Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
اللہ کی ذات وہ ہے جس نے پیدا کیا ہے تم کو ایک جان سے اور بنایا ہے اس سے اس کا جوڑا تاکہ سکونپ کڑے اس کی طرف پھر جب مرد نے ڈھانپا اس عورت کو تو حمل ٹھہرا اس عورت کو ہلکا سا پھر وہ اس کو لے کر چلتی پھرتی رہی۔ جب وہ بوجھل ہوگئی تو پکارا دونوں نے اپنے پروردگار کو کہ اگر تو دے گا ہمیں اچھا بھلا بچہ تو ہم ضرور ہوں گے شکر گزاروں میں سے
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ رکوع کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمائے حسنہ کا ذکر فرمایا اور حکم دیا کہ مجھے انہی ناموں سے پکارا کرو اور یہ کہ ان ناموں میں الحاد نہ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کا اہم خاص غیر اللہ پر مت بولو ، اس کی صفت اور اسم کو غلط معنی نہ پہنائو یا ان کو غلط جگہ پر استعمال نہ کرو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارض وسما کی سلطنت میں غور وفکر کی دعوت دی جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا بیان کرنا اور اس کی وحدانیت کو سمجھنا مقصود ہعے اس کے ساتھ معاذ کا بیان بھی ہوا کہ لوگ آپ سے وقوع قیامت کے وقت کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ چیز باری تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور اس کا علم اس نے کسی کو نہیں دیا کوئی نبی ، فرشتہ یا انسان قیامت برپا ہونے کے وقت کو نہیں جانتا ، البتہ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی بعض نشانیوں کا ذکر ملتا ہے پھر اللہ نے پیغمبر (علیہ السلام) سے کہلوایا کہ قیامت کا علم تو بڑی بات ہے میں تو اپنی جان کے لیے بھی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں ، یہ سب کچھ خدا وند تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے سوائے اس کے کہ جو اللہ چاہے پھر فرمایا کہ اگر میں غیب کا علم جانتا تو اپنے لیے بہت سے مفاد حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی غیب جاننے کی وجہ سے میں پیش بندی کرلیتا اور نقصان سے بچنے کی تدبیر کرلیتا مگر علم غیب بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اس کے سوا علم غیب بھی کوئی نہیں جانتا۔ اب آج کے درس میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور شرک کی تردید کا بیان ہے ایمان کی حقیقت کو بگاڑنے والی چیز شرک ہی ہے یہ روحانی بیماریوں میں سب سے بری بیماری ہے عقیدے کو خراب کرنے والے امراض کفر ، نفاق ، شک ، ترود ، الحاد ، زمذقہ وغیرہ میں سے شرک سب سے خطرناک بیماری ہے اس کے بعد عملی اور اخلاقی بیماریوں کا نمبر آتا ہے سو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے شرک کی صراحتاً تردید فرمائی ہے اس رکوع میں اللہ نے اس مضمون کو کافی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ نفس واحدۃ سے تخلیق ارشاد ہوتا ہے ھوالذی خلقکم من نفس واحدۃ خدا کی ذات وہ رحیم اور کریم ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا تخلیق انسانی کا مسئلہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے سورة نساء کی ابتداء اسی مسئلہ سے ہوئی ہے اس کے علاوہ سورة مومن ، سورة انبیاء اور بعض دیگر سورتوں میں بھی اس کا بیان آتا ہے تو فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا وجعل منھا زوجہا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا یہاں پر ایک جان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور جوڑے سے مراد آپ کی بیوی حوا ہیں جو تمام انسانوں کی ماں ہیں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر جیسا کہ صحیمین کی روایت میں آتا ہے آپ کی پسلیوں سے حوا کی تخلیق کی چونکہ پسلیاں ٹیڑھی ہوتی ہیں اس لیے عورت کی فطرت میں قدر کجی پائی جاتی ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے اس کے ٹیڑھا پن سے ہی فائدہ حاصل کرو اس کو سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ، کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ٹوٹ جائے گی مگر سیدھی نہیں ہوگی۔ آگے حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں وکسرھا طلاقھا اس کا توڑنا یہ ہ کہ طلاق دے کر علیحدہ کردوگے جیسا کہ عرض کیا نفس واحدہ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی اللہ نے فرمایا خلقکم من تراب تم سب کو مٹی سے پیدا کیا چونکہ انسانوں کے جدامجد کو مٹی سے پیدا کیا اس لحاظ سے تمام انسان مٹی سے تخلیق ہوئے اللہ نے یہ بھی فرمایا انی خالق بشراً من طین کہ میں مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو حکم دیا کہ تمام روئے زمین کی مٹی لی جائے چناچہ ہر جگہ کی کالی ، سفید ، سرخ ، ریتلی ، چکنی وغیرہ مٹی حاصل کرکے اس سے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کی گئی حضور ﷺ نے فرمایا کہ نسل انسانی میں اسی مٹی کا اثر ہے کہ کوئی آدمی کالا ہے کوئی گورا ہے کوئی سخ مزاج اور کوئی نرم خو ، کوئی طیب اور کوئی خبیث اور پھر ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ کسی انسان کی تخلیق جس جگہ کی مٹی سے ہوتی ہے انسان مرنے کے بعد اسی مٹی میں آکر مل جاتا ہے یعنی اسی مقام پر اس کی قبر بنتی ہے۔ تخلیق کا جدید نظریہ بہرحال قرآن پاک نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ تمام انسان ایک نفس کی اولاد ہیں جس سے بعض فلاسفروں کے نظریات کی نفی ہوتی ہے جو بنی نوع انسان کو کسی ایک شخص کی اولاد نہیں متعدد اشخاص سے سمجھتے ہیں انیسویں صدی کے ڈارون کا فلسفہ یہ ہے کہ نسل انسانی بندروں کی ترقی یافتہ نسل ہے پہلے سب بندر تھے پھر آہستہ آہستہ انسانوں کی شکل میں ترقی کرگئے پہلے عقل و شعور بھی کم تھا جو بعد میں مکمل ہوگیا ہندو بھی نفس واحدۃ کو نہیں مانتے برخلاف اس کے قرآنی نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلا انسان پیدا کیا وہ نبی تھا اور نبی ذہنی اور عقلی اعتبار سے کامل درجے کا انسان ہوتا ہے حضرت علی ؓ کا قول ہے الناس من جھۃ التمشال اکفاء ابوھم اٰدم والام ، حواء تمام لوگ ایک دوسرے کے ہم مثل ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں ان کا باپ آدم (علیہ السلام) ہے اور ماں حوا ؓ ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد بھی ہے الناس کلھم ابناء اٰدم و اٰدم من تراب تمام انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی مذکورہ نفس واحدہ کا نظریہ قرآن پاک کے علاوہ باقی آسمانی کتابوں میں بھی ملتا ہے چناچہ تورات کا پہلا باپ ہی تخلیق (پیدائش) کے نام پر ہے۔ تخلیق زوج فرمایا اللہ تعالیٰ وہی ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا وجعل منھا زوجھا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا آدم (علیہ السلام) کو نرپیدا فرمایا اور پھر حوا ؓ کو ان کا جوڑا یعنی مادہ بنایا حضرت حوا ؓ کی پیدائش کے متعلق تفاسیر میں آتا ہے کہ حضر آدم (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی پسلی سے حضرت حوا ؓ کو پیدا فرمایا دراصل جیب اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا توہ جنت میں تنہا تھے جس کی وجہ سے انہیں وحشت ہوتی تھی اور بےاطمینانی کی سی کیفیت تھی اس بےسکونی کی حالت کو تبدیل کرنے کے لیے اللہ نے حوا ؓ کی صورت میں ان کا جوڑا پیدا کیا لیسکن الیھا تاکہ آدم (علیہ السلام) حوا کی طرف سکون پکڑیں چناچہ جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو حوا آپ کے پاس موجود تھیں جنہیں پاکر آپ کو تسکین ہونے لگی اب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی سے کہا یاٰدم اسکن انت وزوجک الجنۃ (البقرہ) یعنی اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو خوب کھائو پیو ، یہاں تمہیں راحت کے تمام سامان میسر ہوں گے البتہ یاد رکھو ! اس ایک درخت کے قریب نہ جانا ، میاں بیوی کچھ عرصہ تک جنت میں رہے اور پھر شیطان کے بہکانے اور جنت کے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے میاں بیوی کا لباس بھی اتر گیا اور بالآخر انہیں جنت سے نکلنا پڑا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی ابتداء کا ذکر کیا ہے کہ پہلے ایک مرد کو پیدا کیا گیا اور پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی آگے بڑھی ، سورة نساء کی ابتداء میں بھی ہے اے لوگو ! اس پروردگار سے ڈر جائو جس نے تمہیں نفس واحدۃ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا کیا وبث منھما رجالاً کثیراً ونساء پھر ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوزن پھیلا دیے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کا جوڑ پیدا کرنے کی ایک وجہ تو یہ بیان فرمائی تا کہ وہ سکون پکڑے اور ساتھ یہ بھی فرما دیا وجعل بینکم مودۃ رحمۃ (الروم) تمہارے درمیان محبت اور شفقت کے جذبات پیدا کردیے اور محبت والفت کے یہی جذبات ہیں جو نسل انسانی کے آگے پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں اس میں طبعی خواہشات بھی ہیں عقلی ضروریات بھی اور قانون کی پابندی بھی ، جب کوئی انسان تنہا ہوتا ہے تو وہ ضابطہ اخلاق کا پابند ہوتا ہے اور جب وہ دو ہوجاتے ہیں تو انہیں قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے اور یہی ترقی کا پہلا زینہ ہے میاں بیوی کے پانے اپنے حقوق و فرائض ہیں جب یہ حقوق ادا کیے جاتے ہیں تو قانون کی پابندی ہوتی ہے اور انسان کو ترقی اور عروج حاصل ہوتا ہے جب تک قانون کی پابندی نہیں کی جائے گی کوئی انسان خطیرۃ القدس کے راستے پر قدم بھی نہیں رکھ سکتا بہرحال اللہ تعالیٰ نے ایک انسان سے دو بنائے پھر دو سے بڑھے تو خاندان بگیا رشتہ داریاں قائم ہوئیں قبائل بنے اور نسل انسانی وجود میں آگئی۔ اولاد کے لیے شرک نسل انسانی کی عمومی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں کیے جانے والے شرک کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے فلما تغشھا جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا غاشیہ پردے کو کہتے ہیں ڈھانپ دینا ، کپڑا ڈال دینا اور مراد یہ ہے کہ جب مرنے اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی حملت حملاً خفیفاً تو پہلے ہلکا سا حمل رہا فمرت بہ تو عورت اس حمل کے ساتھ چلتی پھرتی رہی کوئی خاص تکلیف محسوس نہ کی فلما اتقلت پھر جب وہ بوجھل ہوگئی آہستہ آہستہ حمل بڑھ گیا اور پیٹ بھاری ہوگیا بچے کی پیدائش کا وقت قریب آگیا اور انہیں زچہ و بچہ کے متعلق فکر لاحق ہوئی تو دونوں بیوی اور خاوند نے دعوا اللہ ربھما اپنے رب سے دعا کی لن اتیتنا صالحاً کہ اگر تو ہمیں صحیح سلامت اچھا بھلا بچہ عطا کرے گا لنکونن من الشکرین تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے فلما اتھما صالحاً پھر جب اللہ نے انہیں صحیح سلامت ، صحت مند بچہ عطا کردیا جعلالہ شرکاء فیھا اتھما تو اللہ کے عطا کردہ میں دونوں نے اسی کا شریک بنالیا یعنی بچے کے عطا کرنے میں غیروں کو بھی شریک کرلیا۔ اس سلسلے میں ترمذی ، مسند احمد اور مستدرک حاک میں روایت آئی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کے بچے پیدا ہو کر مرجاتے تھے جس کی وجہ سے وہ بڑے متفکر رہتے تھے اس اثنا میں ان کے پاس شیطان آیا اور انہیں خوفزدہ کیا کہ بچے کی پیدائش بڑی تکلیف دہ چیز ہے نیز یہ کہ ہونے والا بچہ ناقص اتحلقت بھی ہوسکتا ہے اور پھر خود ہی انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ بچے کی پیدائش صحیح سلامت چاہتے ہیں اور اس کا زندہ رہنا بھی مطلوب ہے تو پھر پیدائش کے بعد اس کا نام عبدالحارث رکھنے کا عہد کرو فرشتوں میں حارث شیطان کا نام مشہور تھا اور وہ اس قسم کا نام رکھوا کر آدم اور حوا کو شرک میں مبتلا کرنا چاہتا تھا وہ دونوں خوفزدہ تھے چناچہ انہوں نے یہ نام رکھنے کا وعدہ کرلیا پھر جب بچہ صحیح سلامت پیدا ہوا تو اس کا نام عبدالحارث رکھا اور وہ زندہ رہا اسی چیز کے متعلق فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سلامت بچہ عطا فرمایا تو انہوں نے بچے کا نام شیطان کے نام پر رکھ کر شرک کا ارتکاب کیا۔ اس روایت کو جمہور محدثین نے تسلیم نہیں کیا کیونکہ اللہ کے نبی آدم (علیہ السلام) کی طرف شرک کی نسبت کرنا درست نہیں ہوسکتا دوسری بات یہ بھی کہ آدم (علیہ السلام) ایک دفعہ پہلے بھی شیطان کے ہاتھوں زگ اٹھا چکے تھے جب انہیں جنت سے نکلنا پڑا تو اب وہ دوبارہ اس کے دھوکے میں نہیں آسکتے تھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان بھی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا لہٰذا یہ روایت اصلاً ہی غلط ہے۔ اس آیت کریمہ کی توضیع امام حسن بصری (رح) اور مجاہد (رح) اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آیت کا پہلا حصہ ھوالذی سے لے کر لیسکن الیھاتک حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ کے بیان پر مشتمل ہے جب کہ فلما تغشھا سے شروع کرکے اگلی بات عام بنی نوع انسان کے متعلق ہے نہ کہ صرف آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کے متعلق چناچہ اس حصہ آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نوع انسانی میں جب کسی مرد نے عورت کو ڈھانپا یعنی اس کے ساتھ اختلاط کیا تو پہلے اسے ہلکا سا حمل ٹھہرا اور پھر وہ بڑھ کر بھاری ہوگیا تو میاں بیوی نے صحیح سلامت بچے کی دعا کی جب بچہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کا شریک بنالیا فرماتے ہیں یہ عام انسانوں کی بات ہے اللہ کے نبی تو معصوم عن الخطا ہوتے ہیں وہ تو ایک لحظہ کے لیے بھی شرک میں مبتلا نہیں ہوسکتے حضرت حوا ؓ بھی اہل ایمان اور نبی کی بیوی تھیں ان سے بھی ایسی توقع نہیں کی جاسکتی۔ نام میں شرک نومولود کے نام رکھنے میں شرک ابتداء سے چلا آرہا ہے اور آج بھی اس کا ارتکاب ہوتا ہے عبدالحارث کے علاوہ عبدالعزی ، عبدالمسیح ، عبدالمناۃ وغیرہ قسم کے نام حضور ﷺ کے زمانے میں بھی پائے جاتے تھے اور فقیر بخش ، نبی بخش ، عبدالرسول ، عبدالحین ، عبداعلی ، پیراں دتہ وغیرہ قسم کے نام آج ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہیں عطا تو اللہ کرتا ہے مگر منسب اغیار کے نام پر کردیتے ہیں یہی شرک ہے اسی سلسلہ میں پھر غیر اللہ کی نذر بھی مانتے ہیں اور بچے کی پیدائش پر سلام کے لیے داتا صاحب لے جاتے ہیں وہاں پر منت پوری کرنے کے لیے بچے کا سر قبر یا غلاف کے ساتھ لگاتے ہیں غرضیکہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو نعمت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے بڑی بڑی دعائیں کرتے ہیں مگر جب وہ نعمت حاصل ہوجاتی ہے تو اس میں شرک کرنے لگتے ہیں اللہ نے دوسرے مقام پر فرمایا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین نہ الدین ، فلما نجھم الی البر اذا ھم یشرکون ، (العنکبوت) جب سمندر میں پھنس جاتے ہیں تو گڑگڑا کر خدا وعدہٗ لاشریک کو پکارتے ہیں اور جب ساحل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور غیر اللہ کی نذر و نیاز شروع ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ اولاد کے شرکیہ نام نہیں رکھنا چاہیے اور اگر کسی وجہ سے بچے کا غلط نام رکھ دیا گیا ہو تو بعد میں اس کی تصحیح کرلینی چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ابوہریرہ ؓ کا پہلا نام عبدالشمس تھا جو تبدیل کرکے حضور ﷺ نے عبدالرحمن کردیا بعض دیگرلوگوں کے نام بھی درست فرمائے اور اصول کے طور پر یہ بات سمجھا دی کہ بچے کی پیدائش پر ساتویں دن اس کا عقیقہ کریں اس کے بال اتاریں اور اس کا اچھا نام رکھیں پھر اس کی اچھی طرح تربیت کریں نام اللہ کی طرف منسوب ہونے چاہئیں چی سے عبداللہ ، عبدالرحمن ، عبدالغفوروغیرہ یا انبیاء کے نام پر ابراہیم ، یونس ، موسیٰ ، الیاس (علیہ السلام) وغیرہ نام رکھنے چاہئیں انگریزوں جیسے کینڈی اور جارج وغیرہ نام رکھنا درست نہیں ہے مولانا رشید احمد گنگری (رح) فرماتے ہیں کہ اگر ناموں میں لغوی مقصد مراد نہ بھی ہو تب بھی اس میں شرک کی بو ضرور آئے گی مثلاً اگر کوئی شخص عبدالحسین نام رکھ لیتا ہے اور اس کی نیت حسین کے بندہ ہونے کی نہیں ہے پھر بھی یہ نام درست نہیں ہے کیونکہ اس میں شرک کی آمیزش پائی جاتی ہے نام ایسا صاف ستھرا اور توحید پر مبنی ہونا چاہیے جس سے اللہ تعالیٰ کی عبدیت ظاہر ہو اور شرک کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ بلند و برتر ذات فرمایا والدین پہلے تو یہ دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صحیح سلامت تندرست اور صحت مند بچہ عطا فرمائے مگر اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرکے ٹھیک ٹھاک بچہ عطا کردیتا ہے تو اس میں اللہ کے شریک بنانے لگتے ہیں مگر اللہ نے فرمایا فتعلیٰ اللہ عما یشرکون اللہ تعالیٰ کی ذات بلندو برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ خدا کے ساتھ شریک بناتے ہیں شرک کبھی نام رکھنے میں ہوتا ہے کبھی نذرو نیاز میں ، کبھی رکوع و سجود میں اور کبھی دیگر عبادات میں بعض اوقات غیر اللہ کی انتہائی تعظیم کرکے شرک کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد مانگ کر شرک کیا جاتا ہے بہرحال شرک اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہو یا اس کی صفات کے ساتھ یا عبادت میں اس کی ذات ان چیزوں سے بلندو برتر ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ وحدہٗ لاشریک ذات ہے۔ آگے کافی دورتک شرک اور مشرکین کا رد آرہا ہے اللہ تعالیٰ نے بت پرستی اور انسان پرستی کی پورے طریقے سے تردید فرمائی ہے یہاں پر بچے کی پیدائش کے سلسلے میں جو شرک کیا جاتا ہے اس کی خصوصاً تردید فرمائی گئی ہے بچے کا نام بھی ایسا نہیں رکھنا چاہیے جس سے شرک کی بو آتی ہو بلکہ اگر کوئی ایسا نام موجود ہو تو اس کی صلاح کرلینی چاہیے حضور ﷺ نے عبدالرحمن اور عبداللہ کو بہترین نام قرار دیا ہے کیونکہ ان میں بندے کی نسبت اپنے اللہ کے ساتھ کی گئی ہے۔
Top