(5) " حطمہ " کا معنی و مفہوم : " حطمہ " دراصل مشتق و ماخوذ ہے " حطم " سے جس کے معنی توڑنے پھوڑنے اور چکنا چور کردینے کے آتے ہیں، اور یہ بھی " ھمزہ " اور " لمزہ " کی طرح مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی وہ آگ ایسی ہولناک اور اس قدر شدید ہوگی کہ جو چیز بھی اس کے اندر گرے گی وہ اس کو چکنا چور کرکے رکھ دے گی ( ابن کثیر، قرطبی، خازن اور صفوہ وغیرہ) والعیاذ باللہ العریز الرحیم۔ سو دوزخ کی وہ آگ ایسی ہولناک اور اس قدر چکنا چور کردینے والی ہوگی کہ اس دنیا میں اس کا تصور کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں، اور جس زرپرست اور منکر انسان کا انجام یہ ہونے والا ہو اس کو اگر دنیا ساری کی دولت بھی مل جائے تو بھی تو اس کو کیا ملا ؟ والعیاذ باللہ العظیم۔ " حطمہ " کی توضیح کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ نہایت ہی ہولناک آگ ہوگی، اور وہ اس قدر خوفناک اور اتنی ہولناک آگ ہوگی کہ از خود اور اپنے طور پر اس کا تصور بھی کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو بخیل اور کنجوس سرمایہ داروں نے اپنی دولت کو جو سونے اور چاندی کی اینٹوں وغیرہ کی صورت میں اور مختلف زیورات و ظروف اور جواہرات کی شکل میں محفوظ کر رکھا تھا اس روز وہ اس ہولناک آگ میں پڑ کر چکنا چور ہوجائے گی، اور ان کے لیے اس کو مزید بھڑکانے اور تیز کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور اس کے سامنے واضح ہوجائے گا جس چیز کو یہ لوگ حیات جاوداں کا ذریعہ سمجھتے تھے وہ اس روز ان کے سامنے خود اس طرح چکنا چور ہو کر ان کے عذاب میں اضافے کا باعث بنے گی، پس اس دولت کے برباد کرنے کے لیے چو چور کردینے کی یہ تعبیر بڑی واضح اور نہایت موزوں ہے کہ اپنی جس دولت کو ایسے لوگ بہت کچھ بلکہ سب کچھ سمجھتے تھے یہاں تک کہ اس کے عشق اور محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے اپنی عاقبت اور اپنے خالق ومالک کے حقوق کو فراموش کردیا تھا، اس کا نتیجہ یہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین و یا ارحم الرحمین، واکرم الاکرمین۔