Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں انکے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا ﷺ کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔
ذکر نوع دیگر از حرکات شنیعۂ منافقین قال اللہ تعالی۔ ومنھم الذین یؤذون النبی۔۔۔ الی۔۔۔ بانھم کانوا مجرمین۔ (ربط) ان آیات میں بھی منافقین کی جہالتوں اور خباثتوں کا اور ان کی حرکات شنیعہ کا ذکر ہے جو دور سے چلا آرہا ہے۔ درمیان میں تبعاً صدقات کا ذکر آگیا تھا۔ اب پھر منافقین کی قبائح اور فضائح کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی خباثتوں کو بیان کرتے ہیں حق جل شانہ نے ان آیات میں منافقین کی جن قباحتوں کا ذکر کیا ان میں سے اول تو یہ ہے کہ وہ ادب سے کورے ہیں۔ آں حضرت ﷺ کی شان میں خلاف ادب اور تحقیر آمیز الفاظ زبان سے نکالتے ہیں مثلا یہ کہ آپ تو کانوں کے کچے ہیں جو سنتے ہیں اس کا یقین کرلیتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہ لوگ اپنی مجلسوں میں دین اسلام اور آں حضرت ﷺ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کرتے ہیں۔ سوم یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی کے آپ ﷺ کو ان کے استہزاء اور تمسخر سے آگاہ کردیتا ہے اور آپ ﷺ ان سے باز پرس کرتے ہیں۔ تو وہ اس کی بےسروپاتاویلیں کرتے ہیں چناچہ پہلی آیت ومنھم الذین یؤذون النبی ویقولون ھو اذن میں ان کے گستاخانہ الفاظ کا ذکر ہے۔ اور یحلفون باللہ میں ان کی جھوٹ قسموں کا ذکر ہے اور لئن سآلتھم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب میں ان کی تاویلوں اور جھوٹے بہانوں کا ذکر ہے چناچہ فرماتے ہیں اور ان منافقین میں سے کچھ لوگ وہ ہیں کہ جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ محض ایک کان ہے۔ یعنی وہ محض سننے والا کان ہے جو بات اس سے کہی جاتی ہے اس سے سن لیتا ہے اور اس کا یقین کرلیتا ہے۔ جھوٹ اور سچ میں فرق نہیں کرتا کہنے والوں کے دھوکہ میں آجاتا ہے بعض منافق اپنے مجمع میں بیٹھ کر آپ کی برائیاں کرتے۔ دوسرا منافق کہتا ایسا مت کہو کہیں آپ کو اس کی خبر نہ ہوجائے تو اس پر یہ کہہ دیتے کہ اگر آپ کو معلوم بھی ہوجائے تو کچھ پروا نہیں وہ کان کے بڑے کچے ہیں جیسا ان سے کہہ دیا جاتا ہے یقین کرلیتے ہیں ہماری شکایت کی جاتی ہے اس کا بھی یقین کرلیں گے اس آیت میں ان کے اس بےہودہ مقولہ کا جواب دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آں حضرت ﷺ کے حلم اور بردباری اور چشم پوشی سے دھوکہ لگا اس لیے آپ کا نام کان رکھا اے نبی آپ ان کے جواب میں کہہ دیجئے کہ تم خود دھوکہ میں ہو اللہ کے نبی کو دھوکہ نہیں لگا آپ بیشک کان ہیں مگر وہ تمہارے فائدے اور بھلائی کے کان ہیں۔ یا یہ معنی ہیں کہ آپ خیر کے کان ہیں شر کے کان نہیں حق اور باطل اور خیر اور شر کا فرق آپ ﷺ پر مکفی نہیں نور نبوت سے سچ اور جھوٹ کو پہچان لیتے ہیں مگر تٖغافل اور بردباری اور چشم پوشی کی بناء پر سن کر خاموش ہوجاتے ہیں اور کریمانہ اخلاق کی بناء پر صراحۃ تکذیب نہیں کرتے اور علانیہ طور پر ان کو رسوا نہیں کرتے نبی کی یہ خو تمہارے حق میں بہتر ہے ورنہ تم اول ہی سے پکڑ لیے جاتے ان بیوقوفوں نے آپ کی چشم پوشی اور مسامحت سے یہ سمجھا کہ حضور پرنور ﷺ نے ہمارے جھوٹ کو سمجھا نہیں اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ آں حضرت ﷺ کا تمہاری باتوں کو سن لینا اور اس پر سکوت فرمالینا اس کی دلیل نہیں کہ حضور پر نور ﷺ کو تمہاری باتوں کا یقین آجاتا ہے یقین تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی باتوں پر ہے اور پھر اللہ کے بعد مومنین صادقین کی باتوں پر ہے جو سرتاپا صدق اور اخلاص ہیں تم نادانوں نے حضور پر نور ﷺ کی خاموشی اور چشم پوشی کا مطلب غلط سمجھا آں حضرت ﷺ کی اس خاموشی میں تمہارا ہی نفع ہے کہ داروگیر اور قتل و غارت سے بچے ہوئے بہرحال حضور پرنور ﷺ تو گوش حق نیوش ہیں سچے اور جھوٹ کو خوب پہچانتے ہیں آپ اذن خیر ہیں اذن شر نہیں آپ کی شان تو یہ ہے کہ یقین کرتے ہیں آپ اللہ کی باتوں پر اللہ کی طرف سے آپ پر جو وحی آتی ہے آپ اس کو سنتے ہیں اور اس پر یقین کرتے ہیں اور دوسرے درجہ میں مومنین مخلصین کی بات سن کر اس کا یقین کرتے ہیں کیونکہ ان کا صدق اور اخلاص آپ ﷺ کو معلوم ہے اس لیے آپ ﷺ ان کی خبر کی تصدیق کرتے ہیں اور تم میں سے جو خالص ایماندار ہیں ان کے لیے آپ مجسم رحمت ہیں کہ آپ کی ہدایت اور فیض صحبت سے دنیا کی آلائشوں سے پاک وصاف ہو کر خدا کے مقرب بنے اور تم بدبخت اس رحمت اور نعمت سے محرم ہو یہ قصور تمہارا ہے اس کا نہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ الذین امنوا منکم سے وہ منافقین مراد ہیں جنہوں نے ایمان کو ظاہر کیا اور ان کے حق میں رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ باوجود اس علم کے کہ یہ منافق ہیں آ ﷺ نے ان کے ظاہری اسلام کو قبول کیا اور ان کے نفاق سے چشم پوشی کی اور ان کی پردہ دری نہیں فرمائی آں حضرت ﷺ تمہاری حقیقت کو سمجھ کر حسن اخلاق اور حلم اور بربداری کی بناء پر تمہاری باتیں سن لیتے ہیں اور دیدہ دانستہ چشم پوشی کر جاتے ہیں اور تم اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہو کہ آں حضرت ﷺ حقیقت حال کو سمجھے نہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نہیں سمجھے بہر حال آپ ﷺ کی یہ خاموشی اور چشم پوشی اور نرمی اور اغماض اور مسامحت تمہارے لیے ایک قسم کی رحمت ہے کہ باوجود علم کے آپ ﷺ نے تم کو برملا رسوا نہیں کیا اور تمہارا پردہ فاش نہیں کیا اور اس میں ایک رحمت یہ بھی ہے کہ شاید آپ ﷺ کی یہ مسامحت کسی وقت ان کے حق میں ذریعہ ہدایت بن جائے۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذ پہنچاتے ہیں ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے پس تم کو چاہئے کہ آپ کی ایذا رسانی سے پر وہیز کرو نہ آپ کے صدقات پر طعن کرو اور نہ آپ ﷺ کو ہو اذن کہو یہ سب باتیں آپ ﷺ کے لیے موجب ایذا ہیں۔ حلف کاذب منافقین اپنی خلوتوں میں آں حضرت ﷺ اور مومنین پر طعن کرتے اور پھر جب وہ بات آں حضرت ﷺ کو پہنچتی تو آکر حلف کرتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی اپنے قول سے مکر جاتے۔ چناچہ فرماتے ہیں اے مسلمانو ! یہ منافق تمہارے آگے اللہ کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم نے فلاں بات نہیں کہی تاکہ تم کو راضی کریں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ سزا وار ہیں کہ اس کو راضی کریں اگر یہ لوگ واقع میں سچے ایماندار ہیں جیسا کہ کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ان کو اتنی عقل نہیں کہ یہ دغا اور فریب اللہ اور اس کے رسول کے یہاں کام نہیں دیتی اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ اپنے نبی کو بذریعہ وحی کے مطلع کردیتا ہے۔ نکتہ اول : یرضوہ کی ضمیر مفرد اللہ کی طرف راجع ہے چونکہ رسول کی رضا اسی میں ہے جس میں اللہ کی رضا ہے اس لیے ضمیر تثنیہ کی بجائے ضمیر واحد لائی گئی تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔ نکتۃ دیگر : حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی (رح) اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں۔ جاننا چاہئے کہ آں حضرت ﷺ میں دو شانیں تھیں ایک شان سلطنت اور دوسری شان نبوت اور محبوبیتِ حق۔ پس منافقین اپنی جھوٹی قسموں سے حضور پرنور ﷺ کو اور آپ کے صحابہ ؓ کو بحیثیت شان سلطنت راضی کرنا چاہتے تھے۔ بحیثیت شان نبوت و رسالت آپ کو راضی کرنے کی فکر نہ تھی اور اس حیثیت سے آپ کو راضی کرنا عین حق تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور بعثت کا اصل مقصد شان نبوت و رسالت تھی شان سلطنت مقصود نہ تھی۔ بلکہ شان نبوت کے تابع تھی کہ احکام خداوندی کے اجراء میں سہولت ہو۔ منافقین حضور پرنور ﷺ کو بہ حیثیت سلطنت راضی رکھنا چاہتے تھے تاکہ ان کے جان ومال محفوظ رہیں اور ان کے ساتھ کافروں جیسا معاملہ نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ غرض سلطنت کی حیثیت سے متعلق ہے حضور پر نور ﷺ کو نبوت و رسالت اور مظہر حق ہونے کی حیثیت راضی کرنے کی ان کو کوئی فکر اور پروا نہ تھی حالانکہ حضور پرنور ﷺ کی رضا نائب حق ہونے کی حیثیت سے مطلو ہے اور اس آیت میں اسی کا ذکر ہے اور جس حیثیت سے تم حضور ﷺ کو راضی کرنا چاہتے ہو وہ مطلوب نہیں اور جس حیثیت سے حضور ﷺ کو راضی کرنا مطلوب ہے اس حیثیت سے تم حضور ﷺ کو راضی کرنا نہیں چاہتے اور نہ تمہیں اس کی پروا ہے۔ ابو طالب کو حضور ﷺ سے بہت محبت تھی مگر وہ صرف اس حیثیت سے تھی کہ حضور ﷺ آپ کے چہیتے تھے یا بعض کفار کو آپ سے اس لیے محبت تھی کہ آپ ﷺ بڑے عاقل کامل یا بڑے سخی اور مہمان نواز تھے اور اب بھی بعض مصنفین یورپ آپ ﷺ کی عقل اور فہم و فراست کی اور ہمت اور شجاعت کی اور آپ ﷺ کے قانون شریعت کی بڑی تعریف کرتے ہیں مگر ان تمام حیثیتوں سے آپ ﷺ کی محبت اور رضا شرعاً نجات کے لیے کافی نہیں بلکہ نجات کے لیے یہ ضروری ہے کہ نبی اور رسول ﷺ اور نائب حق ہنے کی حیثیت سے آپ ﷺ سے محبت کی جائے اور اسی حیثیت سے آپ کو راضی کیا جائے۔ انتہی کلامہ ماخوذ از رضاء الحق ص 20 ج 1 و ص 12 ج 2 وعظ ششم وہفتم از سلسلۂ البلاغ۔ کیا ان منافقوں نے یہ نہیں جانا کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا پس تحقیق اس کے لیے آخرت میں دوزخ کی آگ تیار ہے وہ ہمیشہ اسی آگ میں رہے گا کبھی اس سے باہر نہ نکل سکے گا یہی ہمیشہ دوزخ میں رہنا بڑی رسوائی ہے لیکن منافقین اس رسوائی کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ تو صرف دنیاوی ذلت اور رسوائی کی پروا کرتے ہیں۔ چناچہ منافقین اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں پر قرآن کی کوئی ایسی سورت نازل ہوجائے جو ان کے دلوں کی بات سے مسلمانوں کو آگاہ کردے جس سے یہ لوگ دنیا میں رسوا ہوں یعنی ان کو ہر وقت یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ کہیں خدا ہمارے بارے میں آں حضرت ﷺ پر کوئی ایسی سورت نہ نازل کردے جس سے مومنوں پر ہمارے اندرونی حالات کھول دئیے جائیں اور دنیا میں رسوا ہوں اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اس ڈر کا مقتضی تو یہ تھا کہ تم نفاق کو چھوڑ دیتے لیکن معاملہ برعکس ہے کہ نفاق کو تو کیا چھوڑتے دین کے ساتھ تمسخر اور استہزاء میں لگے ہوئے ہو۔ اچھا دین کے ساتھ دل کھول کر ٹھٹھا کرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے جس چیز کے ظاہر کرنے سے تم ڈر رہے ہو یعنی تمہارے دل کی وہ تمام باتیں جو تم دل میں چھپائے ہوئے ہو اندر سے نکال کر باہر سب کے سامنے رکھ دے گا تاکہ جس رسوائی سے ڈرتے ہو وہ نظروں کے سامنے آجائے اور اس ڈر سے بچنے کے لیے یہ سوچے ہوئے ہیں کہ اگر آپ ان سے اس استہزاء اور تمسخر کے تمسخر کے متعلق باز پرس کریں اور پوچھیں کہ تم نے یہ کیا کیا اور کیا کہا تو البتہ بات بنانے کے لیے یہ کہیں گے کہ ہم تو مسافروں کی طرح راستہ کاٹنے کے لیے آپس میں ایسی باتیں اور دل لگی کر رہے تھے۔ یعنی جب آپ نے ان سے بلا کر باز پرس کی کہ تم کس لیے دین پر طعن کرتے ہو تو قسم کھا کر کہنے لگے کہ یہ ہمارا دلی اعتقاد نہ تھا محض خوش وقتی اور دل لگی کے طور پر محض زبان سے ایسی باتیں کر رہے تھے تاکہ باتوں میں آسانی سے راستہ کٹ جائے۔ طعن زنی اور عیب جوئی ہمارا مقصود نہ تھا آپ ﷺ ان کے جواب میں کہہ دیجئے کیا اللہ اور اس کے احکام اور اس کے رسول کے ساتھ تمسخر کرتے تھے کیا تمسخر اور ہنسی اور دل لگی کے لیے تم کو اللہ اور رسول ﷺ ہی ملے تھے۔ بہانے مت بناؤ تمہارے دل کفر اور نفاق سے لبریز ہیں۔ تحقیق تم نے دعوائے ایمان کے بعد یہ صریح کفر کیا ہے۔ کیونکہ دین کے ساتھ استہزاء اور تمسخر اگرچہ وہ محض زبانی ہو وہ بھی کفر ہے مطلب یہ ہے کہ اے منافقوا ! اب زیادہ بہانے نہ کرو۔ اب تک تو ظاہر میں تم مسلمان تھے مگر اس استہزاء اور تمسخر کے بعد وہ تمہارا ظاہری اسلام بھی جاتا رہا اور اس استہزاء و تمسخر سے تم نے اپنا اندرونی کفر ظاہر کردیا لہذا ایسے جھوٹے عذر تراشنے اور حیلے حوالوں سے کوئی فائدہ نہیں جرم کی سزا مل کر رہے گی ہاں اگر تم میں سے ایک فریق کا قصور معاف کردیں گے۔ جو صدق دل سے توبہ کرلیں گے تو دوسرے فریق کو عذاب دیں گے جنہوں نے کفر اور نفاق اور استہزاء اور تمسخر سے توبہ نہیں کی اس وجہ سے کہ وہ مجرم تھے کچھ تو زبان سے تمسخر کرتے تھے اور کچھ دل سے اس پر راضی تھے۔ معاف کرنے سے مراد توبہ کی توفیق دینا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان میں جو لوگ صدق دل سے تائب ہوجائیں گے ان کو معاف کردیں گے مگر جو لوگ صدق دل سے توبہ نہیں کریں گے بلکہ بدستور اپنے جرم پر قائم رہیں گے ان کو ضرور سزا دیں گے۔
Top