Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 104
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ ضَلَّ : برباد ہوگئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَهُمْ : اور وہ يَحْسَبُوْنَ : خیال کرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يُحْسِنُوْنَ : اچھے کر رہے ہیں وہ صُنْعًا : کام
وہ جن کی ساری کوشش اکارت چلی گئی دنیا کی زندگی میں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں
149 سب سے بڑے خسارے والوں کی نشاندہی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان سے کہو کہ کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتادیں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں ہیں۔ سو یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش اور محنت اکارت چلی گئی دنیاوی زندگی میں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں "۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کی تمام تر کوشش و محنت اور ساری تگ و دو اسی دنیاوی زندگی کو سنوارنے بنانے اور جوڑنے جمع کرنے میں صرف ہوجائے کہ ان کے نزدیک سب کچھ یہ دنیا ہی دنیا ہے۔ جیسا کہ مادہ پرست لوگوں کا حال ہے کہ ان کا جینا مرنا سب کچھ اسی دنیائے دوں اور اس کے متاع فانی کے لئے ہے اور بس۔ آخرت کے لئے وہ سوچتے ہی نہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو مادیت سے آگے بڑھ کر روحانیت اور آخرت کے لئے سوچ و فکر تو رکھتے ہیں مگر وہ حق کی روشنی سے محروم ہونے کے باعث طرح طرح کے اندھیروں میں غوطے کھا رہے ہیں۔ جیسے راھب، جوگی اور پنڈت، پادری وغیرہ کہ اپنے طور پر یہ لوگ بھی آخرت کو مانتے اور اس کے لئے محنت و مشقت کرتے ہیں۔ چناچہ وہ چلے کاٹتے، طرح طرح کی ریاضتیں کرتے، مشقتیں اٹھاتے، بھوکے پیاسے رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر آخرت میں ان کو اس کا کچھ بھی اجر وثواب ملنے والا نہیں۔ کیونکہ وہ صحیح ایمان و یقین کے نور اور حق و ہدایت کی دولت سے محروم تھے اور محروم ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ چناچہ روایات میں وارد ہے کہ حضرت عمر فاروق ۔ ؓ ۔ جب اپنے دور خلافت میں شام تشریف لے گئے تو وہاں آپ ؓ نے ایک ایسے بوڑھے راہب کو دیکھا جس کا جسم طرح طرح کی ریاضتوں، مشقتوں اور چلہ کشیوں کی وجہ سے سوکھ کر لکڑی بن چکا تھا۔ تو اس کو دیکھ کر آپ ؓ کی آنکھوں میں اس کی اس بےمقصد اور بےفائدہ ریاضت و مشقت سے آنسو آگئے اور آپ نے اس موقع پر یہ آیات کریمہ تلاوت فرمائیں ۔ { وَجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ، عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ، تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً ، تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃٍ } ۔ (الغاشیہ : 2- 5) ۔ سو سلامتی اور نجات کی راہ ایک اور صرف ایک ہے کہ آخرت کے لئے فکر و کوشش ہو اور حق و ہدایت کی اس روشنی میں ہو جو اللہ پاک نے اپنے بندوں کی راہنمائی کے لئے اپنے پیغمبروں کے ذریعے نازل فرمائی ہے۔ اور جو اب اپنی کامل، آخری اور دائمی شکل میں قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی ۔ انشاء اللہ العزیز۔ اس کے سوا نجات کی دوسری کوئی راہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ سو جن لوگوں نے حق و ہدایت کی اس شاہراہ اعظم کو چھوڑ کر کسی اور راہ کو اپنایا وہ سراسر خسارے اور ٹوٹے میں ہیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ اسی لئے جو لوگ دین حق میں اپنی طرف سے مختلف قسم کی بدعات کا اضافہ کرتے ہیں وہ سب نصوص صریحہ کے مطابق باطل و مردود ہے۔ ان کو اس طرح کرنے والے ایسے اہل بدعت کے مونہوں پر مارا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ خواہ وہ عشق و محبت کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں۔ کیونکہ نبی ٔ اکرم ﷺ کا صاف وصریح ارشاد گرامی ہے " مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ " یعنی جو ہمارے دین میں کوئی ایسی بات شامل کرے گا جو اس میں ثابت نہ ہو تو وہ مردود ہے۔ (اور اس کو اس کے منہ پر مارا جائے گا) ۔ والعیاذ باللہ ۔ خلاصہ یہ کہ بڑے خسارے میں ہیں وہ مادہ پرست لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس دنیا ہی دنیا ہے۔ جس کو یہ مل گئی اس کو سب کچھ مل گیا۔ اس لئے وہ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اسی طرح وہ لوگ بھی سخت خسارے اور گھاٹے میں ہیں جو آخرت کے لئے عمل تو کرتے ہیں مگر وحی کی روشنی اور پیغمبر کی اتباع کے بغیر کرتے ہیں جس سے وہ زندگی بھر طرح طرح کی محنتیں کرنے کے باوجود آخرت میں محرومی و ناکامی کے اسی انجام سے دو چار ہوں گے جس سے حق و ہدایت کے نور سے محروم دوسرے منکر لوگ دو چار ہوئے۔ جیسے راھب، پنڈت، جوگی اور بدعتی چلہ کش وغیرہ۔ پس سلامتی اور کامیابی کی راہ ایک اور صرف ایک ہے کہ آخرت کے لئے تیاری کی جائے اور ضرور کی جائے۔ لیکن قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں کی جائے ۔ واللہ الموفق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 150 برائی کو اچھائی سمجھنا محرومیوں کی محرومی ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ان سب سے بڑے خسارے والوں کی مزید توصیف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ غلط کار ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ وہ ٹھیک کررہے ہیں "۔ جس کے باعث وہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ اپنی بری اور غلط روش ان کو اچھی نظر آتی ہے۔ اپنے باطل کو وہ حق اور اچھا سمجھتے ہیں اور عمر رواں کی متاع عزیز کو وہ اسی غلط روی میں ضائع کردیتے ہیں۔ اور ان کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم اپنا کوئی نقصان کر رہے ہیں۔ اور یہ سب سے بڑا خسارہ و نقصان ہے ۔ وائے ناکامی متاع کاروں جاتا رہا ۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ۔ پس اپنی برائی کو اچھائی سمجھنا بہت بڑی ناکامی اور خرابی کی جڑ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ { اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہ سُوْئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا } ۔ (فاطر : 8) یعنی کیا اس شخص کی محرومی اور بدبختی کا کوئی ٹھکانا ہوسکتا ہے جس کے لیے اس کے برے عمل کو خوشنما بنادیا جائے جس سے وہ اس کو اچھا سمجھنے لگے۔ سو برائی کو اچھائی سمجھنا قدرت کی طرف سے ایک عذاب اور نقد سزا ہے جو ایسے بہکے بھٹکے لوگوں کو ان کے اپنے سوئِ اختیار اور خبث باطن کی بناء پر ملتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال و سوء و انحراف۔ اللہ تعالیٰ فکر و نظر کے ہر انحراف سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top