے کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ آخرت کا وعدہ اگرچہ ابھی آنکھوں کے سامنے نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ نصرت و فتح غزوہ بدر میں آنکھوں کے سامنے آچکا ہے اس سے عبرت پکڑو اور یقین کرو کہ جس طرح یہ وعدہ دنیا ہی میں پورا ہوچکا ہے اسی طرح آخرت کا وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ (تفسیر قرطبی بحوالہ نحاس)
تیسرا احتمال وہ ہے جس کو ابوحیان نے مفسرین کے پندرہ اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مجھے ان میں سے کسی قول پر اطمینان نہیں تھا۔ ایک روز میں اسی آیت پر غور و فکر کرتے ہوئے سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی جگہ جارہا ہوں اور ایک شخص میرے ساتھ ہے میں اسی آیت کے متعلق اس سے بحث کررہا ہوں اور یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے کبھی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جیسی اس آیت کے الفاظ میں پیش آئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی لفظ محذوف ہے۔ پھر یکایک خواب ہی میں میرے دل میں پڑا کہ یہاں لفظ نصرک محذوف ہے اس کو خود میں نے بھی پسند کیا اور جس شخص سے بحث کررہا تھا اس نے بھی پسند کیا۔ بیدار ہونے کے بعد اس پر غور کیا تو میرا اشکال ختم ہوگیا کیونکہ اس صورت میں لفظ کما تشبیہ کے لئے نہیں بلکہ بیان سبب کے لئے استعمال ہوا ہے اور معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ غزوہ بدر میں اللہ جل شانہ کی طرف سے جو خاص نصرت و امداد آپ کی ہوئی اس کا سبب یہ تھا کہ اس جہاد میں آپ نے جو کچھ کیا کسی اپنی خواہش اور رائے سے نہیں بلکہ خالص امر ربی اور حکم خداوندی کے تابع کیا۔ اسی کے حکم پر آپ اپنے گھر سے نکلے۔ اور اطاعت حق کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے اور یہی ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔
بہرحال آیت کے اس جملہ میں یہ تینوں معنی محتمل اور صحیح ہیں۔ اس کے بعد اس پر نظر ڈالئے کہ قرآن کریم نے اس جہاد کے لئے رسول کریم ﷺ کا خود نکلنا ذکر نہیں کیا بلکہ یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا فعل درحقیقت حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو آپ کے اعضاء وجوارح سے صادر ہوتا ہے۔ جیسا ایک حدیث قدسی میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ بندہ جب اطاعت و عبدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں وہ جو کچھ دیکھتا ہے میرے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے۔ میں اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جس کو پکڑتا ہے میرے ذریعہ پکڑتا ہے جس کی طرف چلتا ہے میرے ذریعہ چلتا ہے۔ خلاصہ اس کا یہی ہے کہ حق تعالے کی خاص نصرت و امداد اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ جن افعال کا صدور بظاہر اس کے آنکھ کان یا ہاتھ پاؤں سے ہوتا ہے، درحقیقت اس میں قدرت حق تعالیٰ شانہ کی کارفرما ہوتی ہے
رشتہ در گردنم افگندہ دوست میبرد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
خلاصہ یہ ہے کہ لفظ اَخْرَجَكَ میں اس طرف اشارہ کردیا کہ آنحضرت ﷺ کا جہاد کے لئے نکلنا درحقیقت حق تعالیٰ کا نکالنا تھا جو آپ کی ذات سے ظاہر ہوا۔
یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ فرمایا جس میں اللہ جل شانہ کا ذکر صفت رب کے ساتھ کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ اس جہاد کیلئے آپ کو نکالنا شان ربوبیت سے اور تربیت کے تقاضا سے تھا۔ کیونکہ اس کے ذریعہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کے لئے فتح یاب اور مغرور و ظالم کفار کے لئے پہلے عذاب کا مظاہرہ کرنا تھا۔
مِنْۢ بَيْتِكَ کے معنی ہیں آپ کے گھر سے، مطلب یہ ہوا کہ نکالا آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس گھر سے مراد مدینہ طیبہ کا گھر یا خود مدینہ طیبہ ہے جس میں ہجرت کے بعد آپ مقیم ہوئے۔ کیونکہ واقعہ بدر ہجرت کے دوسرے سال میں پیش آیا ہے۔ اس کے ساتھ لفظ بالْحَقِّ کا اضافہ کرکے بتلا دیا کہ یہ ساری کارروائی احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے عمل میں آئی ہے۔ دوسری حکومتوں کی طرح ملک گیری کی ہوس یا بادشاہوں کا غصہ اس کا سبب نہیں۔
آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ، یعنی ایک جماعت مسلمانوں کی اس جہاد کو گراں سمجھتی اور ناپسند کرتی تھی۔ صحابہ کرام کو یہ گرانی کس طرح اور کیوں پیش آئی اس کے سمجھنے کے لئے نیز آئندہ آنے والی دوسری آیات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے غزوہ بدر کے ابتدائی حالات اور اسباب کا پہلے معلوم کرلینا مناسب ہے۔ اس لئے پہلے غزوہ بدر کا پورا واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔
ابن عقبہ و ابن عامر کے بیان کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ میں یہ خبر ملی کہ ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام سے مال تجارت لے کر مکہ معظمہ کی طرف جا رہے ہیں۔ اور اس تجارت میں مکہ کے تمام قریشی شریک ہیں۔ ابن عقبہ کے بیان کے مطابق مکہ کا کوئی قریشی مرد یا عورت باقی نہ تھا جس کا اس میں حصہ نہ ہو۔ اگر کسی کے پاس صرف ایک مثقال (یعنی ساڑھے چار ماشہ) سونا بھی تھا تو اس نے اس میں اپنا حصہ ڈال دیا تھا۔ اس قافلہ کے پورے سرمایہ کے متعلق ابن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ پچاس ہزار دینار تھے۔ دینار سونے کا سکہ ہے جو ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے سونے کے موجودہ بھاؤ کے حساب سے اس کی قیمت باون روپیہ اور پورے سرمایہ کی قیمت چھبیس (26) کروڑ سے بھی زیادہ کی حیثیت رکھتے تھے، اس تجارتی قافلہ کی حفاظت اور کاروبار کے لئے قریش کے ستر جوان اور سردار ساتھ تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ تجارتی قافلہ درحقیقت قریش مکہ کی ایک تجارتی کمپنی تھی۔
بغوی نے بروایت ابن عباس وغیرہ نقل کیا ہے کہ اس قافلہ میں قریش کے چالیس سوار قریش کے سرداروں میں سے تھے جن میں عمرو بن العاص، محزمہ بن نوفل خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ قریش کی سب سے بڑی طاقت ان کی یہی تجارت اور تجارتی سرمایہ تھا جس کے بل پر انہوں نے رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تنگ کرکے مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت جب رسول کریم ﷺ کو سفر شام سے اس قافلہ کی واپسی کی اطلاع ملی تو آپ کی رائے ہوئی کہ اس وقت اس قافلہ کا مقابلہ کرکے قریش کی طاقت توڑ دینے کا موقع ہے۔ صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو زمانہ رمضان کا تھا پہلے سے کسی جنگ کی تیاری نہ تھی۔ بعض حضرات نے تو چستی اور ہمت کا اظہار کیا مگر بعض نے کچھ پس و پیش کی۔ آپ نے بھی سب پر اس جہاد کی شرکت کو لازم نہ قرار دیا بلکہ یہ حکم دیا کہ جن لوگوں کے پاس سواریاں موجود ہیں وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ اس وقت بہت سے آدمی جہاد میں جانے سے رک گئے اور جو لوگ جانا چاہتے تھے اور ان کی سواریاں دیہات میں تھیں انہوں نے اجازت چاہی کہ ہم اپنی سواریاں لے آویں تو ساتھ چلیں۔ مگر وقت اتنے انتظار کا نہ تھا۔ اس لئے حکم یہ ہوا کہ جن لوگوں کی سواریاں پاس موجود ہیں اور جہاد میں جانا چاہیں صرف وہی لوگ چلیں۔ باہر سے سواریاں منگانے کا وقت نہیں اس لئے ساتھ جانے کا ارادہ رکھنے والوں میں سے بھی تھوڑے ہی آدمی تیار ہوسکے۔ اور جن حضرات نے اس جہاد میں ساتھ جانے کا ارادہ ہی نہیں کیا اس کا سبب بھی یہ تھا کہ آپ نے سب کے ذمہ اس جہاد کی شرکت کو واجب نہ قرار دیا تھا۔ اور ان لوگوں کو یہ بھی اطمینان تھا کہ یہ تجارتی قافلہ ہے کوئی جنگی لشکر نہیں جس کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو زیادہ لشکر اور مجاہدین کی ضرورت پڑے۔ اس لئے صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد اس جہاد میں شریک نہ ہوئی۔
آنحضرت ﷺ نے جب بیر سقیا پر پہنچ کر قیس بن صعصعہ کو حکم دیا کہ لشکر کو شمار کریں تو انہوں نے شمار کرکے اطلاع دی کہ تین سو تیرہ حضرات ہیں۔ آنحضرت ﷺ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ تعداد اصحاب طالوت کی ہے اس لئے فال نیک، فتح اور کامیابی کی ہے۔ صحابہ کرام کے ساتھ کل ستر اونٹ تھے ہر تین آدمی کے لئے ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے خود رسول کریم ﷺ کے ساتھ بھی دو حضرات ایک اونٹ کے شریک تھے ابو لبابہ اور حضرت علی، جب آپ کی باری پیدل چلنے کی آتی تو یہ حضرات عرض کرتے کہ آپ سوار رہیں ہم آپ کے بدلے پیدل چلیں گے۔ رحمتہ اللعالمین کی طرف سے یہ جواب ملتا کہ نہ تو تم مجھ سے زیادہ قوی ہو اور نہ میں آخرت کے ثواب سے مستغنی ہوں کہ اپنے ثواب کا موقع تمہیں دے دوں، اس لئے اپنی باری میں آنحضرت ﷺ بھی پیدل ہی چلتے تھے۔
دوسری طرف کسی شخص نے ملک شام کے مشہور مقام عین زرقا پر پہنچ کر رئیس قافلہ ابو سفیان کو اس کی خبر پہنچا دی کہ رسول اللہ ﷺ ان کے قافلہ کے انتظار میں ہیں ان کا تعاقب کریں گے۔ ابو سفیان نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ جب یہ قافلہ حدود حجاز میں داخل ہوا تو ایک ہوشیار مستعد آدمی ضمضم بن عمر کو بیس مثقال سونا یعنی تقریبا دو ہزار روپیہ اجرت دے کر اس پر راضی کیا کہ وہ تیز رفتار سانڈنی پر سوار ہو کر جلد سے جلد مکہ مکرمہ میں یہ خبر پہنچا دے کہ ان کے قافلہ کو صحابہ کرام سے خطرہ لاحق ہے۔
ضمضم بن عمر نے اس زمانہ کی خاص رسم کے مطابق خطرہ کا اعلان کرنے کے لئے اپنی اونٹنی کے ناک کان کاٹ دیئے اور اپنے کپڑے آگے پیچھے سے پھاڑ ڈالے۔ اور کجاوہ کو الٹا کرکے اونٹنی کی پشت پر رکھا۔ یہ علامات اس زمانہ میں خطرہ کی گھنٹی سمجھی جاتی تھی۔ جب وہ اس شان سے مکہ میں داخل ہوا تو پورے مکہ میں ہلچل مچ گئی اور تمام قریش مدافعت کے لئے تیار ہوگئے جو لوگ اس جنگ کے لئے نکل سکتے تھے خود نکلے اور جو کسی وجہ سے معزور تھے انہوں نے کسی کو اپنا قائم مقام بنا کر جنگ کے لئے تیار کیا۔ اور صرف تین روز میں یہ لشکر پورے سامان کے ساتھ تیار ہوگیا۔
ان میں جو لوگ اس جنگ میں شرکت سے ہچکچاتے اس کو یہ لوگ مشتبہ نظروں سے دیکھتے اور مسلمانوں کا ہم خیال سمجھتے اس لئے ایسے لوگوں کو خصوصیت سے جنگ کے واسطے نکلنے پر مجبور کیا۔ جو لوگ علانیہ طور پر مسلمان تھے اور ابھی تک بوجہ اپنے اعذار کے ہجرت نہیں کرسکے تھے بلکہ مکہ میں بس رہے تھے ان کو اور بنو ہاشم کے خاندان میں جس پر بھی یہ گمان تھا کہ یہ مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا ہے ان کو بھی اس جنگ کے لئے نکلنے پر مجبور کیا۔ انھیں مجبور لوگوں میں آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس اور ابو طالب کے دو بیٹے طالب اور عقیل بھی تھے۔
اس طرح اس لشکر میں ایک ہزار جوان دو سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں اور ترانے گانے والی لونڈیاں اور ان کے طبلے وغیرہ لے کر بدر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہر منزل پر دس اونٹ ان لوگوں کے کھانے کے لئے ذبح ہوتے تھے۔
دوسری طرف رسول کریم ﷺ صرف ایک تجارتی قافلہ کے انداز سے مقابلہ کی تیاری کر کے بارہ رمضان کو شنبہ کے دن مدینہ طیبہ سے نکلے اور کئی منزل طے کرنے کے بعد بدر کے قریب پہنچ کر آپ نے دو شخصوں کو آگے بھیجا کہ وہ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لائیں (مظہری)
مخبروں نے یہ خبر پہنچائی کہ ابو سفیان کا قافلہ آنحضرت ﷺ کے تعاقب کی خبر پاکر ساحل دریا کے کنارے کنارے گزر گیا اور اس کی حفاظت اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے مکہ مکرمہ سے ایک ہزار جوانوں کا لشکر جنگ کے لئے آرہا ہے۔ (ابن کثیر)
ظاہر ہے کہ اس خبر نے حالات کا نقشہ پلٹ دیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنے رفیق صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کہ اس آنے والے لشکر سے جنگ کرنا ہے یا نہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری اور بعض دوسرے حضرات نے عرض کیا کہ ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں اور نہ ہم اس قصد سے آئے ہیں۔ اس پر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور تعمیل حکم کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا پھر فاروق اعظم کھڑے ہوئے اور اسی طرح تعمیل حکم اور جہاد کے لئے تیار ہونے کا اظہار کیا پھر حضرت مقداد ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ
یا رسول اللہ جو کچھ آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہے آپ اس کو جاری کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ ؑ کو دیا تھا۔ (آیت) فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ، یعنی جایئے آپ اور آپ کا رب لڑ بھڑ لیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں ملک حبشہ کے مقام برک الغماد تک بھی لے جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ جنگ کے لئے چلیں گے۔
آنحضرت ﷺ خوش ہوئے اور ان کو دعائیں دیں۔ مگر ابھی تک حضرات انصار کی طرف سے موافقت میں کوئی آواز نہ اٹھی تھی اور یہ احمتال تھا کہ حضرات انصار نے جو معاہدہ نصرت و امداد کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ کیا تھا وہ اندرون مدینہ کا تھا۔ مدینہ سے باہر امداد کرنے کے وہ پابند نہیں اس لئے آپ نے پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا کہ لوگو مجھے مشورہ دو کہ اس جہاد پر اقدام کریں یا نہیں۔ اس خطاب کا روئے سخن انصار کی طرف تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاری سمجھ گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ ہم سے پو چھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں، سعد بن معاذ نے عرض کیا
یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے اور اس کی شہادت دی کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں سب حق ہے اور ہم نے آپ سے عہد و پیمان کئے ہیں کہ ہر حال میں آپ کی اطاعت کریں گے۔ اس لئے آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہو اس کو جاری فرمائیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہم کو سمندر میں لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ دریا میں گھس جائیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی آپ سے پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں اس میں کوئی گرانی نہیں کہ آپ کل ہی ہمیں دشمن سے بھڑا دیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے کام سے ایسے حالات کا مشاہدہ کرائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ ہمیں اللہ کے نام پر جہاں چاہیں لے چلئے۔
رسول اللہ ﷺ یہ سن کر بہت مسرور ہوئے اور قافلہ کو حکم دے دیا کہ اللہ کے نام پر چلو۔ اور یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر ہمارا غلبہ ہوگا۔ دونوں جماعتوں سے مراد۔ ایک ابو سفیان کا تجارتی قافلہ اور دوسرا یہ مکہ سے آنے والا لشکر ہے۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم میں گویا اپنی آنکھوں سے مشرکین کی قتل گاہ کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ پورا واقعہ تفسیر ابن کثیر اور مظہری سے لیا گیا ہے۔
واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد ان آیات مذکور الصدر کو دیکھئے۔ پہلی آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ، یعنی ایک جماعت مسلمانوں کی اس جہاد کو بھاری سمجھ رہی تھی۔ اس سے اشارہ اس حال کی طرف ہے جو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کے وقت بعض صحابہ کرام کی طرف سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے جہاد سے پست ہمتی کا اظہار کیا۔
Top