Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 60
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور وہی ہے جس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم کم شکر گزاری کرتے ہو
تذکیر انعامات و ذکر دلائل قدرت برائے اثبات قیامت قال اللہ تعالیٰ وھو الذی انشالکم السمع والابصار والافئدۃ .... الیٰ .... فتعلیٰ عما یشرکون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں کفار کے اسباب جہالت و ضلالت کا بیان تھا اور ان سب کا اصل منشاء حشر و نشر کا انکار تھا کہ یہ لوگ جزاء اور سزا اور قیامت کے قائل نہ تھے۔ اس لئے اب آئندہ آیات میں اپنی نعمتوں کو یاد دلاتے ہیں تاکہ اس کا شکر کریں اور اپنی قدرت کاملہ کے آثار کو ذکر کرتے ہیں تاکہ مردوں کو دوبارہ زندہ کیے جانے میں شک نہ کریں اور قیامت اور جزاء اور سزا پر ایمان لے آئیں کہ جس خدا کی قدرت کے یہ کرشمے ہیں اس کے نزدیک مردوں کا زندہ کرنا کیا بڑی بات ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے چار دلائل بیان فرمائے جو دلائل وحدانیت بھی ہیں اور دلائل قیامت بھی ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ دلیل اول اور وہ اللہ وہ ہے جس نے پیدا کئے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل۔ اگر حق تعالیٰ تمہارے لیے یہ اعضاء پیدا نہ کرتے تو تم نہ سن سکتے اور نہ دیکھ سکتے۔ اور نہ سمجھ سکتے ان کے بغیر زندگی موت سے بدتر ہے تم کو یہ عجیب و غریب نعمتیں اس لیے عطا کیں کہ تم خدا کا خوب ہی شکر کرو۔ لیکن تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو تو کیا ایسا ناشکرا اس کے مستحق نہیں کہ اس پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا جائے۔ دلیل دوم اور وہ ہے جس نے تم کو زمین میں پیدا کیا اور پھیلایا اور تمہاری حاجتوں اور ضرورتوں کو زمین میں بکھیر دیا کہ ان کے لیے ادھر سے ادھر جا رہے ہو اور پھر قیامت کے دن اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے اور تم سے سوال ہوگا کہ تم نے ہماری نعمتوں کا کیا شکر کیا۔ یہ خدا کی رحمت اور نعمت بھی ہے اور کرشمہ قدرت بھی ہے۔ دلیل سوم اور وہ وہ ہے جو چلاتا ہے اور مارتا ہے یعنی موت اور حیات اور تمہارا وجود اور عدم سب اس کے ہاتھ میں ہے۔ دلیل چہارم اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے دن رات کی آمدورفت یعنی ان کا روشنی اور تاریکی میں مختلف ہونا اور ان کا گھٹنا اور بڑھنا یہ سب اسی کے ارادہ اور اختیار سے ہے سو کیا تم سمجھتے نہیں کہ یہ کارخانہ کسی قادر مختار کے اختیار سے جا رہی ہے اور کیا ان دلائل قدرت کو دیکھ کر بھی بعث اور حشر و نشر کا انکار کرتے ہو، لیکن ان لوگوں نے اس عجیب و غریب کرشمہ کو دیکھ کر عقل سے کام نہیں لیا بلکہ انہوں نے وہی بات کہی جو اگلوں نے کہی تھی۔ عقل کو تو بالائے طاق رکھ دیا اور بولے بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ان کا یہ کلام خالی خایل ہی خیال تھا کوئی دلیل عقلی نہ تھی جس سے دوبارہ زندگی کا محال ہونا معلوم ہو اور بولے یہی وعدہ یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ مگر ہم نے اس کی کوئی اصلیت نہیں دیکھی اور اب تک یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف اگلوں کے افسانے اور من گھڑت قصے ہیں، انہی کی نقل یہ نبی بھی کرتا ہے۔ اے نبی آپ ﷺ ان منکرین بعث سے جو مٹی سے انسان کے پیدا ہونے کو محال سمجھتے ہیں یہ سوال کیجئے کہ اچھا یہ بتلاؤ کہ یہ زمین اور جو مخلوق اس میں آباد ہے وہ کس کی ملک ہے اور کون اس کا خالق اور موجد ہے اگر جانتے ہو تو بتلاؤ۔ عنقریب مجبور ہو کر یہی کہیں گے کہ سب زمین مع اپنی مخلوقات اور عجائبات کے اللہ ہی کی ملک ہے اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہے پس جب وہ یہ اقرار کرلیں تو آپ ان سے یہ کہیں کہ پھر دھیان کیوں نہیں کرتے یعنی جب تم اس کو ابتداء خالق مانتے ہو تو دوبارہ پیدا کرنے پر کیوں قادر نہیں مانتے نیز آپ ان منکرین بعث سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ اچھا بتلاؤ کہ سات آسمانوں کا پروردگار اور عرش عظیم کا پروردگار کون ہے۔ سو اس کے جواب میں بھی ضرور وہ یہی کہیں گے کہ یہ سب اللہ ہی کا ہے تو پھر آپ ﷺ ان سے یہ کہئے کہ پھر تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں کہ تم اس کو دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز بتلاتے ہو، جس ذات کی قدرت کی یہ شان ہو اسے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے نیز اے نبی آپ ان منکرین بعث سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ بتلاؤ کہ وہ کون ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہر شئے کی بادشاہی اور حکومت ہے اور اس کے ہاتھ میں ہر شے کا اختیار ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے پناہ دیتا ہے اور اس کے برخلاف پناہ نہیں دی جاسکتی۔ بتلاؤ اگر تم کچھ جانتے ہو وہ اس کے جواب میں بھی یہی کہیں گے کہ سب صفتیں تو اللہ ہی کے لیے خاص ہیں تو آپ ان سے یہ کہیئے کہ اچھا بتلاؤ کہ پھر تم کہاں سے جادو کر دئیے گئے ہو یعنی ان واضح دلائل کے بعد تمہاری عقلیں کہاں چلی گئیں کہ اس کی قدرت میں شک کرنے لگے اور اس کی وحدانیت میں شرک کرنے لگے اور باوجود اس علم اور اقرار کے اس کے غیر کو پوجنے لگے (خوب سمجھ لو کہ اللہ ایک ہے اور بعث حق ہے اور یہ اساطیر الاولین نہیں بلکہ ہم ان کے پاس حق اور صدق لے کر آئے ہیں۔ اس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور بلاشبہ یہ مشرکین ہی جھوٹے ہیں جو خدا کے لیے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں اور اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل اور برہان نہیں اللہ تو وحدہ لاشریک ہے کوئی اس کا ہم جنس نہیں اس لیے کہ اللہ نے کسی کا اولاد نہیں ٹھہرایا۔ نہ بیٹا اور نہ بیٹی اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے بالفرض اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو الگ لے جاتا یعنی خدائی تقسیم ہوجایے اور ہر خدا اپنی مخلوق کو دوسرے خدا کی مخلوق سے جدا کرلیتا تاکہ اس کی قدرت اور سلطنت کا علم ہو اور لوگ جانیں کہ یہ فلانے خدا کی مخلوق ہے اور ہرگز پسند نہ کرتا کہ اس کی مخلوق دوسرے خدا کی مخلوق کے ساتھ رل مل جاوے۔ اس لیے کہ جب دو خدا ہوتے تو ان کی مخلوق بھی دو حصوں میں منقسم ہوتی اور ہر ایک خدا اپنی سلطنت اور ملکیت کو علیحدہ کرلیتا تاکہ دوسرا خدا اس خدا کی حدود ملکیت و سلطنت میں مداخلت کے ساتھ رل مل جائیں۔ ہر کارخانہ کا نشان اور مہر الگ ہوتی ہے تاکہ اس کارخانہ کی چیز دوسرے کارخانہ کی چیز سے ملتبس نہ ہو سکے۔ غرض یہ کہ ایک خدا کبھی اس پر راضی نہیں ہوسکتا کہ دوسرا خدا اس کی ملک اور اس کے ملک میں شریک اور دخیل ہوسکے اور ایک خدا ہرگز یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کی مخلوق دوسرے کی طرف منسوب ہو سکے، تمام دنیا کی سلطنتوں کا قاعدہ ہے کہ ایک بادشاہ کی حدود سلطنت دوسرے بادشاہ کی حدود و سلطنت سے جدا اور ممتاز ہوتی ہیں اور ہر سلطنت کا امتیازی نشان علیحدہ ہوتا ہے پس اسی طرح اگر دو خدا ہوتے تو ہر ایک کی مخلوق اور ہر ایک کی حدود سلطنت دوسرے سے جدا اور ممتاز ہوتے۔ لیکن مخلوقات میں کوئی علامت فرق کی نظر نہیں آتی کہ یہ مخلوق اس خدا کی ہے اور وہ مخلوق اس خدا کی ہے معلوم ہوا کہ خدا ایک ہی ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں اور اگر دو خدا ہوتے تو آخر کار ان دو خداؤں میں لڑائی اور جھگڑا ہوتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا اور ہر ایک اپنا غلبہ چاہتا۔ اور اپنی جمعیت اور طاقت فراہم کرکے دوسرے پر ہلہ بول دیتا اور پھر اس لڑائی میں لامحالہ ایک دوسرے پر غالب آتا اور روز آور کمزور کا دبا لیتا۔ اور اس کا ملک اس سے لے لیتا اور دوسرا مغلوب ہوجاتا، جیسا کہ لڑائی کا انجام ہے۔ اور جو مغلوب ہوجاتا وہ خدائی کے قابل نہ رہتا اور جو ایک غالب ہوتا وہی خدا ہوتا اور ظاہر ہے کہ دو خداؤں کی لڑائی سے نظام عالم درہم برہم ہوجاتا اور سار جہاں تہ وبالا ہوا جاتا اور دو خداؤں کی جنگ میں عالم کا یہ محکم نظام ایک دن بھی قائم نہ رہتا۔ مگر سب دیکھتے ہیں کہ نظام عالم میں کوئی خلل اور فساد نہیں۔ اور نہ کوئی علامت فرق کی نظر آتی ہے کہ یہ چیز اس خدا کی مخلوق ہے اور وہ چیز فلاں خدا کی مخلوق ہے اور نہ کسی مخلوق پر کسی خدا کی خاص علامت ہے کہ یہ فلانے خدا کی ہے۔ پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خدا کی مخلوق دوسرے خدا کی مخلوق سے جدا اور ممتاز نہیں اور نہ آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑا ہے تو معلوم ہوا کہ سارا کارخانہ ایک ہی خدا کے اختیار سے چل رہا ہے اور سارے عالم کا خالق ایک ہی خدا ہے اور یہ سارا عالم ایک ہی خدا کی مخلوق ہے کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں اسے نہ بیٹے کی کی ضرورت ہے اور کسی شریک کی۔ (دیکھو تفسیر کبیر ص 236 ج 6) اور اس دلیل کی مفصل تقریر سورة انبیاء کی آیت لو کان فیہما الہۃ الا اللہ لفسدتا میں گزر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے۔ اللہ منزہ ہے ان باتوں سے جو یہ ظالم اس کے لئے بتاتے ہیں یعنی نہ اس کے لیے اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا اول تو علو اور غلبہ کو چاہے گا کہ دوسرے پر غالب آجاؤں اور اگر بالفرض ایک ضدا سے دوسرے خدا پر چڑھائی ممکن نہ ہوئی تو کم از کم وہ اپنی مخلوق کو دوسرے خدا کی مخلوق سے جدا اور علیحدہ تو ضرور کرے گا شریک اور خلط ملط پر ہرگز راضی نہ ہوگا۔ دلیل دیگر وہ تو غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں اور ظاہر ہے کہ خدا کے سوا کوئی غیب اور شہادت کا جاننے والا نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے کہ اگر دو خدا ہوں تو لامحالہ دونوں عالم الغیب ہوں گے اور ہر ایک کا علم اپنے ماسوا کو محیط ہوگا تو لازم آئے گا کہ ہر خدا ایک ہی اعتبار سے محیط بھی ہوا اور محاط بھی اور یہ بات عقلاً محال ہے۔ پس وہ بالا اور برتر ہے اس سے جس کو وہ اس کا شریک بناتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کی قدرت بھی غیر محدود ہے اور اس کا علم بھی غیر محدود ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔
Top