Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْجِبَالَ : پہاڑ (جمع) تَحْسَبُهَا : تو خیال کرتا ہے انہیں جَامِدَةً : جما ہوا وَّهِىَ : اور وہ تَمُرُّ : چلیں گے مَرَّ السَّحَابِ : بادلوں کی طرح چلنا صُنْعَ اللّٰهِ : اللہ کی کاری گری الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَتْقَنَ : خوبی سے بنایا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّهٗ : بیشک وہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور (اے انسان) تو پہاڑوں کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ وہ مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور (اس دن) وہ بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے ، یہ اللہ کی کاری گری ہے کہ اس نے ہرچیز کو مستحکم بنایا ہے اس کو علم ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو
ہول قیامت اور نظام اول کا درہم برہم ہونا اور نئے نظام کا قیام : 88۔ نفخ صور کا اثر جس طرح جانداروں پر ہوگا بےجان اور جاندار چیزوں پر بھی ہوگا اس وقت آپ پہاڑوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح جامد اور ٹھوس نظر آرہے ہیں لیکن جب اس نظام کے درہم برہم ہونے کا وقت آئے گا تو وہ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے نظرآئیں گے ، اس نظام کائنات کی مثال کو سمجھنے کے لئے یوں سمجھ لیں کہ جس طرح تسبیح کے دانوں کو ایک دھاگے کے ذریعہ اکٹھا کردیا گیا ہے اسی طرح اس نظام کائنات کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ ربط اور ترتیب کے طور پر باندھ دیا گیا ہے اور ہر ایک کی حرکت دوسرے کیلئے ٹھہراؤ کا کام دے رہی ہے اور اس طرح ان سب کا نظام گویا ایک بندھن میں باندھ دیا گیا ہے اور جس طرح تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے سارے دانے بکھر کر رہ جاتے ہیں اسی طرح اس نظام میں سے کسی ایک کے سرکنے کا انجام بھی یہی ہوگا کہ سب کے سب جھڑنے شروع ہوجائیں گے اور پھر کوئی ایک بھی دوسرے کو سہار نہیں سکے گا اور اس نظام کے تہس نہس کا نام قیامت رکھا گیا ہے پھر اس کی ہولناکی کا اندازہ خود لگا لو اور ان سب کے ٹکرانے کی جو کیفیت پیدا ہوگی ذرا اس کا تصور کرکے تو دیکھو فرمایا اس وقت جب کہ یہ سارا نظام ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ نظر آرہا ہے نظر آرہا ہے کس طرح اپنے بنانے والے اور اس بندھن میں باندھ دینے والے کاریگر کی کاریگری کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہر شے کی مضبوطی اس کے مناسب حال ہے جب تک ان پہاڑوں کا قیام وبقا اس کو منظور ہے اپنی جگہ پر وہ کس طرح جمے ہوئے نظر آ رہے جب حکمت الہی کو ان کا انہدام منظور ہوگا تو گویا وہ پانی پانی ہوجائیں گے اور پھر اس کو دھنی ہوئی روئی کی طرح دھنک دیا جائے گا اور وہ اڑتے ہوئے دکھائی دیں گے جس کے نتیجہ میں زمین کی اونچاں نیچاں کو ہموار کرکے رکھ دیا جائے گا اور دوسری جگہ اس کو (آیت) ” فیذرھا قاعا صفصفا “۔ (طہ : 106) کہا گیا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ اس زمین کے سب نشیب و فراز ختم کردیئے جائیں فرمایا جس ذات نے اس بندھن کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا ہے وہ تم انسانوں کے اعمال سے بھی اچھی طرح واقف ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اور وہ تمہارے ہر کئے سے اچھی طرح واقف ہے ۔
Top