Maarif-ul-Quran (En) - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
اور تم دیکھتے ہو ان عظیم الشان پہاڑوں کو اور ان کو خوب جما ہوا سمجھتے ہو حالانکہ یہ رواں دواں ہیں یا رواں دواں ہوں گے اس روز بادلوں کی طرح کارستانی ہے اس اللہ جل جلالہ کی جس نے استوار کیا ہر چیز کو نہایت حکمت اور مضبوطی کے ساتھ بیشک وہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو (2)
95 قیامت کے روز پہاڑوں کا حال : سو اس سے ہول قیامت کی مزید تفصیل فرما دی گئی کہ اس روز دوسری چیزوں کا تو ذکر ہی کیا پہاڑوں جیسی ٹھوس اور مستحکم مخلوق کا بھی اس روز حال یہ ہوگا کہ یہ بظاہر ٹکے ہوئے اور جمے ہوئے نظر آئیں گے مگر حقیقت میں یہ بادلوں کی طرح اڑے جا رہے ہو نگے۔ عام طور پر حضرات علما و مفسرین کا کہنا ہے کہ اس ارشاد کا تعلق قیامت سے ہے اور یہ کہ یہ وہی مضمون ہے جسے دوسری مختلف آیات کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے جیسے ۔ { وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَابًا } ۔ (الانبیائ :20) ۔ { وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ } ۔ (المرسلات : 10) وغیرہ۔ لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس کو قیامت سے متعلق ماننا صحیح نہیں ۔ { صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْ اَتْقَنَ کُلَّ شَئٍ } ۔ اس پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتا۔ کیونکہ قیامت کے اس ہولناک منظر کا تعلق " صنع " سے نہیں۔ بلکہ ہلاک و فساد اور دمار و خراب سے ہوگا۔ دوسرے اس لئے کہ قیامت کے اس منظر کو جو دیکھے گا وہ جان لے گا کہ یہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ کر اور اکھڑ کر چل رہے ہیں کہ یہ اس روز دھنکی ہوئی روئی { کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ } کی طرح ہوجائیں گے۔ جبکہ یہاں پر ان سے متعلق فرمایا جا رہا ہے ۔ { تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً } ۔ کہ " تم ان کو اپنی جگہ جامد و ساکن دیکھتے ہو "۔ اس لئے ان حضرات کا کہنا ہے کہ پہاڑوں کا یہ چلنا اسی دنیا میں موجود ہے جو کرہ ارضی کے ساتھ ساتھ گھوم رہے ہیں اور اس طرح یہ دوران ارضی کی ایک واضح اور کھلی دلیل ہوگی اور قرآن حکیم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہوگا۔ (تفسیر التحریر والتنویر لابن عاشور (رح) ، تفسیر القاسمی (رح) وغیرہ) ۔ ترجمے میں دونوں قولوں کی رعایت رکھی گئی ہے ۔ وَالتَّفِصَیْلُ فِی الْمُطوّلِ انْ شَائَ اللّٰہ ۔ لیکن راحج قول جمہور ہی کا لگتا ہے اور سیاق وسباق بھی اسی کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔ اور { صنع الذی اتقن کل شئی } کا ارشاد بھی اس پر منطبق ہوتا ہے۔ یعنی یہ اسی خدا کی کاریگری ہوگی جس نے ہر چیز کو محکم اور مضبوط بنایا ہے۔ سو جس طرح اس نے ہر چیز کو محکم بنایا ہے اسی طرح اس کی قدرت کا یہ نمونہ اور مظہر بھی سامنے آئیگا کہ یہ پہاڑ بظاہر جمے ہوئے نظر آئیں گے مگر یہ ہوا میں اڑتے بھی پھر رہے ہوں گے۔ اور یہ شروع میں ہوگا بعد میں ان کو کوٹ کوٹ کر ریزے ریزے کردیا جائے گا۔ اور پھر یہ ریگ رواں کے ٹیلے بن کر رہ جائیں گے۔ سو ان کے یہ مختلف حالات اور مختلف اوقات کے اعتبار سے ہوں گے۔ اس لیے ان میں کوئی تعارض نہیں ہوگا۔ (المراغی، المعارف اور الکبیر وغیرہ) ۔
Top