Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو رحمن کی یاد سے آنکھیں بند کرلے ہم اس پر اس کا ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پس وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے
رحمن کے ذکر سے جو غفلت برتتا ہے اس کے لیے شیطان مسلط کردیا جاتا ہے 36 ؎ { یعش } کی اصل ع ش ا ہے اور عشا نظر کی کمی پر بولا جاتا ہے وہ رات کو کم نظر آنے پر بھی بولا جاتا ہے اور دن کو کم نظر آنے پر بھی اور دونوں میں کم نظر آنے پر ہی ، وہ اندھا پن نہیں ہے بلکہ نظر آتا ہے لکین بہت کم کیونکہ نظر کی کمزوری کے لیے اس کا استعمال عام ہے { نقیض } کی اصل ق ی ض ہے اور قیض کے معنی مقرر ہونے یا مسلط ہونے کے ہیں اور قرین کے معنی ساتھی کے ہیں۔ اب آیت کا مطلب واضح ہوجائے گا کہ انسان جب اندھا بہرا ہو کر رہ جاتا ہے اور ہر سنی اَن سنی کردیتا اور ہر دیکھی اَن دیکھی سمجھنے لگتا ہے تو اس کی اس حالت کا بیان فرمایا یوں سمجھو کہ گویا وہ انسان ایسا ہے جس پر شیطان مسلط ہوچکا ہے اور اس کا پکا ساتھی ہو کر رہ گیا ہے اور پھر ظاہر ہی ہے کہ جس کا ساتھی شیطان ہوگیا اس کی ہدایت کا سوال کم ہی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا ساتھی اس کو راہ سے اس طرح بھٹکا دے گا کہ وہ کبھی سیدھی راہ کی طرف رغبت ہی نہ کر پائے اور جس قدر اس سے دور رکھا جاسکتا ہے اس کو رکھا جائے۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ بلاشبہ شیطان وسوسہ اندازی تو سب کو کرتا ہے خواہ وہ کوئی ہو ، کون ہو اور کہاں ہو لیکن سارے انسان اس کی وسوسہ اندازی کو قبول نہیں کرتے کچھ ایسے بھی ہیں جو مکمل طور پر اس کی وسوسہ اندازی سے محفوظ رہتے ہیں اور کچھ پر اس کا داؤ وقتی طور پر چل جاتا ہے لیکن جن لوگوں کا وہ پکا ساتھی ہوگیا گویا وہ اس کے وسوسوں کے نیچے دب کر رہ گئے اس لیے اس کی وسوسہ اندازی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وسوسہ اندازی کو جھٹلا کر رکھ دیا جائے اور اس کو اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دیا جائے شیطان کا کام ہر کار خیر سے منع کرنا اور روکنا ہے اور اس کے لیے اس کے پاس بہت سے ہتھکنڈے ہیں اور وہ ان ہتھکنڈوں کے استعمال کو بھی خوب سمجھتا ہے اگر اس کی وضاحت آپ دیکھنا چاہتے ہوں تو ” تلبیس ابلیس “ کا مطالعہ کریں اور عزوۃ الوثقی جلد اول میں ابلیس و آدم کا قصہ تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں ے
Top