Tafseer-e-Saadi - Al-Maaida : 46
وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًا١ؕ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ
وَلَهٗ : اور اسی کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَهُ : اور اسی کے لیے الدِّيْنُ : اطاعت و عبادت وَاصِبًا : لازم اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَتَّقُوْنَ : تم ڈرتے ہو
اور اسی (وحدہ، لاشریک) کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین کے اندر (موجود) ہے اور اسی کا حق ہے لازمی اطاعت (و فرمانبرداری) تو کیا پھر بھی تم لوگ اللہ کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو ؟
101۔ کائنات ساری اللہ وحدہ لاشریک ہی کی ہے : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور حصروقصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ خلق وملک اور حکم وتصرف کے اعتبار سے کہ سب کا خالق بھی وہی وحدہ لاشریک ہے مالک بھی وہی۔ اور اس پر تصرف اور حکم بھی اسی کا اور صرف اسی وحدہ لاشریک کا چلتا ہے سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور جب یہ شان اس وحدہ لاشریک کی ہے اور اس میں کوئی بھی اس کا شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ پس عبادت کی ہر شکل اور اس کی ہر قسم اسی کا حق اور اس کا اختصاص ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ پس سب کا خالق ومالک بھی وہی وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کے لئے بجا لانا شرک اور ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 102۔ اطاعت مطلقہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اسی کا حق ہے لازمی اور دائمی اطاعت عبادت، کہ معبود برحق وہی اور صرف وہی ہے۔ اس کائنات اور اس کی ہر نعمت کا خالق ومالک بھی وہی وحدہ لاشریک ہے۔ پس اطاعت مطلقہ بھی اسی کا حق ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ " واصب " کے معنی لازم کے بھی کیے گئے ہیں (محاسن التاویل) اور اس کے معنی دائم کے بھی گئے ہیں۔ (المراغی) سو ان دونوں معنوں کے ملانے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اسی کا حق ہے لازمی و دائمی اطاعت کہ معبود برحق اور مطاع مطلق بہرحال وہی وحدہ لاشریک ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور جب آسمانوں اور زمین کی اس ساری کائنات اور اس کی تمام نعمتوں کا خالق ومال بھی وہی ہے اور اس سب میں حکم وتصرف بھی اسی کا چلتا ہے تو اطاعت مطلقہ کا حقدار بھی وہی وحدہ لاشریک ہے۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ 103۔ منکرین ومنحرفین کے دلوں پر ایک دستک : سو ارشاد فرمایا گیا اور منکرین ومنحرفین کے قلوب وضمائر پر ایک زورداردستک کے طور پر بطوراستفہام ارشاد فرمایا گیا کہ کیا پھر بھی تم لوگ غیر اللہ سے ڈرتے ہو ؟ یعنی جب تم یہ جان چکے کہ خالق ومالک اس پوری کائنات کا وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور عبادت و بندگی اور اطاعت مطلقہ بھی اسی کا حق ہے۔ اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے۔ تو پھر بھی اوروں سے ڈرنے اور خوف کھانے کی آخر کیا تک اور کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟۔ والعیاذ باللہ۔ پس عقل ونقل کا تقاضا یہی ہے کہ انسان ہمیشہ اور ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک سے ڈرے اور ہمیشہ اسی کی رضاء کے حصول کو اپنا مطمح نظربنائے اور اپنے پیش نظر رکھے کہ وہ اگر راضی ہوجائے تو پھر کسی اور کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے ؟ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف استفہام یہاں پر انکاری ہے کہ جب معبود برحق وہی وحدہ لاشریک ہے۔ ہر قسم کا نفع و نقصان بھی اسی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے تو ڈرنا بھی اسی سے چاہیے اور مغفرت وبخشش سے نوازنا بھی اسی کا کام اور اسی کے شان ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (ھواہل التقوی واہل المغفرۃ) ۔ (المدثر : 56) یعنی " وہی ہے جس سے ڈرا جائے اور وہی ہے بخشش فرمانے والا " اور اس کانہ کوئی شریک ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے ہر طرح کی عبادت و بندگی خالص اسی کا حق ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (الاللہ الدین الخالص) (الزمر : 3) یعنی آگاہ رہو کہ اللہ ہی کا حق ہے خالص دین اور عبادت، کہ معبود برحق اور مطاع مطلق بہرحال وہی اور صرف وہی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top