Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو شخص اعراض کرتا ہے رحمان کے ذکر سے ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لئے شیطان ، پس بیشک وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے
ربط آیات پہلے توحید اور جزائے عمل کا ذکر ہوا۔ پھر اللہ نے رسالت کا ذکر فرمایا وکذلک ما ارسلنا من قبلک …81 (آیت 23- ) اسی طرح آپ سے پہلے ہم نے جس بستی میں بھی رسول یا نبی بھیجا تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے اس کا انکار کیا اور اپنے آبائو اجداد کی فرسودہ رسوم پر کاربند رہنے پر اصرار کیا۔ قالوا انا بما ارسلتم بہ کفرون (آیت 24- ) کہنے لگے کہ جس چیز کو تم لے کر آئے ہو ، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔ عرب کے مشرکوں کا بھی یہی حال ہوا کہ جب بھی ان کے پاس حق بات ائٓی قالوآ ھذا سحر وانا بہ کفرون (آیت 30- ) کہنے لگے یہ تو جادو ہے اور ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں۔ اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہے تو اسے یکسر اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل ہونا چاہئے تھا تاکہ ہم بھی مان لیتے ہم کسی نادار آدمی کو اللہ کا نبی ماننے کے لئے تیار نہیں۔ قرآن سے اعراض کا نتیجہ فرمایا اگر یہ لوگ نبی آخر الزمان کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے ، اور آپ کے لائے ہوئے قرآن سے بھی اعراض کرتے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہئے ومن یعش عن ذکر الرحمٰن جو شخص خدا نے رحمان کے ذکر سے اعراض کرتا ہے نقیص لہ شیطناً تو ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں فھولہ قرین پس وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ لفظ ذکر کے دو معانی آتے ہیں۔ ذکر سے عام فہم مراد یاد الٰہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یاد الٰہی سے اعراض کرنا ہرگز پسندیدہ امر نہیں۔ تاہم یہاں پر سیاق وسباق کے پیش نظر ذکر سے مراد خود قرآن حکیم ہے۔ ویسے بھی ذکر قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ جو شخص قرآنی تعلیمات سے اعراض کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مقرر کردیتا ہے جو اسے ہمیشہ بہکا کر گمراہ کرتا رہتا ہے۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد مبارک ہے کہ اگر کسی بستی میں تین مسلمان رہتے ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے اسی طرح جو ذکر الٰہی یا نصیحت سے اعراض کرتا ہے۔ اس پر بھی شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور اس کو ہر وقت گمراہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ نے انسان کی آزمئاش کے لئے اس کے ساتھ فرشتوں کو بھی مقرر کر رکھا ہے اور شیاطین کو بھی۔ فرشتے اور شیطان ہر وقت آدمی سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ اگر طبیعت میں نیکی کا جذبہ بیدار ہو تو سمجھ لو کہ یہ فرشتے کی کارروائی کا نتیجہ ہے اور اگر دل میں برائی کا وسوسہ پیدا ہو تو یہ شیطان کی رف سے ہوتا ہے ، لہٰذا اس وقت شیطان کے شر سے خدا کی پناہ طلب کرنی چاہئے۔ ان شیاطین کا کام یہ ہوتا ہے وانھم لیصدونھم عن السبیل کہ وہ لوگوں کو سیدھے راستے سے روکتے ہیں۔ ہر نیکی کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور انہیں برئای کی طرف مائل کرتے ہیں۔ معرضین کی غلط فہمی فرمایا اگرچہ معرضین قرآن پر شیطان مسلط ہوتا ہے ویحسبون انھم مھتدون مگر وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ ان کی فہم و فکر کی خرابی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ برئای کو نیکی تصور کرنے لگتے ہیں۔ چناچہ مشرک کافر اور بدعتی لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ کام تو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کرتے ہیں مگر سمجھتے ہیں یہ ہیں کہ وہ بہت بڑے نیکی کے کام انجام دے رہے ہیں۔ مثلاً جب کافر اور مشرک لوگ بتوں کی پرستش کرتے ہیں یا غیر اللہ سے فریاد رسی کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک راستے پر جا رہے ہیں۔ بدعات کے پجاری بھی عرس منا کر ، قبروں پر چادریں چڑھا کر چراغاں کر کے ، ان پر گنبد بنا کر ، تیسرا ، ساتا اور چالیسیواں کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں کہ وہ کار ثواب انجام دے رہے ہیں۔ شیطان ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ یہ بڑی نیکی کا کام ہے۔ اسی پر اپنی اور مردوں کی نجات کا دار وم دار ہے اور انہی امور سے دنیا میں عزت اور شہرت حاصل ہوگی۔ وہ انہیں خوشنما کر کے دکھاتا رہتا ہے اور بےنصیب آدمی عمر بھر ایسے ہی بےمعنی امورر کی انجام دہی کرتے کرتے ختم ہوجاتے ہیں ۔ اس مضمون کو سورة کہف میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہہ دیں کیا ہم تمہیں اعمال کے لحاظ سے سخت نقصان زدہ لوگوں کے متعلق بتلائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی سعی دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی وھم یحسبون انھم یحسبون صنعاً (آیت 104) مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھے کام کر رہے ہیں۔ فرمایا یہ لوگ زندگی بھر اسی زعم میں مبتلا رہتے ہیں حتی اذا جآء نا یہاں تک کہ جب وہ موت سے ہمکنار ہو کر ہمارے پاس آتے ہیں تو اس وقت آنکھیں کھلتی ہیں۔ عام محاورے میں بھی کہا جاتا ہے الناس نیام اذا ماتوا انبتھوا اس وقت لوگ دنیا میں غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں جب انہیں موت آجائے گی تو حقیقت میں اس وقت بیدار ہوں گے ۔ جب تمام حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔ شیطان کی دوستی پر حسرت فرمایا جب کوئی قرآن سے اعراض کرنے والا مر کر ہمارے پاس پہنچ جاتا ہے قال یلت بینی وبینک بعد المشرقین تو اس وقت شیطان سے کہتا ہے کاش میرے اور تمہارے درمیان دنیا میں مشرق و مغرب کی دوری ہوتی تو میں تیرے دام میں نہ پھنستا اور نہ آج یہ رو ز بد دیکھنا نصیب ہوتا۔ فبئس القرین تو تو بہت ہی برا ساتھی ثابت ہوا۔ یہاں پر مشرقین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنی ہے دو مشرق حالانکہ مشرق تو ایک ہی ہے جب کہ اس کی ضد مغرب ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مشرقین سے مراد دراصل مشرق اور مغرب ہیں کیونکہ بعض اوقات تفلیاً مشرق اور مغرب کو مشرقین کہا جاتا ہے۔ عربی ادب میں ایسی اور مثالیں بھی ملتی ہیں جیسے۔ اخذنا باطراف السمآء علیکم لنا قمرھا والنجوم الطوالع ہم نے آسمان کے اطراف کو تمہارے اوپر بند کردیا ہے کیونکہ دونوں چاند (یعنی چاند اور سورچ) ہمارے لئے ہیں۔ اسی طرح ستارے بھی اب ہمارے ہی ہیں۔ وبصرۃ الارض منا والعراق لنا والموصلان ومنا المصر والحرم بصرہ اور عراق بھی ہمارے ہے ، اور دونوں موصل ، مصر اور حرم بھی ہمارے ہیں یہاں بھی جزیرہ اور موصل کو ملا کر موصلان کہا گیا ہے۔ سورۃ الرحمٰن میں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر بھی آتا ہے رب المشرقین و رب المغربین (آیت 17- ) اللہ تعالیٰ دونوں مشرقوں کا بھی رب ہے اور دونوں مغربوں کا بھی ۔ بعض فرماتے ہیں کہ مشرق اور مغرب کو دو دو اس لئے کہا گیا ہے کہ موسم سرما اور گرما کے مشرق اور مغرب مختلف ہوتے ہیں۔ دونوں موسموں میں سورج اور چاند کے طلوع و غروب کے مقامات میں بڑا فاصلہ ہوتا ہے ، اس لئے مشرق کو دو مشرق اور مغرب کو دو مغرب کہا گیا ہے۔ فرمایا کہ معرض آدمی مرنے کے بعد حسرت و افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ اس نے دنیا میں شیطان کو اپنا ساتھی بنا لیامگر فرمایا ولن ینفعکم الیوم اذ ظلمتم تمہارا افسوس کرنا آج کے دن کچھ کام نہیں آئے گا کیونکہ تم نے دنیا میں رہ کر ظلم کا ارتکاب کیا اور شیطان کی بات مان کر کفر ، شرک ، بدعات اور معانی میں مبتلا ہوئے آج تم تابع اور متبوع برابر ہو انکم فی العذاب مشترکون اور عذاب میں اشتراک رکھتے ہو یعنی تم دونوں عذاب میں مشترکہ طور پر مبتلا ہوگئے۔ حضور ﷺ کے لئے تسلی حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کو کفار و مشرکین کے اقوال و افعال سے سخت کوفت ہوتی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا افانت تسمع الصم کیا آپ بہروں کو سنا سکیں گے اوتھدی العمی یا اندھوں کو راہ دکھائیں گے ومن کان فی ضلل مبین یا اس شخص کو راہ رسات پر لے آئیں گے جو صریح گمراہی میں پڑا ہا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ کافر و مشرک اندھوں بہروں اور گمراہوں کی مانند ہیں۔ آپ انکو کیسے راہ راست پر لاسکیں گے۔ یہ تو آپ کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اگر یہ ایمان نہیں لاتے۔ آپ کی رسالت پر یقین نہیں کرتے اور قرآن کو وحی نہیں مانتے تو آپ دل برداشت نہ ہوں بلکہ ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔ فلما نذھبن بک پھر یا تو ہم آپ کو لے جائیں گے یعنی اپنے پاس بلا لیں گے اور اس صورت میں فانا منھم منتقمون ہم خود ان بدبختوں سے انتقام لینے والے ہیں۔ ہم ان پر کو چھوڑیں گے نہیں بلکہ ان کو ان کی کارکردگی کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ فرمایا دوسری صورت یہ ہے او نرینک الذی وعدنھم یا ہم آپ کو دکھا دیں گے جو عدہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے ساتھ تو یہی وعدہ ہے کہ جو شخص ایمان ، توحید ، رسالت اور قرآن کا انکار کرے گا۔ ہم اس کو ضرور سزا میں مبتلا کریں گے۔ چناچہ ہم آپ کی زندگی میں ان کو سزا میں مبتلا ہوتے ہوئے دکھا دیں گے تاکہ آپ کی تسلی ہوجائے کہ ان ناہنجاروں کو ان کے کئے کا بدلہ مل گیا ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بہت سے کافر مشرک اور منافق حضور ﷺ کی زندگی میں ہی ہلاک کردیئے گئے ، بعض ملک بدر ہوئے اور بعض مغلوب ہوگئے۔ اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کردیا فانا علیھم مقتدون کیونکہ ہم ان پر قدرت رکھتے ہیں۔ ہماری گرفت سے یہ لوگ بچ نہیں سکتے اور ضرور اپنے بدکو پہنچنے والے ہیں۔ تمسک بالقرآن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حمک ہے کہ اے پیغمبر ! فاستمسک بالذی اوحی الیک آپ مضبوطی سے پکڑے رکھیں اس چیز کو جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ قرآن پاک دین اور شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ و تلقین کریں۔ آپ شیطان کے بہکائے ہوئے لوگوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ یہی حکم عام اہل ایمان کے لئے ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات کو مضبوطی سے تھام لیں اور انہیں زندگی کا لائحہ عمل بنا لیں کہ اسی میں سب کی کامیابی ہے اگر اس میں شک پیدا ہوا اور اس آفاقی قانون کے ساتھ ساتھ دیگر قوانین سے بھی اللہ کیا تو کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ صرف اسی کو مضبوطی سے تھامنے میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔ فرمایا اے پیغمبر السلام ! انک علی صراط مستقیم بیشک آپ راہ راست پر ہیں اور اسی پر چلتے ہیں۔ ایمان ، توحید اور نیکی کا یہی راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مقام تک پہنچاتا ہے۔ نیز فرمایا وانہ وانہ لذکر لک ولقومک بیشک یہ قرآن پاک نصیحت ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے بھی عام طور پر ذکر کا معنی نصیحت کیا جاتا ہے۔ تاہم مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ذکر سے مراد عزت اور شرف ہے۔ یہی معنی سورة ص میں بھی استعمال ہوا ہے۔ والقرآن ذی الذکر (آیت 10- ) قسم ہے شرف والے قرآن کی تو فرمایا کہ یہ قرآن پاک آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے باعث شرف ہے۔ اس سے بڑی عزت افزائی کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری پیغام قرآن قریش کی عربی زبان میں نازل فرمایا یہ ایسا کلام ہے جس سے مادی اور روحانی دونوں قسم کی ترقی یقینی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی فرمایت ہیں کہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت سے آپ قومی نبی ہیں اور قریش کی سعادت آپ کے ساتھ وابستہ ہے اور دوسری حیثیت آپ کی بین الاقوامی نبی کی ہے۔ جیسے فرمایا قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً (الاعراف 158- ) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ میں تم سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ بہرحال قرآن کا پروگرام پہلے حضور ﷺ کی قوم قریش کو دیا گیا اور پھر ان کی وساطت سے پیغام ساری دنیا کو عطا کیا گیا۔ چناچہ یہ قرآن قریش کے لئے خاص طور پر باعث عزت و شرف ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ قریش کے شرف کا یہ مطلب بھی ہے کہ خلافت بھی انہی میں رہے گی چناچہ پہلی ساڑھے چھ صدیوں تک مسلمانوں کی خلافت قریش کے پاس ہی رہی۔ اس کے بعد جب ان میں صلاحیت باقی نہ رہی ، امت میں فتنہ و فساد کے دروازے کھل گئے تو خلافت سلجوقیوں اور ترکوں کی طرف منتقل ہوگئی۔ قرآن و توحید کے متعلق سوال فرمایا یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے عزت کا باعث ہے وسوف تسئلون اور عنقریب قرآن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائیگا۔ باز پرس ہوگی کہ ہم نے تمہیں اس قرآن پاک کے ذریعے شرف بخشا تھا تم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ عام طور پر قرآن کا تمسک ختم ہوچکا ہے۔ لوگوں نے اسے پڑھنے ، سمجھنے اور سا پر عمل کرنے کی بجائے اس کو غلافوں میں بند کر کے الماریوں کی زینت بنا دیا ہے۔ قیامت والے دن حضور ﷺ اللہ کی بارگاہ میں شکایت پیش کرینگے وقال الرسول یرب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا (الفرقان 30- ) پروردگار میری اس قوم نے قرآن پاک کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ انہوں نے اس کو نافذ نہ کیا اور اس طرف اس کی تعلیمات سے مستفید نہ ہوئے بلکہ الٹا اس کی مخالفت کرتے رہے بہرحال قرآن کریم میں بھی اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس کے ساتھ یا سلوک کیا ؟ آگے اللہ نے توحید کا مسئلہ بیھ بیان فرمایا ہے وسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا ذرا ان سے پوچھ لیں جن کو ہم نے آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس سوال کے مصداق سابقہ کتب سماویہ زبور ، تورات اور انجیل کے قاری ہیں کہ ان سے پوچھ لیں اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یبسدون گیا ہم نے رحمان کے سوا دوسرے معبود تم کئے ہیں کہ جن کی عبادت کی جائے ؟ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے سوا کسی کو معبود بنانے کا حکم نہیں دیا۔ پھر یہ لوگ کس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے انبیاء نے بھی خالص توحید ہی کا درس دیا اور آپ کی تعلیمات اور قرآن کا محور بھی توحید ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں آتا ہے کہ مغراج کی رات جب تمام انبیاء (علیہم السلام) کا اجتماع ہوا اور حضور ﷺ نے سب کو نماز پڑھائی تو اس وقت آپ نے انبیاء سے دریافت کیا کہ تمہیں کس مقصد کے لئے دنیا میں بھیجا گیا تو سب نے یہی جواب دیا (بعثنا بالتوحید) (طبقات ابن سعد) لا الہ الا اللہ وانما یعبد من دون اللہ باطل کو ہماری سب کی مشترکہ دعوت کلمہ توحید تھی اور یہ بھی کہ اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جائے وہ باطل وقت یہ بھی کہا انت خاتم النبین وسید المرسلین آپ اللہ کے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا اور آپ تمام انبیاء اور رسل کے سردار ہیں۔ آپ کے بعد قرب قیامت میں صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان سے نزول ہوگا۔ مگر وہ آپ کے اتباع پر ہوں گے ، اپنی شریعت جاری نہیں کریں گے بلکہ دجال کا فتنہ ختم کردیں گے۔ بہرحال یہ مسئلہ تخلیق کائنات کے وقت سے لے کر متفق علیہ رہا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عبادت روا نہیں۔ اللہ نے اپنے سوا کسی کو معبود نامزد نہیں کیا ، اسی کی گواہی سابقہ انبیاء بھی دیں گے۔ یہ مسئلہ توحید بھی آ گیا آگے مزید تسلی کا مضمون آ را ہے۔ نیز شرک کی تردید اور طریقہ تبلیغ بھی بیان ہوگا۔
Top