Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 60
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جو۔ جس خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّجَعَلَ : اور بنایا مِنْهَا : اس سے زَوْجَهَا : اس کا جوڑا لِيَسْكُنَ : تاکہ وہ سکون حاصل کرے اِلَيْهَا : اس کی طرف (پاس) فَلَمَّا : پھر جب تَغَشّٰىهَا : مرد نے اس کو ڈھانپ لیا حَمَلَتْ : اسے حمل رہا حَمْلًا : ہلکا سا خَفِيْفًا : ہلکا سا فَمَرَّتْ : پھر وہ لیے پھری بِهٖ : اس کے ساتھ (اسکو) فَلَمَّآ : پھر جب اَثْقَلَتْ : بوجھل ہوگئی دَّعَوَا اللّٰهَ : دونوں نے پکارا رَبَّهُمَا : دونوں کا (اپنا) رب لَئِنْ : اگر اٰتَيْتَنَا : تونے ہمیں دیا صَالِحًا : صالح لَّنَكُوْنَنَّ : ہم ضرور ہوں گے مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا ؟ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ (ہر گز نہیں) بلکہ یہ لوگ راستے سے الگ ہو رہے ہیں
60: اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے وہ خیرات و منافع ذکر فرمائے جو کہ اس کی رحمت و فضل کے آثار ہیں۔ چناچہ فرمایا : امن خلق السموت والارض۔ (کیا وہ ذات بہتر ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا) ۔ فرق : امّا یشرکون کے ام اور امن خلق السموت کے ام میں یہ ہے۔ اما یشرکون کا ام متصلہ ہے۔ اس لئے معنی یہ ہے۔ ان میں کون زیادہ بہتر ہے۔ اور یہ ام منقطعہ ہے جو کہ بل کے معنی میں ہے۔ اور ہمزہ سابقہ استفہام سے اعراض کے لئے ہے۔ کیونکہ یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر خیر کا مبدأ ہے۔ دوسرے معبودوں میں خیر کا نشان بھی نہیں۔ پھر استفہام کی صورت میں دونوں میں برابری کرنا اور سوال میں موازنہ کرنا کسی طرح زیبا نہیں اسی لئے سابق استفہام سے اعراض کیا اس صورت میں یہ استفہام تقریری برائے تاکید ہے۔ کہ جس نے آسمان بنائے وہی بہتر ہے۔ وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً (اور اس نے اتارا تمہارے لئے آسمان سے پانی) ۔ مآء سے مراد بارش ہے۔ فَاَنْبَتْنَا (پس ہم نے اُگائے) ۔ کلام کا رخ غیبت سے متکلم کی طرف کردیا۔ نمبر 1۔ تاکہ اس بات کی تاکید کردی جائے کہ یہ فعل اس کی ذات سے مختص ہے۔ نمبر 2۔ اور مختلف قسم کے باغات ٗ جن کے رنگ ٗ ذائقے ٗ پرکشش شکلیں ایک ہی پانی سے پیدا کرنے پر صرف ایک وحدہ لاشریک ذات کو قدرت حاصل ہے۔ بِہٖ (اس پانی کے ذریعہ) حَدَآپقَ (باغات ٗ باغیچے) الحدیقۃ (دیوار سے گھرا ہوا باغ) ۔ یہ احداق سے بنا ہے وہ احاطہ کو کہا جاتا ہے۔ ذَاتَ یہاں ذوات کی بجائے ذات لایا گیا۔ کیونکہ معنی بہت سے حدائق ہے۔ جیسا کہتے ہیں۔ النساء ذہبت۔ بَہْجَۃٍ (پر رونق) ۔ حسین۔ کیونکہ دیکھنے والا ان سے سرور حاصل کرتا ہے۔ پھر خصوصیت کی طرف اس ارشاد سے اشارہ کیا۔ مَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْچبِتُوْا شَجَرَہَا (تمہارے لئے ان کے درختوں کا اگانا ممکن نہیں تھا) ۔ کینونت کا معنی یہاں انبغاء ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایسا کرنا غیروں کے لئے محال ہے۔ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ (کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی معبود ہے) ۔ کیا اس کے ساتھ اور کوئی ملایا جائے اور اس کا شریک بنایا جائے۔ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ (بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو اس کے برابر قرار دیتے ہیں) ۔ یا اللہ تعالیٰ کے حق توحید سے اعراض کرتے ہیں۔ بل ہم کے الفاظ خطاب کے بعد ان کی رائے کی غلطی کے اظہار کے لئے بہت بلیغ ہیں۔
Top