Tafseer-e-Madani - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
پھر پہنچا دیا ان کو درد زہ کی شدت نے کھجور کے درخت کے نیچے، تب انہوں نے حسرت بھرے انداز میں کہا اے کاش کہ میں مرگئی ہوتی اس سے پہلے، اور میرا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا ہوتا،5
30 حضرت مریم کی طرف سے اظہار افسوس : سو حضرت مریم صدیقہ کے ان کلمات سے انتہائی حسرت اور ندامت کا اظہار ہوتا ہے کہ " میں مرگئی ہوتی " اور مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا جو میرے لئے فضیحت و رسوائی کا باعث بنے گا۔ حضرت مریم صدیقہ ۔ سلام اللہ علہیا ۔ اپنے فطری شرم و حیا کے غلبے کی وجہ سے اس موقع پر فرشتہ کی بشارت و خوشخبری کو بھی بھول گئیں اور ان درد بھرے الفاظ سے اپنی اندرونی کیفیت کا اس طرح اظہار فرمایا جو کہ آپ کی عفت و پاک دامنی اور شرم و حیا کے کمال کی نشانی اور ثبوت ہے۔ سو یہاں سے دو اہم اور بنیادی باتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ یہود کس قدر خبیث اور کتنی بدباطن قوم ہے جس کو حضرت مریم قدیسہ ایسی پاکیزہ ہستی پر بھی بدکاری کا ایسا ہولناک الزام لگانے میں کوئی شرم نہ محسوس ہوئی۔ اور دوسری بات یہ کہ قرآن حکیم کی اس کتاب مقدس کے دنیا پر کس قدر بڑے اور کتنے عظیم الشان احسانات ہیں کہ اس نے حضرت مریم صدیقہ کی جو اور جس طرح صفائی پیش کی اس کا عشر عشیر بھی اور کہیں، حتیّٰ کہ خود ان لوگوں کی اپنی بائبل میں بھی نہیں مل سکے گا جو ان پر ایمان کے دعویدار ہیں ۔ وللہ الحمد رب العالمین ۔ بہرکیف حضرت مریم کے ان کلمات کریمہ سے آپ کے اندر کی کیفیت اور آپ کے باطن کے مشاعر و احساسات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے کہا کاش کہ میں اس فضیحت و رسوائی کے پیش آنے سے پہلے ہی مر مٹ چکی ہوتی اور ایسی کہ لوگوں کے اذہان اور حافظوں سے بھی محو ہوچکی ہوتی۔ اور یہ طبعی تقاضا تھا حضرت مریم قدیسہ کی عفت و پاکدامنی کا۔
Top