Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
تنبیہ وتوبیخ برغفلت واعراض از ذکر خداوندی و حسرت وندامت مجرمین در آخرت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” ومن یعش عن ذکر الرحمن ....... الی ...... الھۃ یعبدون “۔ (ربط) اس قبل آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک خاص اسوہ یعنی توحید خداوندی پر استقامت اور کفر وشرک سے براء توبیزاری کا بیان فرمایا گیا تھا، ساتھ ہی دنیا کے سازوسامان اور اس کی آرائش و آسائش کی بےوقعتی کا ذکر تھا اور یہ کہ اصل شرف اور عظمت انسان کو صرف وحی الہی ہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے، اب ان آیات میں حق تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد سے غفلت واعراض پر تنبیہ وتوبیخ کی جارہی ہے، اور یہ کہ ایسے غافلوں اور بےحس لوگوں کا انجام نہایت ہی عبرتناک ہوگا اور ان کو حسرت وندامت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا، ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کو تسلی بھی مقصود ہے، تو فرمایا اور جو شخص اللہ کی نصیحت قرآن کریم اور وحی الہی سے اندھابن جاوے جان بوجھ کر اعراض و غفلت اختیار کرے جیسے کہ اہل کتاب سب کچھ جاننے کے باوجود بھی یہی کہتے رہے کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم چناچہ ارشاد ہے ، (آیت ) ” وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم “۔ تو ہم اس پر مسلط کردیتے ہیں ایک شیطان جوہر و قت اس کے ساتھ رہتا ہے، اور بیشک یہ شیاطین اللہ کے ذکر ونصیحت سے اعراض کرنے والے غافلین کو ہر وقت روکتے رہتے ہیں، حق کے راستہ سے، اور اس کے باوجود یہ لوگ گمان کرتے رہتے ہیں، کہ وہ راہ راست پر ہیں، ان کا یہ تغافل واعراض باقی رہے گا، یہاں تک کہ جب ایسا شخص ہمارے پاس آئے گا تو اب اس شیطان کے بہکانے کے ثمرات اور نتائج کو دیکھ کر پچتاتے ہوئے کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان دنیا میں مشرق ومغرب کے برابر بعد ہوتا تو تو بہت ہی برا ساتھی تھا کہ تو نے مجھے اس طرح گمراہ کیا لیکن یہ حسرت کام نہ آئے گی، اور نیز ان سے کہا جائے گا اے ظالمو ! ہرگز یہ چیز تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، جب کہ تم دنیا میں کفر کرکے بہت بڑا ظلم کرچکے ہو، اب تو بیشک عذاب میں تم سب ہی شریک ہو تو کیا اسی حالت میں کہ ان منکرین نے سب کچھ دلائل حق کا مشاہدہ کرلیا اور حقائق سن لیے مگر پھر بھی اندھے اور بہرے بنے رہے، آپ ایسے بہروں کو سنا سکتے ہیں یا ایسے اندھوں کو راستہ دکھا سکتے ہیں، اور ان لوگوں کو جو صریح گمراہی میں مبتلا ہیں، ان کو راہ راست پر لاسکتے ہیں، پھر آپ یہ بات یاد رکھئے کہ ایسے سرکشوں اور نافرمانوں کی یہ بغاوت وسرکشی اپنے انجام بد سے خالی نہیں جاسکتی ضرور اس پر عذاب خدا وندی آکر رہے گا، خواہ آپ ﷺ کی حیات میں یا آپ ﷺ کی وفات کے بعد۔ تو اگر ہم آپ کو دنیا سے اٹھالیں تو پھر بھی ان کافروں پر عذاب آکر رہے گا، یا وہ عذاب جس کا وعدہ ہم نے کیا ہے، آپ کو دنیوی حیات میں دکھلا دیں، تو بھی کوئی بعید نہیں، بہرکیف ہم ان سے ضرور انتقام لینے والے ہیں، اور یہ مجرم انتقام خداوندی سے کسی بھی حالت میں نہیں بچ سکتے ،۔ حاشیہ (مقصود یہ ہے کہ اے پیغمبر بعضے وعدے تو ہم آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی زندگی میں دکھلا دیں گے اور بعض وعدے آپ ﷺ کے بعد ظہور پذیر ہوں، خدا نے جو وعدے کیے ہیں وہ ضرور بالضرور پورے ہوں گے، کوئی دیر سے کوئی سویر سے چناچہ ایسا ہی واقع ہوا کہ بعضے وعدے آپ ﷺ کی زندگی میں پورے ہوگئے جیسے فتح خیبر اور مکہ کا اور بعضے وعدے جیسے فارس اور روم کی فتح کا وعدہ سو یہ آپ ﷺ کے زمانہ حیات میں واقع نہیں ہوا، بلکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین کے زمانہ میں پورا ہوا، آنحضرت ﷺ ابتداء بعثت سے تاحین وفات فارس اور روم کی فتح کا وعدہ دیتے، اور فرماتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو کیا اھل قری وامصار۔ اور کیا اہل بادیہ صحرا غرض سب کے گھروں میں پہنچا دیگا، خواہ بعزت اور خواہ بذلت بعزت تو یہ کہ مشرف باسلام ہونگے اور بذلت یہ کہ جزیہ اور خراج دیتے ہوئے، اسلام کے باج گذار بنیں گے اور ظاہر ہے کہ فتح فارس اور روم کی فتح کا وعدہ زمانہ، نبوت سراپا سعادت میں ظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین ؓ کے زمانہ میں پورا ہوا اور جس کے ہاتھ پر اللہ کے وہ وعدے پورے ہوں جن کا اللہ نے اپنے نبی سے وعدہ کیا تھا، وہی اس کے نبی کا خلیفہ خاص ہے۔ بہرحال معلوم ہوا کہ اس آیت میں جو لفظ اما اور او واقع ہوا ہے وہ تردید اور تردد کے لیے نہیں بلکہ تو زیع وتقسیم کے لیے ہے کہ تکمیل وعدہ کی قسمیں متعدد ہیں، اور جملہ (آیت ) ” وانہ لذکرلک ولقومک “۔ کے معنی یہ ہیں کہ اے پیغمبر جماعت قریش میں سے چندوہ لوگ ہونگے جو ظاہر و باطن کی شرافت سے مشرف وممتاز ہو کر آپ ﷺ کے دین کے مددگار ہوں گے، اور آپ ﷺ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوں گے، اور اعلاء کلمۃ اللہ کریں گے۔ ) (ازالۃ الخفاء ص 595) تو آپ مضبوطی سے پکڑے رکھیئے اسی اللہ کے کلام اوردین کو جو آپ کی طرف وحی کیا گیا، بیشک آپ سیدھے راستہ پر ہیں، آپ اپنے کام میں لگے رہیں، اعراض کرنے والے اگر اعراض کرتے ہیں تو اس پر غم نہ کیجئے، اور بیشک یہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے آپ ﷺ کے لیے تو ظاہر ہے، اس وجہ سے کہ رب العالمین نے اس کلام کے ساتھ آپ کو مخاطب بنایا اور نبوت و رسالت کا منصب عظیم عطا فرمایا اور آپ کی قوم کے لیے اس لیے کہ وہ آپ کے توسط سے کلام الہی اور خطاب ربانی کے مخاطب بنے پھر تاکہ جو کچھ قرآنی تعلیمات ہیں وہ عزت و برتری کی حامل ہیں، لہذا جس کسی کو اس نعمت سے سرفراز کیا گیا درحقیقت اس کو بڑا عظیم اعزاز دیا گیا جو دنیا اور آخرت کی تمام عظمتوں اور عزتوں کا ضامن ہے، اور ایسے عظیم انعام سے نوازے جانے والوں کو بےفکر ہوجانا چاہئے اس وجہ سے جان لینا چاہئے کہ عنقریب تم سے سوال کیا جائے گا کہ اس کلام الہی کا کیا حق ادا کیا، پیغمبر سے حق تبلیغ کا سوال ہوگا، اور امت سے اس پر عمل کرنے کا سوال ہوگا، اور آپ ان سب پیغمبروں سے پوچھ لیجئے جن کو ہم نے آپ ﷺ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا یعنی ان کی کتابوں اور ان پر ایمان رکھنے والوں سے کہ کیا ہم نے رحمن کے سوا اور کچھ معبود بنائے ہیں، جن کی عبادت کی جاتی ہو، ظاہر ہے کہ تمام پیغمبروں کی تعلیم اور ہدایت توحید کی بنا پر ایک رہی ہے کسی دین و شریعت میں اور کسی نبی کی تعلیم میں خدا کے سوا کسی معبود کا کوئی تصور ہی نہیں تو پھر آخر ان مشرکین مکہ نے خدا کے ساتھ ان بتوں کو عبادت میں کیوں شریک کرلیا ہے، اور نصاری نے تین خداؤں کا عقیدہ رکھا اور یہود نے بھی بہت سے رب بنائے، غرض تمام انبیاء سابقین کی تعلیمات اور ان کی تاریخ صرف توحید خداوندی ہے، پھر کفار مکہ اور یہود ونصاری کیوں نہیں آپ ﷺ کی ہدایت وتعلیم کی پیروی کرتے۔
Top