Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا کا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر کچھ بوجھ معلوم کرتی (یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا) ہے تو دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دیگا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔
اثبات توحید وابطال شرک قال اللہ تعالیٰ ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ۔۔۔ الی۔۔۔ ثم لا یقصرون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور کمال علم و حکمت کا ذکر تھا کہ وہی ہر نفع اور ضرر کا مالک ہے اور وہی عالم الغیب ہے اور شروع سورت میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہا السلام) کا قصہ ذکر فرمایا اب سورت قریب الختم ہے اس لیے حضرت آدم اور حوا کا قصہ اجمالی طور پر دوبارہ ذکر فرماتے ہیں جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال ہے اگرچہ گزشتہ آیات میں بھی توحید خداوندی کا مختصر سا ذکر ہوا ہے لیکن ان آیات میں اس مضمون کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں وہی اللہ ہے جس سنے تم سب انسانوں کو ایک ذات یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور پھر اسی ایک ذات سے اسکا جوڑ پیدا کیا۔ یعنی حواء کو پیدا کیا تاکہ آدم اس جوڑے کے ساتھ سکون اور آرام حاصل کرے۔ یعنی عورت کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا پھر ان سے نسل کا سلسلہ چلا اور اولاد پیدا ہوئی اور ان میں بھی میاں بیوی ہوئے سو ان میں بعض کی یہ حالت ہوئی کہ جب مرد نے عورت سے مقاربت یعنی ہم بستری کی تو اس عورت نے ایک ہلکا سا بوجھ اٹھایا یعنی نطفہ نے اس کے رحم میں قرار پکڑا جو ایک ہلکا سا بوجھ تھا۔ سو وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی۔ اول اول حمل کا بوجھ ہلکا رہا جس کی وجہ سے وہ بےتکلیف چلتی پھرتی رہی پس جب وہ بوجھل ہوئی اور میاں بیوی دونوں کو یقین ہوگیا کہ حمل ہے تو اس وقت دونوں کو طرح کے خطرات اور توہمات پیش آنے لگے جیسا کہ پیش آیا کرتے ہیں تو اس وقت میاں اور بیوی دونوں اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگنے لگے کہ اے پروردگار اگر تو نے ہم کو صحیح سالم بیٹآ عطاء کیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے جیسا کہ عام عادت ہے کہ نعمت ملنے سے پہلے بڑے عہد اور میثاق کرتے ہیں پھر جب نعمت مل جاتی ہے تو حالت بدل جاتی ہے پس یوں ہی ہوا کہ جب اللہ نے ان کو صحیح سالم بیٹآ دے دیا تو انہوں نے اس خداداد بیٹے میں جو اللہ نے ان کو عطاء کیا شریک ٹھہرانے لگے اور یہ کہنے لگے کہ بیٹا تو تاثیر کواکب سے پیدا ہوا ہے اور کسی نے کہا کہ ہمارے بتوں نے ہم کو بخشا ہے وغیرہ وغیرہ اسی لیے کسی نے بچہ کا نام عبدالعزی اور عبد مناف رکھا اور کسی نے عبد شمس اور اور کسی نے عبد المسیح اور کسی نے عبدالنبی اور کسی نے عبدالرسول اور کسی نے بندہ علی نام رکھا۔ سو اللہ پاک اور برتر ہے اس چیز سے جو کو یہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں منعم حقیقی کے نام پر تو نام نہ رکھا اور غیر اللہ کی طرف اس کو منسوب کردیا بجائے عبداللہ اور عبدالرحمن نام رکھنے کے عبدالشمس اور عبدالعزی نام رکھدیا۔ محققین مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ابتداء آیت میں اگرچہ آدم اور حواء کا ذکر تھا مگر وہ بطور تمہید تھا مگر بعد میں مطلق مرد اور عورت کے ذکر کی طرف منتقل ہوگئے کیونکہ حضرت آدم اور حضرت حواء کے ذکر سے مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے آدمیوں میں نر اور مادہ کو پیدا کیا تاکہ ایک دوسرے سے مانوس ہوں جسکا ان کو شکر گزار ہونا چاہئے تھا مگر ان کی حالت یہ ہے کہ آڑے وقت میں تو صرف ہم کو پکارتے ہیں اور جب وقت نکل جاتا ہے تو ہمارے ساتھ اوروں کو شریک کرنے لگتے ہیں غرض یہ کہ اصل مقصود مطلق مرد اور عورت کا حال بتلانا ہے اس لیے محققین مفسرین کی رائے یہ ہے کہ فلما اتھما صالحا جعلا لہ شرکاء فیما اتھما میں تثنیہ کی تینوں ضمیریں خاص حضرت آدم اور حواء کی طرف راجع نہیں بلکہ ان دونوں کی اولاد کے مردوں اور عورتوں کی طرف راجع ہیں یا یوں کہو کہ ان کی نسل میں سے دو مختلف جنسوں کی طرف راجع ہیں اور تقدیر کلام الٰہی اس طرح سے ہے فلما اتی اللہ ادم وحواء الولد الصالح الذی تمنیاہ وطلباہ۔ جعل کفار اولادھما ذلک مضافا الی غیر اللہ تعالی۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ادم اور حواء کو فرزند صالح عطا فرمایا جس کی ان دونوں نے خواہش کی تھی تو آئندہ چل کر ان کی کافر اولاد نے اس کو غیر خدا کی طرف منسوب کیا اور اس تاویل کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ فتعلی اللہ عما یشرکون میں لفظ یشرکون صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اور یشرکان صیغہ تثنیہ کا نہیں لایا گیا معلوم ہوا کہ خود حضرت آدم اور حواء مراد نہیں بلکہ یہ شرک کسی جماعت سے صادر ہوا ہے جو اولاد آدم سے ہے اور مسلسل شرک میں گرفتار ہیں کیونکہ عما یشرکون مضارع کا صیغہ ہے و استمرار تجددی کے لیے لایا گیا ہے معاذ اللہ جس کا حضرت آدم اور حواء کے بارے میں تصور بھی نہیں ہوسکتا معاذ اللہ اگر آیت میں حضرت آدم و حواء کا شرک مراد ہوتا تو فتعالیٰ عما یشرکان بصیغہ تثنیہ آتا معلوم ہوا کہ جعلالہ شرکاء کی ضمیر تثنیہ۔ دو جنسین یا نوعین مختلفین کی طرف راجع ہے نہ کہ آدم اور حواء کی طرف۔ غرض یہ کہ ان آیات میں خاص آدم اور حواء کا حال بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ عام آدمیوں کے مرد اور عورت کا حال بیان کرنا مقصود ہے بیشک ابتداء کلام یعنی ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجھا میں بطور تمہید آدم اور حواء کا ذکر تھا مگر اس کے بعد مطلق مرد اور عورت کے ذکر کی طرف منتقل ہوگئے اور قرآن کریم میں بکثرت ایسا ہے کہ شخص کے ذکر سے جنس کے ذکر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں جیسے ولقد زینا السماء والدنیا بمصابیح وجعلنھا رجوما للشیطین میں جن سیاروں کو مصابیح فرمایا ہے وہ ٹوٹنے والے نہیں جن سے شیاطین کا رجم ہوتا ہے مگر شخص مصابیح سے جنس مصابیح کی طرف راجع کی گئی۔ اب بحمدہ تعالیٰ وجعلا لہ شرکاء کی تفسیر میں کوئی اشکال نہیں رہا اور بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں روئے سخن آدم اور حواء کی طرف ہے اس لیے کہ بعض روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حضرت آدم اور حواء (علیہما السلام) کا حال ہے حضرت حواء کے کئی بچے مرچکے تھے اس کے بعد وہ حاملہ ہوئیں تو شیطان نے ان سے آکر کہا کہ اگر اس کا نام عبدالحارث رکھا اور حارث ابلیس کا نام تھا اور بظاہر حضرت حواء کو اس کی خبر نہ تھی کہ حارث شیطان کا نام ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ یہ مشورہ دینے والا شیطان ہے یا بھیس بدل کر آیا ہوگا اور حضرت حواء نے پہچانا نہ ہوگا۔ اور اس قسم کا مکر حضرت آدم اور حواء نے نہ کبھی سنا تھا اور نہ دیکھا تھا پہلا موقعہ تھا بیخبر ی سے دھوکہ میں آگئے سو یہ روایت اگرچہ ترمذی میں مذکور ہے مگر متعدد وجوہ سے معلول ہے اور حضرات محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے علاوہ ازیں اسماء اعلام میں لغوی معنی کا لحاظ اور اعتبار نہیں ہوتا اور اگر بالفرض کچھ لحاظ ہو بھی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس کی طرف لفظ عبد کو مضاف کیا جائے اس کو معبود سمجھ لیا جائے عرب کا محاورہ ہے کہ میزبان کو عبدالضیف کہتے ہیں یعنی مہمان کا غلام اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مہمان اس کا معبود ہے اور یہ اس کی پوجا کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے جد امجد کا نام عبدالمطلب تھا کوئی شخص اس کا مطلب نہیں سمجھتا تھا کہ وہ مطلب کے بندہ ہیں اور مطلب ان کا معبود ہے پس اگر عبدالحارث نام رکھنے کا واقعہ صحیح ہو تو اس سے شرک فی التسمیہ مراد ہوگا۔ معاذ اللہ یہ ممکن نہیں کہ حقیقۃ ً شرک کا ارتکاب کرے۔ لیکن ایسا نام رکھنا جس سے شرک کی بو آتی ہو۔ یہ نبی کی شان رفیع کے مناسب نہیں اور قرآن کریم کی عادت ہے کہ انبیاء اور مقربین کی چھوٹی سی چھوٹی باتوں اور لغزشوں اور بھول چوک کو بھی سخت عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے۔ فظن ان لن نقدر علیہ اور دوسری جگہ ہے حتی اذا استایئس الرسل وظنوا انھم قد کذبوا اسی طرح یہاں بھی سمجھئے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے رتبہ کے لحاظ سے اس تسمیہ کو جس میں شرک کا ایہام تھا تغلیظا ان الفاظ میں ادا فرمایا۔ وجعلالہ شرکاء آخر درخت سے کچھ کھالینا وہ بلاشبہ سہو اور نسیان سے تھا اور سہو ونسیان عقلاً ونقلاً قابل مواخذہ نہیں مگر حضرت آدم نے جو بھولے سے کھالیا اس پر قرآن کریم میں کس قدر عتاب آیا۔ یہ عتاب ان کی شان رفیع کے لحاظ سے تھا۔ ابطال شرک و بت پرستی گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ کی صفات کاملہ کا ذکر تھا جو اس کے استحقاق معبودیت کی دلیل تھیں اب آگے آلہہ باطلہ کے نقائص کا ذکر ہے جو ان کی عدم معبودیت کی دلیل ہیں بلکہ وہ تو اپنے پرستاروں سے بھی بدتر ہیں نہ ان کے ہاتھ ہیں نہ ان کے پیر نہ ان کے آنکھ نہ ان کے کان وہ اپنے پرستاروں کی آواز بھی نہیں سن سکتے پھر کیوں ان کی پرستش کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کیا یہ لوگ خالق کائنات کے ساتھ ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور خالق کے ساتھ شریک کرنا کمال بےعقلی ہے اور اپنے ہاتھ کی تراشیدہ چیز کو اپنا معبود بنانا کمال ابلہی ہے اور کسی چیز کا پیدا کرنا تو بڑی بات ہے یہ تو اپنے پرستش کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد بھی نہیں کرسکتے کہ ان کی مصیبت اور تکلیف ہی کو دور کردیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں کہ کوئی انکو توڑنے پھوڑنے لگے تو اپنے آپ کو توڑ پھوڑ ہی سے بچالیں یا کوئی ان پر میل یا گندگی لگانے لگے تو اسی سے اپنے آپ کو دور کرسکیں ان سے بہتر تو انسان ہی ہے کہ دوسرے کی بھی مدد کرسکتا ہے اور اپنا بھی بچاؤ کرسکتا حالانکہ عقل کا تقاضہ ہے کہ معبود عابد سے بہتر ہونا چاہئے یہاں ماجرا برعکس ہے اور اس سے بھی بڑھ کر سنو وہ یہ کہ اگر تم ان کو کسی بات کے بتلانے کے لیے پکارو تو وہ تمہاری پیروی نہ کریں تمہارا پکارنا اور خاموش رہنا سب برابر ہے پس ایسوں کو کیوں پکارتے ہو پس جو ذات اس درجہ عاجز ہو کہ پکار کو بھی نہ سنے وہ کیسے معبود ہوسکتی ہے حالانکہ پکار کو سن لینا نہایت سہل ہے اور کسی کی مدد کرنا یا اپنی حفاظت کرنا یہ اس سے مشکل ہے پس جو ذات ایسی آسان چیزوں سے افضل اور اکمل ہیں تو ان معبودوں کو پکارو تو سہی پس ان کو چاہئے کہ تمہاری پکار کا جواب دیں اور تمہاری عرض معروض کو قبول کریں اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ وہ تمہارے معبود برحق ہیں اس لیے کہ معبود برحق پر لازم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی دعا کو قبول کرے اور اس کی نداء اور دعا کا جواب دے وہ تمہاری باتوں کا کیا جواب دے سکتے ہیں وہ تو ان کمالات سے بھی عاری ہیں جو ایک معمولی انسان کو حاصل ہوتے ہیں کیا ان کے لیے پیر ہیں جن سے وہ چل سکیں اور کسی قسم کی حرکت کرسکیں یا ان کے لیے ہاتھ ہیں جن سے وہ کوئی چیز پکڑ سکیں یا ان کے لیے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے لیے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں پس ایسے لولوں اور لنگڑوں اور اندھوں اور بہروں کو خدا بنانا اعلی درجہ کی حماقت ہے مطلب یہ ہے کہ تم خود قائل ہو کہ ان کے نہ پاؤں ہیں اور نہ ہاتھ ہیں اور نہ انکی آنکھیں بینا اور نہ کان میں ہیں شنوا اور تمہیں یہ سب چیزیں حاصل ہیں تو تم ان سے افضل اور بہتر ہو لہذا تمہارا بتوں کے آگے جھکنا جو تم سے بہت کمتر اور عاجز ہیں کمال درجہ کی بےوقوفی ہے آپ ان سے کہدیجئے کہ تم اپنے تجویز کردہ شریکوں کو بلاؤ پھر سب ملکر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھے مہلت بھی نہ دو مجھے تمہارے معبودوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں اس لیے کہ تحقیق میرا کارساز وہ اللہ ہے جس نے یہ مبارک کتاب مجھ پر نازل کی وہ خاص طور پر میرا کارساز اور معین اور مددگار ہے اور وہ تو عام طور پر سب نیکو کاروں کا کارساز ہے اور میں تو خدا تعالیٰ کا خاص الخاص پیغمبر ہوں وہ میری تو ضرور ہی مدد کرے گا۔ پھر مجھے کہاں کا ڈر ہے اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اور پوجتے ہو یعنی بتوں کو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں جب کوئی ان کے توڑنے اور خراب کرنے کا قصد کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتے اور مدد کرنا تو بڑی بات ہے ان کو تو اگر کسی بات بتلانے کے لیے پکارو تو وہ سنیں گے بھی نہیں کیونکہ ان کے کان ہی نہیں (اے نبی) آپ ان بتوں کو دیکھیں گے کہ گویا وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ان پر آنکھوں کی شکل بنی ہوئی ہے حالانکہ وہ واقع میں کچھ نہیں دیکھتے کیونکہ وہ حقیقت میں آنکھ نہیں رکھتے اور اگر بالفرض والتقدیر اس بیان واضح اور برہان ساطع کے بعد بھی آپ سے اپنے شرکاء کے بارے میں مجادلہ کریں تو اے نبی آپ ان مجادلین اور معاندین سے بچائے غصہ کے دگزر کو اختیار کرو شاید نصیحت قبول کریں اور ان کو نیک کام کا حکم دیجئے اگر ذرا بھی عقل ہوگی تو قبول کریں گے اور جاہلوں سے اعراض اور کنارہ کشی کرو یعنی وہ لوگ اگر جہالت سے پیش آئیں تو آپ ان سے اعراض کریں نہ ان پر غصہ کریں اور نہ ان کے درپے ہوں اور اگر اتفاقا کسی وقت ان کی جہالت پر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آپ کو غصہ پر آمادہ کرے تو آپ اس کے شر سے بچنے کے لیے خدا سے پناہ مانگئے بیشک اللہ تعالیٰ زبان کی بات کو سننے والا اور دل کی بات کو جاننے والا ہے جوش اور غصہ کے وقت اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پڑھنا تریاق مجرب ہے تحقیق جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی ایسا خیال آتا ہے جو ان کے دل کے گرد گھوم جائے اور ان کو غصہ پر آمادہ کرے تو وہ چونک جاتے ہیں پھر ناگہاں اسی دم وہ بینا ہوجاتے ہیں اور راہ صواب ان کو نظر آجاتی ہے اور اس مینائی کے ذریعہ وسوسہ شیطانی کی ظلمت اور کدورت کو اپنے دل سے دور کرتے ہیں اور راہ صواب پر آجاتے ہیں اور اس سے وسوسہ کا اثر ان کے دل سے جاتا رہتا ہے اور اس کے برعکس برادران کفار یعنی شیاطین مشرکوں کو گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں پھر گمراہ کرنے میں کچھ کسر نہیں چھوڑتے مطلب یہ ہے کہ مومن کو گناہ کا خیال آتا ہے تو خدا کو یاد کر کے اس خیال سے باز آجاتا ہے اور شیطانی وسوسہ اس کے دل سے نکل جاتا ہے بخلاف کفار کے کہ ان کے برادران یعنی شیاطین جب ان کے ساتھ لگ جاتے ہیں تو ان کو خوب اپنے قابو میں کرلیتے ہیں اور ہمیشہ ان کو معصیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اس ترجمہ میں لفظ طائف کے اصل معنی کی طرف اشارہ ہے 12 منہ عفا اللہ عنہ خلاصۂ کلام یہ کہ متقین کو وسوسہ شیطانی سے اگر غفلت لاحق ہوتی ہے تو فورا چونک پڑتے ہیں اور ٹھوکر لگتے ہی سنبھل جاتے ہیں اور غفلت کا پردہ فورا ان کی آنکھوں سے اٹھ جاتا ہے بخلاف شیطانی برادری کے کہ اس کی غفلت اور معصیت میں برابر زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ فائدہ : نبی اکرم ﷺ اور تمام انبیاء کرام صغائر اور کبائر سے معصوم ہیں اور شیطان کی مجال نہیں کہ ان پر اپنا کوئی داؤ چلا سکے اور اس آیت یعنی واما ینزغنک من الشیطان نزغ کا مضمون عصمت نبوی کے منافی نہیں اس لیے کہ اوپر کی آیت میں آنحضرت ﷺ کو حلم اور درگزر کرنے کا حکم ہوا تھا اب اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر کسی وقت بمقتضائے بشریت جاہلوں کی جہالت پر آپ کو غصہ وغیرہ آجائے اور حکم سابق کے خلاف خیال آپ کے دل میں گزرے تو فورا اللہ پاک سے پناہ مانگئے اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیے اور ظاہر ہے کہ ایسا خیال شان عصمت کے ذرہ برابر منافی نہیں
Top