Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 53
اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًاۙ
اَمْ : کیا لَھُمْ : ان کا نَصِيْبٌ : کوئی حصہ مِّنَ : سے الْمُلْكِ : سلطنت فَاِذًا : پھر اس وقت لَّا يُؤْتُوْنَ : نہ دیں النَّاسَ : لوگ نَقِيْرًا : تل برابر
کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے کہ تم لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے
مذمت یہود بربخل وحسد۔ قال تعالی، ام لھم نصیب۔۔۔۔ الی۔۔۔ ظلیلا۔ آیت۔ ربط) یہ آیت بھی یہود کے حق میں ہے گزشتہ آیات میں یہود کے معائب بیان ہوئے کہ وہ باجود کفر وشرک میں ملوث ہونے کے اپنے آپ کو پاک اور مقدس بتلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے ہیں اور مشرکین کو موحدین پر ترجیح دیتے ہیں اور اب ان آیات میں یہود کے بخل اور حسد کو بیان فرماتے ہیں کہ یہ لوگ غایت درجہ بخیل اور حاسد ہیں محض حسد کی وجہ سے سیدنا محمد رسول اللہ پر ایمان نہیں لاتے کہ نبی آخر الزمان بنی اسماعیل میں سے کیوں ہوئے بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ ہوئے نیز یہود کا یہ دعوی اور زعم تھا کہ اخیر زمانہ میں یہود کی سلطنت ہوگی اور یہ کہتے تھے کہ آخر حکومت اور بادشاہت ہمیں کو پہنچ کررہے گی برائے چندے اگر اوروں کو مل جائے تو مضایقہ نہیں۔ اللہ نے اس آیت میں ان کی تکذیب اور ان کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا چناچہ فرماتے ہیں کہ کیا ان کے لیے ان کی آرزو کے مطابق سلطنت اور بادشاہی میں سے کوئی حصہ ہرگز نہیں یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس سلطنت کا کوئی حصہ نہیں پھر ان کو نبی ﷺ کے اتباع سے کیوں عار آتی ہے ان لوگوں پر ظلم اور طغیان اور عصیان اور عدوان کی وجہ سے ذلت اور مسکنت کی مہر لگ چکی ہے پس اگر ان لوگوں کو سلطنت مل جائے تو یہ لگ اس درجہ بخیل ہیں کہ لوگوں کو تل برابر بھی کوئی چیز نہ دیں اور سلطنت کے منافع کو اپنے لیے مخصوص کرلیں اور جو لوگ اس درجہ بخیل ہوں کہ سلطنت ملنے کے بعد لوگوں کو ایک تل دینا بھی گوارا نہ کریں وہ سلطنت کے حق دار اور اہل نہیں یہ ان کے بخل کا بیان تھا اب آئندہ آیت میں ان کے حسد کو بیان کرتے ہیں کیا یہ یہود وعرب کے لوگوں یعنی بنی اسماعیل کی اس نعمت پر حسد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے لوگوں سے نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب مراد ہیں اور نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے منصب نبوت سے سرفراز فرمایا اور نبوت کے ساتھ حکومت اور بادشاہت بھی دی حسد اس پر ہے کہ نبوت اور بادشاہت تو حصہ بنی اسرائیل کا تھا دین ودنیا کی نعمت بنی اسماعیل کو کیسے مل گئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں پس تحقیق دی ہے ہم نے اولاد ابراہیم کو کتاب اور حکمت اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت اور بادشاہت بھی دی ہے جیسے حضرت یوسف اور داود اور حضرت سلیمان کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا کی جو حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے اسی طرح سیدنا محمد رسول اللہ بھی تو حضرت ابراہیم کی اولاد سے ہیں پھر نبی کی نبوت اور ریاست پر کیوں حسد کرتے ہیں اللہ شانہ نے پہلے حضرت ابراہیم کے ایک خاندان بنی اسرئیل کو نبوت وبادزاہت سے سرفراز کیا اب دوسرے خاندان یعنی بنی اسماعیل کو نبوت وبادشاہت عطا کی تو حسد اور تعجب کی کیا بات ہے یہود بےبہود کا خیال یہ ہے کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت بنی اسرائیل کے علاوہ اور کسی خاندان کو نہیں ملے گا پس ان حاسدین میں سے کوئی تو آپ پر ایمان لایا جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقاء اور کوئی ایمان لانے سے باز رہا جیسے کعب بن اشرف وغیرہ اور ان کی سزا کے لیے دوزخ کی دھکتی ہوئی آگ کافی ہے اور بعض علماء نے بہ کی ضمیر انبیاء سابقین کی طرف راجع کی ہے اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ اولاد ابراہیم میں سے جن نبیوں کو ہم کتاب دی ان پر بعض یہود تو ایمان لائے اور بعض نے ان کو بھی نہ مانا پس اے نبی اگر یہ لوگ آپ کی نبوت کو بھی نہ مانیں تو کوئی تعجب نہیں ان کی جروش پہلے تھی وہی اب بھی ہے ایسے ہٹ دھڑوں کی سزا کے لیے دوزخ کافی ہے یہ آیت یہود کے حق میں تھی اب آئندہ آیت میں عام مومنین اور عام کفار کی جزا وسزا کا بطور قاعدہ کلیہ ذکر ہے جس میں یہود بھی داخل ہیں تحقیق جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو نہیں مانا ہم ضرور ان کو آگ میں ڈالیں گے جب کبھی آگ سے ان کی کھالیں جل جایا کریں گی تو ہم فورا پہلی کھالوں کے سوا دوسری نئی کھالیں بدل دیا کریں گے تاکہ اچھی عذاب کا مزہ چکھیں اور ہر لحظہ اور ہر ساعت عذاب کا الم محسوس کرتے رہیں تازہ کھال کو جس قدر الم محسوس ہوتا ہے جلی ہوئی کھال کو اتنا محسوس نہیں ہوتا بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے اور وہ سب پر غالب ہے کوئی اس کو عذاب دینے سے روک نہیں سکتا اور حکمت والا ہے اس کا عذاب عین حکمت اور مصلحت ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے درختوں اور مکانوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یعنی ان باغوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور کبھی وہاں سے نکالے نہ جائیں گے ان کے لیے ان باغوں میں پاک وصاف بیویاں ہوں گی اور ہم ان کو بڑے گنجان سایہ کی جگہ میں بھی داخل کریں گے یعنی جنت میں نہ گرمی ہوگی اور نہ سردی بلکہ ایسا آرام ملے گا جیسا کہ سایہ میں بیٹھ کر ملتا ہے ملک عرب چونکہ نہایت گرم ہے اس لیے وہاں کے لوگ سایہ کو غایت درجہ راحت جانتے تھے اس مقام پر لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب جنت میں سورج نہیں تو سایہ کیسا کمال قال تعالی، لایرون فیھا شمسا ولازمھریرا۔ آیت۔ جواب۔ یہ ہے کہ روشنی اور دھوپ کے لیے خاص آفتاب کا وجود ضروری نہیں اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے نور اور تیز روشنی پیدا کردے اخروی نعمتوں کو دنیاوی نعمتوں پر قیاس نہ کرنا چاہیے جس طرح وہ آخرت میں دود اور شہد بلا اسباب ظاہرہ کے محض اپنی قدرت سے پیدا فرمائے گا اسی طرح وہ جنت میں روشنی اور سایہ بھی اپنی قدرت سے پیدا فرمادے گا۔
Top